بینظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی عوام کی آرزوؤں کی تکمیل کا نام ہے

41

ذوالفقار علی بُھٹو کی شہادت کے چندماہ بعدمحترمہ بے نظیر جن کو اس وقت آنسہ بے نظیر بھٹو کہا جاتا تھا۔لاہور کے دور ہ پر آئیں، مجھے پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر شیخ رفیق احمد کے اسسٹنٹ شیخ تاج دین نے کہا،(شیخ رفیق ان دنوں ساہیوال جیل میں قید تھے)بے نظیر بھٹو لاہور آرہی ہیںاور لاہور میں فاروق لغاری کے گھر پر کارکنان سے ملاقات اور خطاب کریں گی۔میں اگلے روز تاج دین کے ہمراہ رکشہ پر ایف سی کالج کے بالمقابل فاروق لغاری کی کوٹھی پر پہنچا ۔کینالوں پر مشتمل ایک سردار کی رہائش گاہ اپنے جاہ و جلال کا اظہارکر رہی تھی، مگر کم ہی لوگوں کو معلوم تھاکہ اندر کربلا سے گزر کر آنے والا قافلہ بھی موجود ہے ، جس کی سربراہی آکسفورڈسے پڑھی ہوئی کمزور سی لڑکی کر رہی ہے جس کے ارادے چٹانوں سے بھی مضبوط ہیں۔ بے نظیر بھٹو نے اسی گھر کے لان میں لوہے کی کرسی پر کھڑے ہو کر کارکنوں سے خطاب کیا۔ وہاں پر موجود افراد کی تعداد تقریباً سو ((100 کے لگ بھگ تھی، جن میں سے کئی کو کوڑے پڑ چکے تھے اور باقی شاہی قلعہ کے اذیت خانوں میں جانے کے لیے تیار تھے۔ میرے ذاتی دوستوں کے علاوہ جن میں آغا نوید برادران ، ملک منظور احمد ایڈووکیٹ، رانا عیش بہادر ایڈووکیٹ، اشرف مناواں، میاں جہانگیر ایڈووکیٹ، آغا امیر حسین موچی گیٹ، عابد جمیل باجوہ، شیخ اخلاق حسین، حسن ایوب نقوی، رانا منشا، باؤ شفیق پان والا، دلاور بٹ، شیخ تاج دین، چودھری غلام قادر، ضیا بخت بٹ جیسے لوگ شامل تھے، جن سے میرا اکثر ملنا تھا، جبکہ بے نظیر بھٹو نے اپنے خطاب میں حوصلہ اور جدوجہد کی باتیں کیں۔ وہ پُر عزم تھیں، کہ ہم عوام کے حقوق واپس لے کر رہیں گے۔
بھٹو کے عدالتی قتل نے معاشرے میں بھٹو دوست اوربھٹو دشمن کی تفریق کھڑی کر دی تھی۔ مجھے آہستہ آہستہ بھٹوکے قتل کے بعد ستمبر 79ء میں ناصر باغ میں ہونے والا پیپلز پارٹی کا جلسہ بھی یاد آرہا ہے جس میں بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر کو دیکھنے کے لیے لاکھوں کی تعداد میںلوگ شریک ہوئے، جبکہ لاہور کی آبادی بھی25 سے 30لاکھ کے قریب تھی۔ جنرل ضیاء اور اس کے حواری اس جلسے سے گھبرا کر انتخابات کے وعدے سے مکر گئے۔اُنھیں یقین ہو گیا کہ PPPکو ختم کرنے کا خواب نا مکمل رہے گا۔ضیاء ٹولے نے عام انتخابات سے تو فرار حاصل کر لیا مگر اسی سال 1979ء میں اگلا تجربہ بلدیاتی انتخابات کا کیا۔ یہ انتخابات ایسے ہوئے کہ پیپلز پارٹی کے سوا کوئی کہیں نظر ہی نہیں آیا۔لاہور میں 100سیٹوں پر الیکشن ہوا جن میں سے 85سیٹیں PPPکے عوام دوست اُمیدوار جیت گئے۔جیتنے والوں کی اکثریت جیلوں میں تھی۔اُن کی انتخابی مہم صرف ان دنوں روز نامہ مساوات میں عوام دوست امیدوار ہونے کا اشتہار ہوتا تھا، جس کی بنیاد پر لوگوں نے ان پر ووٹوں کی برسات کردی۔ ایک حاضر سروس جنرل شجاع الرحمن کو لاہور کا میئر بنانے کے لیے سر گرم ہوا کسی کونسلر کو مارا گیا، کسی کے گھر والوں کو بھی اغوا کیا گیا تمام تر مارشل لائی جبر کے باوجود شجاع الرحمن صرف 24ووٹ لے کر میئر بن گئے۔
جھنگ میں PPPکی امیدوار عابدہ حسین تھیں۔ وہاں میئر کا الیکشن ہوا ہی نہیں ، کیونکہ مارشل لاء کو کوئی امیدوار دستیاب نہیں تھا۔ اور ڈھائی سال بعد جا کر میئر نامزد کرنے میں کامیاب ہوئے۔ بات کہاں سے کہاں جا رہی ہے یادوں کے دریچے کھلتے جا رہے ہیں ، میں اپنے موضوع سے ہٹتا جا رہا ہوں۔ مجھے PPP پنجاب کے صدر شیخ رفیق احمد کی سر پرستی حاصل رہی۔ جس کے سبب میں 1978ء میں ہی 14 سال کی عمر میں انتہائی سر گرم ہو گیا تھا۔ بعد ازاں PPP پنجاب آفس جو جین مندر پرانی انارکلی میں واقع تھا،جب پولیس نے خالی کروایا تو میں وہاں سے کافی ریکارڈ اور سامان لے آیا، اس وقت پنجاب آفس کو شیخ اخلاق حسین، آغا منصوب، حفیظ خان چلا رہے تھے۔اُن کی ہمت اور جرأت کو آج بھی سلام ہے۔
شاید اُن میں سے صرف شیخ اخلاق حسین ہی حیات ہیں، جو آج بھی PPP سے جُڑے ہوئے ہیں، وقت گزر تا گیا،MRDبنی او ر طویل جدوجہد کے بعد ضیاآمریت سے نجات ممکن ہوئی۔اور محترمہ بے نظیر بھٹو اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں اور 2دسمبر 1988ء کو انھوں نے وزیراعظم کا حلف اُٹھایا۔جنرل ٹکا خان گورنر پنجاب نامزد ہوئے۔اور رفیق احمد شیخ پیپلز پارٹی کو مر کزی سیکرٹری اطلاعات سے سنٹرل سیکرٹری جنرل بنایا گیا، مجھے شیخ صاحب کی ہدایت پر اسلام آباد میں پارٹی سیکریٹریٹ قائم کرنا تھا۔پہلے میں راولپنڈی پارٹی کے آفس خیابان سر سید میں میز کرسی رکھ کر بیٹھ گیا۔پھر کورڈ مارکیٹ ، اسلام آباد پارٹی کے آفس کا رخ کیا۔نیئر بخاری اس وقت اسلام آبا د پارٹی کے صدر تھے۔وہاں پہلے ہی مناسب جگہ نہ تھی، چند ماہ بعد شیخ رفیق احمد کے پرانے ساتھی ڈاکٹر واحد نے میلوڈی مارکیٹ میں اپنے پلازہ (ہُما)میں پورا پہلا فلور پارٹی کے آفس کیلئے دے د یا ڈاکٹر واحد کرنل قذافی کے ذاتی معالج بھی رہے تھے۔ وہاں پر وزیراعظم نے کارکنان کے کاموں میں مدد کے لیے میرباز کھتیران کی ڈیوٹی بھی لگائی، میربازخان کھتیران باقاعدگی کے ساتھ پارٹی آفس میں آتے۔ اور کارکنان کی مددکی ہر ممکن کوشش کرتے۔ اس طرح مجھے محترمہ بے نظیر بھٹو سے مسلسل ملنے یا قریب رہنے کا موقع ملنا شروع ہو گیا، پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاسوں کے منٹس، ایجنڈا تجاویز، قراردادیں اور پارٹی کی گائیڈ لائن کے مطابق محکموں سے ان کی اس گائیڈ لائن پر عمل درآمد کی رپورٹس حاصل کر کے سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے سامنے پیش کرنا بھی میری ذمہ داری
تھی۔ اس میں کئی دفعہ کوئی نہ کوئی کمی رہ جاتی، بی بی شہید کی طرف سے وقتی جھاڑ بھی پڑتی مگر اُنھیں معلوم تھا کہ یہ سیکرٹری جنرل PPP کااکیلا بازو ہے۔ جب وہ Appreciate کرتیں تو ہر کمی دور ہو جاتی۔
اب پھر واپس آتا ہوں محترمہ شہید کے دو واقعات آپ کے گوش گزار کرتا ہوں، ان کا سیاسی ویژن نیشنل اور انٹر نیشنل اثر و رسوخ اس قدر وسیع تھااور کارکنان کی اہمیت ان کے نزدیک کس قدر تھی۔
1992ء میں PPP مسلسل بے نظیر بھٹو کی قیادت میں جلسے جلوس اور لانگ مارچ کرتی رہی، اس کے نتیجے میں نواز شریف حکومت رخصت ہو گئی، ساتھ ہی Establishment اور بیوروکریسی کے ان داتا صدر اسحاق خان بھی ان کا نشانہ بن گئے، اور دونوں کو ایک ساتھ ہی حکومت سے مستعفی ہونا پڑا۔
پہلے لانگ مارچ کا آغاز 18 نومبر2 199ء لاہور سے ہوا تھا جبکہ دوسرا لانگ مارچ جولائی1993 میں ہوا۔ جب مختلف شہروں سے بھی جلوس اسلام آبا د پہنچنے تھے۔ اس سلسلے میں تیاری کے لیے گلزار ہاؤس میں ایک اجلاس منقعد ہوا، جس میں پارٹی کے 25 کے قریب رہنما شریک تھے۔ جن کا تعلق سندھ، سرحد (آج کے (KPK بلوچستان اور پنجاب سے تھا۔ جبکہ باقی رہنماؤں نے اپنے اپنے شہروں سے جلوسوں کے ساتھ اسلام آباد پہنچنا تھا۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ جی ٹی روڈ اور مختلف ہائی ویز پر دیواریں کھڑی کر کے راستہ بند کر دیا گیا۔ گلزار ہاؤس کے ڈرائنگ روم میں ہونے والے اجلاس میںایک بڑی ٹیبل بھی رکھی گئی تھی جس پر گرین کپڑے کے ذریعے پاکستان کے اسلام آباد آنے والے راستوں کا نقشہ بنایا گیا تھا۔ مختلف لیڈر بتا رہے تھے کہ اگر یہ روڈ بند ہوتی ہے تو کیسے اور کس راستے سے اسلام آباد پہنچنا ہے۔ اس طویل میٹنگ جو (رات دس بجے کے قریب ختم ہوئی) میں ایک انجان شخص بھی شریک تھا۔ میں نے شیخ رفیق احمد سے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے انھوں نے لا علمی کا اظہار کیا۔ میں نے جہانگیر بدر سے بھی یہی سوال کیا انھوں نے بھی خاموشی سے انکار کر دیا۔
پھر میٹنگ کے اختتام پر پھر تجسس ہوا کہ یہ کون تھا جس کو اجلاس میں شریک کوئی نہیں جانتا۔ بالآخر یہ بات خود ہی سمجھ آ گئی کہ اقتدار کی بھول بھلیاں کہاں کہاں سے گزر کر اپنے مقام پر پہنچتی ہیں۔ ہم گلزار ہاؤس سے نکل کر واپس گھر آ گئے۔ صبح روانگی کیلئے سامان تیار تھا، مگر رات تقریباً ڈھائی بجے گلزار ہاؤس سے بی بی شہید کا فون آ گیا کہ ایئرپورٹ پر C,130 آ گیا ہے اور صبح آرمی چیف وحید کاکڑ سے ملاقات ہے اس لیے BBC، وائس آف امریکہ اور اخبارات کواطلاع کرا دیں کہ صبح کا لانگ مارچ ملتوی کر دیا گیا ہے۔ میں رات تین بجے بھاگم بھاگ اخبارات کو اطلاع دینے لگا۔ کچھ کو فون پر اور کچھ کو خود جا کر اطلاع دی۔ جنگ نے تو اپنی شائع شدہ کاپی روک کر ان کا نیا شمارہ چھاپا، یاد رہے جنرل وحید کاکڑ ایک پروفیشنل سولجر تھے۔ اور ساتھ ہی وہ آفتاب شیر پاؤکے عزیز بھی تھے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو پارٹی کارکنان کے بارے میں کس قدر توجہ رکھتی تھی، آپ کی خدمت میں ایک واقعہ پیش کرتا ہوں۔
1993ء میں حکومت سنبھالنے کے بعد اسلام آباد میں سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی میٹنگ منعقد ہوئی، وزیراعظم کو وزارت اطلاعات اور وفاقی ایجنسیوں کی جانب سے چند صفحات پر مشتمل روزانہ کی بنیاد پر اخبارات میں اہم خبروں پر منبی بریف بھیجا جاتا تھا۔ جس کی ایک کاپی سیکرٹری جنرل کو بھی دی جاتی تھی، میٹنگ کا آغاز ہو گیا، محترمہ بے نظیر بھٹو کے سیدھے ہاتھ پر بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید، اور بائیں طرف رفیق احمد شیخ۔ ایجنڈا قراردادیں، سابقہ میٹنگ کی ہدایات پر عملدرآمد کی رپورٹس تمام اراکین میں تقسیم ہو گئی۔ گفتگو کا آغاز ہوا محترمہ ساتھ ساتھ بریف کے کلپ اور ایجنسیوں کی رپورٹس دیکھتی رہیں۔ وہ یکدم چوکیں اور اجلاس کی کارروائی روک دی۔ شیخ رفیق احمد سے کہا کہ آج کا اجلاس ملتوی کیا جا تا ہے، آپ فوراً لاہور واپس جا کر پتہ کریںکہ ہرا سائیں گٹے والے نے پارٹی کیوں چھوڑی اور اسے ہر صورت واپس لائیں۔ لاہور آپ کا شہر ہے اس معاملے کو آپ فوری طور پر دیکھیں، اور اپنے ملٹری سیکرٹری (جو آج کل سینیٹر بھی ہے) کو کہا کہ اسلام آباد سے جو بھی فلائٹ لاہور جا رہی ہو اس میں ان کو بھجوانے کا انتظام کریں۔ تمام شرکاء حیران و پریشان تھے کہ کیا ہو رہا ہے۔PM سیکرٹریٹ میں ہی پی آئی اے سے ڈھائی لاہور جانے والی فلائٹ کے موجود ہونے کی اطلاع موصول ہو گئی۔ لاہور میں بھی تمام دوستوں کو آگاہ کر دیا گیا، ایک ٹیم کو محمد صدیق عرف ہراسائیں کی تلاش کا بھی کہہ دیا۔ ائیرپورٹ سے سیدھا ہرا سائیں کے گھر واقع آوا پہاڑی جو عابد مارکیٹ مزنگ چونگ کے قریب تھی، پہنچے۔ کچھ دوست ہرا سائیں کے گھر کے باہر تھڑے پر بیٹھے تھے، ہم نے وہاں دیکھا کہ کمزور سے دروازے کے اوپر PPP کا جھنڈا موجود ہے (مجھے ایجنسیوں کے حال پر رونا آیا) اور سائیں صاحب اپنی گدھا گاڑی پر کسی روڈ پر گھوم رہے ہیں۔ ہم نے وہاں مزید ایک گھنٹہ انتظار کیا، شیخ رفیق احمد کی وجہ سے ہرا سائیں کے گھر کے باہر لوگوں کا ہجوم جمع ہو گیا مزید کچھ دیر بعد سپیکر پر PPP کے ترانوں کی آواز آئی سب کو پتا لگ گیا کہ ہرا سائیں آ رہا ہے ہم نے اُس کا پُرجوش استقبال کیا۔ ہرا سائیں نے کہا کہ میں نے تو وصیت کی ہے کہ مر جاؤں تو PPP کے جھنڈے میں دفن کیا جائے۔ اسلام آباد میں PM ہاؤس کو سب ٹھیک ہونے کی خبر دیدی گئی۔ مجھے یقین ہے ایک افواہ نما خبر پر بے نظیر بھٹو نے سینٹرل ایگزیکٹو کی میٹنگ ملتوی کر کے ایک کارکن کے بارے میں اپنی تشویش دور کرنے کا کہا۔ مجھے اُمید ہے بلاول بھٹو اور آصف زرداری بھی کارکنوں کے بارے میں ایسی ہی روایات جاری رکھیں گے۔

تبصرے بند ہیں.