پی ٹی آئی کو ہارنا ہی تھا

37

خیبر پختونخوا میں ہونے والے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کو بری طرح سے شکست ہوئی ہے اور اب اس کے بڑے عہدیداران یہ کہہ رہے ہیں کہ ان سے امیدواروں کے چناؤ میں غلطی ہوئی ہے اگر وہ اس پہلو کا دھیان رکھتے تو انہیں ناکامی کا منہ نہ دیکھنا پڑتا۔ وزیراعظم عمران خان نے کے پی کے میں اپنی جماعت کی غفلت اور نا اہلی کا نوٹس لے لیا ہے کہا جا رہا ہے کہ وہ عنقریب تطہیر کا عمل شروع کرنے والے ہیں۔ اس سے کیا ہو گا کچھ بھی نہیں کیونکہ لوگوں نے امیدواروں کونہیں دیکھا اپنے مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے حق میں ووٹ نہیں دیئے۔
پی ٹی آئی کے سربراہ اور وزیراعظم پاکستان کو علم ہونا چاہیے کہ پورے ملک میں گرانی کی ایک لہر آئی ہوئی ہے جس سے غریب اور درمیانے درجے کے لوگ بلبلا رہے ہیں، ان کی زندگیاں جیسے انگاروں پر لوٹ رہی ہیں۔ قانون کی حکمرانی کا دور دور تک نام و نشان نہیں۔ متعلقہ اداروں کو عام آدمی کا کوئی احساس نہیں وہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا نہیں ہو رہے بلکہ الٹا عوام کو تنگ کر رہے ہیں اذیتیں پہنچا رہے ہیں۔ تھانے اور پٹوارخانے محکوم و مجبور شہریوں کی کھال اتارنے میں مصروف نظر آتے ہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ ملک انارکی کی لپیٹ میں آچکا ہے تو غلط نہ ہو گا کیونکہ ہر شخص ہر سرکاری ملازم خواہ وہ چھوٹا ہے یا بڑا اپنی من مرضی کر رہا ہے اسے قانون کے شکنجے میں آنے کی قطعی کوئی تشویش لاحق نہیں۔ لوٹ کھسوٹ کی انتہا ہو چکی ہے۔ سرکاری و غیر سرکاری زمینوں پر طاقتور افراد نے قبضے کر رکھے ہیں۔ اس سماجی و سیاسی منظر کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہم دیکھتے ہیں تو پی ٹی آئی کو ہونے والی شکست درست معلوم ہوتی ہے۔ بھلا عوام کیوں ایسی جماعت کو کامیاب کرائیں گے جو ان کو ہر لمحہ پریشان کر رہی ہو انہیں جیتے جی مار رہی ہو اور اس کے وزیر ، مشیر، ایم این اے، ایم پی اے اور دیگر عہدیداران دن کے اجالے میں اپنی تجوریاں بھرتے ہوں کرپشن کے مرتکب ہو رہے ہوں انہیں یہ خیال ہی نہ رہے کہ انہیں عوام نے منتخب کیا ہے اور ان کے کچھ خواب ہیں خواہشیں ہیں لہٰذا کے پی کے میں جو ہوا وہ ہونا ہی تھا۔ اب جب  اگلے مرحلے  اور صوبہ پنجاب میں انتخابات ہوتے ہیں تو یہی کچھ ہوگا مگر عمران خان کو بالکل نہیں گھبرانا وہ ڈٹے رہیں ثابت قدم رہیں اور ان بے بس لوگوں کے جسموں سے خون کا آخری قطرہ تک کشید کر لیں تا کہ یہ احتجاج کرنے کی پوزیشن میں نہ رہیں مگر اس کے باوجود وہ
آئندہ وزیراعظم نہیں بن سکیں گے۔ اب کوئی اور ملک کا وزیراعظم ہو گا جو اپنا راگ الاپے گا وعدوں پے وعدے کرے گا اور آپ کی حکومت کی غلطیاں اور خطائیں گنوائے گا عوام اس کے اقتدار کے آخری برس تک اس سے اچھے دنوں کی امید لگائے رکھیں گے مگر وہ سورج طلوع نہیں ہو گا جس میں کوئی فاختہ امن کا گیت گا رہی ہو گی کوئی بلبل کسی پیڑ پر بیٹھا اپنی چونچ کھولے ماحول میں رس گھول رہا ہو گا اور پھولوں پر تتلیاں دیوانہ وار منڈ لا رہی ہوں گی۔
اب تک ہر طاقتور نے اس ملک کے لوگوں کو خوش کن سپنے تو دکھائے اور ان سے ’’پیڑے منہ‘‘ وعدے کیے مگر کبھی بھی ان پرمن و عن عمل درآمد نہیں کیا نتیجتاً آج افراتفری کا عالم ہے کوئی کسی کا نہیں ایک چھینا جھپٹی کا منظر واضح طور سے دیکھا جا سکتا ہے۔ حیرت یہ ہے کہ ذمہ داران اور قانون کے رکھوالے یہ سب ہونے دے رہے ہیں انہیں کوئی فکر نہیں کوئی پریشانی نہیں شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے کاروبار ان کے بچے اور ان کے محل مغربی ممالک میں ہیں کہ جب بھی کوئی ان پر افتاد آن پڑی تو وہ چپکے سے اْدھر سِرک جائیں گے۔
بہرحال لوگوں کو صاف دھوکا دیا جا رہا ہے یہ جتنے بھی اہل اختیار ہیں سبھی عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں ان کے کئی کئی کنال میں گھر چمکتی دمکتی گاڑیاں مہنگی ترین خریداریاں اربوں کھربوں کے یہ مالک اور سب سے اہم بات یہ کہ ان کی طرف قانون آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ کوئی غریب اپنی ضرورت کے لیے معمولی سی بھی غلطی کر بیٹھے تو پس زنداں دھکیل دیا جائے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ان سے قطع تعلق کیا جائے مگر ہر غریب کی یہ مجبوری ہے کہ اسے جینا ہے اپنا پیٹ بھرنا ہے لہٰذا وہ ان کی غلامی کرنے پر ہر وقت آمادہ و تیار رہتا ہے اور جب بھی بلدیاتی ہوں یا عام انتخابات اس کو اپنے امیدوار اور جماعت سے یہ امید بندھ جاتی ہے کہ وہ اب کی بار ضرور اس کو سہولتیں اور آسانیاں دیں گے مگر ہر بار ہی اسے بیوقوف بنایا جاتا ہے اور وہ آس لگائے بیٹھا رہتا ہے۔ چوہتر برس کے بعد بھی اس کے آنگن سے غربت باہر نہیں نکلی مسلسل اسے گھور رہی ہے اسے خوف زدہ کر رہی ہے۔ اس کے بچوں کو ہراساں کر رہی ہے اور اس کے خوابوں کو بکھیر رہی ہے مگر کوئی جماعت کوئی ایم این اے کوئی ایم پی اے اور کوئی با اختیار طاقتور ایک لمحے کو بھی اس کی جانب نہیں دیکھتا۔ بس ہر کوئی اپنے بارے متفکر ہے یوں وہ تمام آسائشوں کے ساتھ جی رہا ہے۔ اگرچہ ہم اب بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑ رہے کہ یہ رْت بدلے گی ایک نئی سویر کی نمود ہو گی مگر یہ بھی خیال  ذہن میں آتا ہے کہ یہ وڈیرے جاگیردار اور سرمایہ دار اس کے راستے کی دیوار بنے رہیں گے پھر ان کا عالمی سربراہ یعنی اس نظام کا محافظ انہیں تھپکی دے کر پوری طاقت کے ساتھ کھڑا رہنے کو کہتا رہے گا۔ وہ یہاں ہر حکومت کو آشیر باد دیتا رہے گا اپنے مہروں کو آگے لاتا رہے گا۔ بات صاف اور سیدھی ہے کہ جب تک بائیس تئیس کروڑ عوام نے خود ایوانوں میں جانے کا ارادہ نہیں کیا انہیں اس تکلیف دہ زندگی سے نجات نہیں ملے گی وہ پی ٹی آئی کو جتوائیں، پی پی پی اور مسلم لیگ نون کو ووٹ دیں یا کسی مولانا فضل الرحمن کو ان کے دن نہیں پھریں گے کیونکہ یہ سب اشرافیہ ہیں اس کے مفادات کا تحفظ کرنے والے ہیں لہٰذا ان سے عوامی فلاح کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
جناب عمران خان سے اگرچہ اس نظام کو بدلنے کی توقع کی گئی مگر وہ وزارت عظمیٰ کی بھول بھلیوں میں کھو گئے وہ ان سرمایے کی سیاست کرنے والوں کو عوامی تصور کر بیٹھے جو دوسری جماعتوں میں رہ کر بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھو چکے تھے لہٰذا انہوں نے آتے ہی اپنا ایجنڈا ترتیب دے لیا۔ یہ تو ان سے متعلق مکمل آگاہی اس وقت ہو گی جب موجودہ حکومت جائے گی اس کے خلاف فائلیں کھلیں گے مگر ہو گا کچھ نہیں کہ ان کے خیالات ایک ہیں ان کے منصوبے ایک ہیں اور جینے کے طور اطوار ایک جیسے ہیں لہٰذا عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک پروگرام کے تحت یہ چھیڑ خانی ہوتی ہے سزا یا وصولی نہیں ہوتی۔
بہر کیف موجودہ حکمرانوں کو اس امر کا اندازہ ہو گیا ہو گا کہ لوگ تقریریں نہیں عمل کو دیکھتے ہیں انہیں مسائل کا حل چاہیے مہنگائی کا خاتمہ درکار ہے قانون کی حکمرانی چاہیے جو نہیں ایسا کر سکے گا وہ یکسر نظر اندازکر دیا جائے گا مگر کہنے والے کہتے ہیں کہ وزیراعظم کو اس کی بالکل پروا نہیں انہوں نے ایک بار وزیراعظم بننے کا خواب دیکھا تھا وہ پورا ہو گیا لہٰذا کوئی مرے یا جئے انہیں کیا۔ جنہیں دوبارہ صدر یا وزیراعظم بننا ہے وہ پینترے بدل بدل کر سیاست کر رہے ہیں اور بیانات دے رہے ہیں کہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی جبکہ انہوں نے روشنیاں بکھیرنا ہوتیں تو بجھتے کیوں۔ حرف آخر یہ کہ اگر عمران خان نے اب بھی عوامی مفاد میں کوئی قدم نہیں اٹھایا تو وہ یاد رکھیں انہیں نگر  نگر کے سفر پر روانہ ہونا پڑے گا کیونکہ وہ ہمیشہ کے لیے عوام کے دل سے نکل جائیں گے۔

تبصرے بند ہیں.