اوآئی سی اجلا س اور مسلم دنیا کے مسائل

70

مسلم ممالک میں بدعنوانی کے علاوہ غیر مقبول حکومتیں بھی ایک بڑا مسئلہ ہیں غیر مقبول حکمران اپنے اقتدار کی طوالت کے لیے اکثر عالمی طاقتوں کے ملکی مفاد کے منافی مطالبات بھی تسلیم کر لیتے ہیں جو سیاسی بے چینی کے علاوہ خانہ جنگی کاباعث بن جاتے ہیں سوڈان میں سیاسی بے چینی کی یہی وجہ ہے جبکہ لیبیا ،شام اور یمن سیاسی بے چینی کے ساتھ آجکل خانہ جنگی سے بھی گزر رہے ہیں افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت سے حال ہی میں افغانوں کی جان چھوٹی ہے غیر مقبول اور کٹھ پتلی حکمران بیرونی طاقتوں کی چاکری کرتے ہیں عرب بہار کے دوران کئی عرب حکومتیں تبدیل بھی ہوئیں اگرمسلم حکمران فیصلہ سازی میں بیرونی عوامل کے بجائے عوام کو شامل کرلیں تو نہ صرف بیرونی مطالبات کی شکل میں دبائو سے بلکہ سیاسی خلفشار سے بھی نجات مل سکتی ہے ہونا تو یہ چاہیے کہ او آئی سی جیسی تنظیم مسلم ممالک کے مفادات کی نگہبانی اور مسائل کے حل کے لیے متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنے کی کوشش کرتی مگر ہو اُلٹ رہا ہے اوآئی سی کہنے کی حد تک فعال عملاََ غیر فعال ہے جس کی وجہ سے کچھ مسلم ممالک متبادل تنظیم بنانے کے لیے کوشاں ہیں اسی سوچ کے تحت کوالالمپور میں ترکی ،ایران اور ملائیشیا سربراہ کانفرنس میں مشاورت بھی ہوئی سعودی عرب کے دبائو کی وجہ سے اس کانفرنس میں عمران خان نے عین وقت پر شرکت سے معذرت کرلی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مسلم دنیا کے مسائل پر بھی او آئی سی نے غیر فعال ہی رہناہے تو موجودہ صورتحال زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکتی ۔
مسلم ممالک میں ترکی اور پاکستان ایسے دو ممالک ہیں جو دیگر اسلامی ممالک کی بہ نسبت ہتھیار سازی اور سائنسی حوالے قدرے ترقی یافتہ ہیں لیکن پاکستان کی قرضوں میں جکڑی معیشت اُسے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ فیصلے کرنے میں رکاوٹ ہے عمران خان کے ملائیشیا دورہ کی منسوخی میں کمزور معیشت کا ہی عمل دخل ہے مسلم ممالک کے وسائل کا بڑا حصہ ہتھیاروں کی خرید پر خرچ ہو تا ہے عالمی طاقتیںہتھیارفروخت کرتے ہوئے اکثر نارواشرائط منواتی ہیں متحدہ عرب امارات سے ایف 35 لڑاکا طیاروں کے عوض صیہونی ریاست اسرائیل کو تسلیم کرنے کی شرط منوائی گئی اگر او آئی سی کے زیرِ اہتمام مسلم ممالک کے بنائے ہتھیاروں کی نمائش کا سلسلہ شروع ہوجائے اور مسلم ممالک کو ایسے ہتھیار جومسلم ملکوں سے دستیاب ہیں خریدنے پر آمادہ کیا جائے تو مسلم امہ کے وسائل کسی اور کے پاس نہیں جائیں گے مثال کے طور پر ترکی جدید ترین ڈرون،جنگی اور بحری جہاز تیار کر تا ہے جبکہ پاکستان بھی طیارے ،میزائل ،ٹینک اور گولہ بارود تیار کرتا ہے مگر خریدار کم ہیں اِس حوالے سے یورپی یونین کی طرح او آئی سی کوشش کرے تو ایسے مسلم ممالک جنھیں ہتھیاروں کی کمی کا سامنا ہے اُنھیں دفاعی حوالے سے مضبوط تر بنایاجاسکتا ہے۔
اوآئی سی کو دھڑے بندی اور فرقہ سازی سے بالاتر ہوکر فیصلے کرتے ہوئے سوڈان کے سیاسی بحران،یمن،شام اور لیبیامیں جاری خانہ جنگی ختم کرانے کے لیے ٹھوس لائحہ عمل بنانا چاہیے متحارب فریقین کو اعتماد میں لیکر ایسے فیصلے کیے جائیں جن سے نہ صرف تنازعات کا خاتمہ ہو بلکہ بیرونی قوتوں کو مداخلت سے بھی باز رکھا جا سکے
مگر افسوس کہ او آئی سی کا مسلم تنازعات ختم کرانے میں حصہ بہت کم ہے یورپی یونین  نے جس طرح یوکرائن کا ساتھ دیا آج تک مسلم ممالک کی نمائندہ یہ تنظیم کسی مسئلے میں رُکن مماک کا ساتھ نہیں دے سکی جس سے اِس تنظیم کی اہمیت کم اور عالمی ساکھ کمزور ہوئی ہے دھڑے بندی اور فرقہ سازی سے نکلے بغیر اِس تنظیم پر تمام اسلامی ممالک کا اعتماد بحال نہیں ہو سکتا۔
افغانستان کی امداد پرمسلم ممالک کا حالیہ او آئی سی وزرائے خارجہ کے اجلاس میں اتفاق بہت اچھی بات ہے اِس سے انسانی المیے کو ختم نہیں تو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے فوڈ سکیورٹی پروگرام ٹرسٹ فنڈ بناتے ہوئے اِس حوالے سے اسلامی ترقیاتی بینک کا خاص خصوصی اکائونٹ بنانااور نمائندہ خصوصی مقرر کرناایسے فیصلے ہیں جن سے افغان معاملات میں غیر ملکی مداخلت کم ہوگی اور افغانوں کو اپنے آزادانہ فیصلے کرنے کے مواقع ملیں گے جس طرح اجلاس کے آغاز پر کی گئی آیات کا ترجمہ ،ساری اچھائی مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں،کرنے والے کچھ اور کام بھی ہیںپاکستان کے انتباہ کہ افغان معاشی بدحالی سے انتہا پسندی سے پیداہونے والے عدم استحکام سے مہاجرین کا بڑے پیمانے پر انخلا ہو سکتا ہے کومدِنظر رکھتے ہوئے اوآئی سی کو ایسا لائحہ عمل بنانا چاہیے کہ تعلیم،صحت اورروزگار کی مستقل بنیادوں پر فراہمی ہو تاکہ افغانوں کو باربار کسی کے آگے دامن نہ پھیلانا پڑے لیکن افغانستان کے ساتھ کشمیر،فلسطین ،روہنگیا اور بھارتی آسام کے مظلوم مسلمانوں اور اسلامو فوبیا کے مسئلے پر بھی آواز اُٹھانے کی ضرورت ہے او آئی سی پہلی عالمی تنظیم ہے جس نے افغان عبوری حکومت کا موقف سنا جس کے دوران وزیر خارجہ امیر خان متقی نے داعش کو کنٹرول کرنے اور ملک میں امن کی بحالی کا ذکر کرتے ہوئے یقین دلایا کہ کسی کو دہشت گردی کی اجازت نہیں دی جائے گی مگریہ اجلاس افغانستان کے بہتر مستقبل کے لیے تبھی سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے جب اجلاس میں منظور کی گئی قراردادوں پر عمل بھی ہو اور افغانستان میںزندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی شرکت ،بچوں اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے ۔
عرب ممالک تیل کی برآمدات سے خوشحال ہوئے لیکن تکنیکی مہارت نہ ہونے اور بدامنی کی وجہ سے افغانستان میں کھربوں ڈالر کی معدنیات کے خزانے زیرِ زمین بے کار پڑے ہیں مگر او آئی سی نے اِن معدنیات کو نکالنے اور افغانوں کو خوشحال بنانے کا کوئی ٹائم فریم طے نہیں کیا لیتھیم ایسی دھات ہے جو موبائل فون ،ڈرون، کیمروں اور طیاروں کی بیٹریوں میں استعمال ہوتی ہے بڑھتی فضائی آلودگی کی وجہ سے پوری دنیا میں الیکٹرک گاڑیوں کا رجحان بڑھ رہا ہے یہ الیکٹرک گاڑیاں بھی بیٹریوں سے چلتی ہیں لیتھیم ہی ان بیٹریوں کو چلانے کا مرکزی عنصر ہے اگر لیتھیم دستیاب نہ ہوتو لیپ ٹاپ ،کمپیوٹر اور موبائل فون کام کرنا چھوڑ دیں یہ کم وزن کی ماحول دوست دھات مستقبل میں تیل کا متبادل قراردی جارہی ہے دنیا میں استعمال ہونے والی ساٹھ فیصد یہ دھات ارجنٹینا،بولیویا اور چلی فراہم کرتے ہیں  افغانستان میں اِس قیمتی دھات کے ہرات،نمروز اور غزنی کے علاقوں میں وسیع ذخائر ہیں جن کی مالیت کا تخمینہ روسی،برطانوی اورامریکی سروے کے مطابق تین ٹریلین ڈالرسے زائد ہے روسی رپورٹوں کے تیار نقشوں کی مدد سے یو ایس جیولوجیکل سروے میں بھی تصدیق ہوچکی کہ افغانستان لیتھیم کا مرکزہے طالبان کی کابل آمد پر شاک کی کیفیت کا شکار بھارت کے یکدم متحرک ہونے کی وجہ بھی لیھتیم ہے اسی لالچ میں گندم کی سپلائی شروع کی گئی ہے بھارت نے آئندہ برس چھ سوملین سمارٹ فون برآمد کرنے کا ٹارگٹ رکھا ہے دوردراز سے لیتھیم لانے پر اُٹھنے والے اخراجات سے بچنے کے لیے افغانستان کی طرف دستِ تعاون بڑھانے پر مجبور ہوا ہے اگر او آئی سی رکن ممالک کی مشاورت سے لیتھیم نکالنے کا مربوط طریقہ کار بنائے تو نہ صرف افغانوں کو غربت سے نکالا جا سکتا ہے بلکہ ترقی پذیر مسلم ممالک کویہ معدنیات فراہم کرنے سے اُنھیںبھی معاشی گرداب سے نکالا جا سکتا ہے افغانستان کے پاس لیتھیم کے علاوہ تانبے، لوہے، کوبالٹ، یورینم، مرکری، باکسائٹ، سنگ مرمر، سونے، کرومیم، تیل اور گیس کے بھی وسیع ذخائر ہیں لیکن معدنیات سے مالا مال اِس ملک کا تکنیکی مہارت نہ ہونے کی وجہ سے افیون وغیرہ پر انحصار ہے اور قدرتی وسائل لیتھیم اور دیگر دھاتوں کے بجائے دنیا کو خام افیون اور ہیروئن کا پچاسی فیصد فراہم کرتا ہے اگر مسلم ممالک مشترکہ فنڈ سے معدنیات نکالنے اور خام مارکیٹ کو سپلائی کرنے کے بجائے صاف دھاتیں فراہم کریں تو افغان دنیا کا امیرملک بن سکتاہے اِس میں روس اورچین سے معاونت بھی لی جاسکتی ہے مگر یہ تبھی ممکن ہے جب کسی پر تکیہ کرنے کے بجائے خود انحصاری کی پالیسی پر عمل کیا جا ئے۔

تبصرے بند ہیں.