پنجاب میں نئے بلدیاتی نظام کی بازگشت

62

جمہوریت میں لوکل گورنمنٹ کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے بعد حکمرانی کا تیسرا درجہ کہا جاتا ہے جس میں ضلعی سطح پر حکمرانی کا تصور دیا گیا ہے۔ یہ اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی کا نظام ہے جو پاکستان میں ہمیشہ عدم تسلسل کا شکار رہا ہے کیونکہ کوئی بھی برسراقتدار حکومت نہیں چاہتی کہ مقامی حکومتوں کے اختیارات ان کی مرضی کے بغیر استعمال ہوں اس لیے اگر تو مقامی حکومت میں برسراقتدار پارٹی کے لوگ ہوں تو ٹھیک ہے ورنہ انہیں کسی نہ کسی بہانے سے چلتا کر دیا جاتا ہے یا ان کو فنڈز کی ترسیل روک دی جاتی ہے یا اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عام طور پر فوجی حکومتیں بلدیاتی نظام کو فروغ دیتی ہیں اور انہیں فعال بنایا جاتا ہے تا کہ منتخب پارلیمنٹ کی غیر موجودگی میں عوام کو کسی نہ کسی سطح پر شراکت اقتدار کا احساس باقی رہے۔
کسی شاعر نے کہا تھا کہ
ہم ہیں تو آپ کوچہ و بازار میں ہیں
ہم اٹھ گئے تو کوچہ و بازار دیکھنا!
اس شعر کی رومانوی تشریح سے قطع نظر ہیں اس کے اندر وہ شہری بے بسی نظر آتی ہے جو مقامی حکومتوں کو ختم کرنے کے بعد ہمیں ناقص فراہمی آب، ٹوٹی سڑکوں، ناقص صفائی و سیوریج اور دیگر شہری مسائل کی شکل میں نظر آتی ہے۔ ’’کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے‘‘۔ اچھی خبر یہ ہے کہ پنجاب میں لوکل باڈیز گورنمنٹ آرڈیننس 2021ء پر گورنر نے دستخط کر دیئے ہیں اور اب یہ قانون کا درجہ رکھتا ہے جس کے تحت موجودہ بلدیاتی اسمبلیوں کی مدت جو کہ31 دسمبر کو ختم ہو رہی ہے اس کے خاتمے کے بعد نئے بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں گے۔
اس ہفتے سول سوسائٹی آرگنائزیشنز (CSOs) کے تحت فلیٹیز ہوٹل لاہور میں لوکل باڈیز آرڈیننس پر ایک مشاورتی اجلاس منعقد کیا گیا جس کا اہتمام این جی اوز نے مل کر کیا تھا جن میں سنگت فاؤنڈیشن، برادری (سیالکوٹ) ساؤتھ پارٹنر شپ پاکستان، آئیڈیا، Wise اور SDF نے کیا تھا۔ یہ تمام غیر سرکاری تنظیمیں معاشرے کے پسماندہ طبقوں کی نمائندگی کو بہتر بنانے اور لوکل گورنمنٹ طرز حکمرانی کو مستحکم کرنے کے لیے Advocacy کی رضا کارانہ خدمات انجام دے رہی ہیں۔ برادری سیالکوٹ کے ارشد مرزا صاحب کی طرف سے تلاوت کلام پاک اور مہمانوں کا خیر مقدم کیا گیا۔ سنگت فاؤنڈیشن کے زاہد اسلام صاحب نے آرڈیننس میں قانون سازی بنیادی ایشوز اور فریم ورک پر بحث کرتے ہوئے اس میں قابل ترمیم شقوں کی نشاندہی کی انہوں نے کہا کہ یہ ایک مکمل قانون ہے جو ایک جمہوری حکومت کے دور میں آرڈیننس کے ذریعے نافذ کیا جا رہا ہے جو کہ عموماً فوجی حکومتوں کے دوران ہوتا ہے۔ اس میں citizen engagement یا عوامی شمولیت کا فقدان ہے اور کافی جگہوں پر شکوک و شبہات ہیں میئر کے لیے کوالی فکیشن کی جو شرط رکھی گئی ہے اس پر پورا نہ اترنے والے شہری حق انتخاب سے محروم ہو جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ خواتین کی نمائندگی ایک تہائی ہونی چاہیے تھی۔
موجودہ سیٹ اپ میں پورے صوبے میں شہری علاقوں کے لیے 1883ء نیبرہڈ کونسل اور دیہی علاقوں کے لیے 3364 ویلیج کونسل ہوں گی۔ ہر کونسل کی آبادی 20 ہزار پر مشتمل ہو گی ہر کونسل کا چیئرمین جماعتی بنیاد پر منتخب ہو گا۔ مخصوص نشستوں میں یوتھ، اقلیت خواتین کی 2 نشستیں معذور افراد کی ایک نشست اور ٹریڈرز کی نشست شامل ہیں۔
اس موقع پر سلمان عابد صاحب نے اس آرڈیننس کے نمایاں خدوخال پیش کئے۔ انہوں نے کہا کہ 2019ء کے قانون میں کمیونٹی کونسل اور پنچائت کونسل میں خواتین کی نمائندگی نہیں تھی مگر نئے قانون میں خواتین کے لیے 2 سیٹیں ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ سٹرکچر تو بن گیا ہے دیکھنا ہے کہ یہ ادارے کتنے طاقتور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مخصوص نشستوں پر نامزدگیوں میں چیئرمین کا کردا ر اہم ہو گا جو کہ کونسل کی ووٹنگ پر اثر انداز ہو گا ۔ اس موقع پر لارڈ میئر لاہور کرنل مبشر جاوید نے بھی خطاب کیا اور اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون کوئی انقلابی تبدیلی کا پیش خیمہ نہیں ہے جب آپ سرکاری وکیلوں اور بیورو کریسی کے سیکشن آفیسرز سے قانون بنوائیں گے تو تبدیلی نہیں آئے گی۔ ہم نے 30 مہینے کی قانونی جدوجہد کے بعد لوکل باڈیز کو بحال کروایا ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس سے اختیار طاقتور بیور و کریسی کے ہاتھ آجائے گا۔
اس موقع پر بشری خالق نے کونسلوں میں عورتوں کی نمائندگی 2 سے 3 کرنے کی سفارش کی ان کا کہنا تھا کہ پاکستان خواتین کی نمائندگی میں ایشیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 32 کی رو سے عورتوں کو نمائندگی دی جانی چاہیے تا کہ اقوام متحدہ کا gender equality کا ہدف پورا ہو سکے۔
حکومت پنجاب کے قانونی مشیر اور ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان مبین قاضی صاحب نے طویل بریفنگ کے دوران اعتراضات کے جواب دیئے اور اس قانون کا بھرپور دفاع کیا ان کا کہنا تھا کہ جب اس قانون کو تسلسل سے آگے بڑھایا جائے گا تو اس کی خامیاں دور ہو جائیں گی۔
ساؤتھ ایشیا پاکستان کے محمد تحیش نے کہا کہ حکومت کو ملک چلانے کے لیے سول سوسائٹی کی ضرورت ہوتی ہے۔ انگیجمنٹ بہت ضروری ہے اور یہ کام آئیسو لیشن میں رہ کر نہیں ہو سکتا ورنہ یہ کمپنی نہیں چلے گی ۔ ان کا کہنا تھا کہ شہری بلدیاتی کونسل کو نیبرہڈ کونسل کا نام دینا ایک اجنبی اصطلاح ہے ۔ انہوں نے رابندر ناتھ ٹیگور کی نظم پڑھی کہ اے اللہ میرے وطن کو جاگنا نصیب فرما جہاں ذہن خوف سے آزاد ہوں اور جہاں سر فخر سے بلند ہوں۔
اس موقع پر میئر سیالکوٹ میاں نعیم صاحب نے کہا کہ پہلی بار میئر کا انتخاب ضلع کے عوام کے ڈائریکٹ ووٹوں سے ہو گا جس سے ماضی میں ناظم یا یوسی چیئرمین کے ووٹوں کی خرید و فروخت کا خاتمہ ہو جائے گا لیکن ان کے اس بیان کے بعد محفل میں دلچسپ بحث چھڑ گئی کہ اس سے خرید و فروخت کا خاتمہ ہو گا یا پہلے سے زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔
لاہور ضلع میں اس وقت 14 ایم این اے اور 30 ایم پی اے ہیں۔ میئر لاہور کا پورا حلقہ 14 ایم این اے اور 30 ایم پی اے کے مجموعی حلقوں کے برابر ہے۔ کیا ایک عام آدمی میئر لاہور کے لیے الیکشن میں حصہ لینے کا تصور کر سکتا ہے۔ اس میں پیسے اور وسائل کا بے پناہ استعمال ہو گا جبکہ آرڈیننس میں اخراجات کی حد بھی مقرر نہیں کی گئی۔ ایسا کوئی فول پروف سسٹم نہیں ہے کہ اس میں ووٹ خریداری نہ ہو۔ اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ میئر آف لندن بھی اسی طرح منتخب ہوتا ہے حالانکہ لندن میئر کے انتخاب پر تو پارٹیاں سر عام فنڈریزنگ کرتی ہیں۔ پنجاب کے دس بڑے شہروں کے میٹروپولیٹن میئرز کے انتخاب میں تاریخی طور پر اربوں روپے خرچ ہوں گے اور پیسے کا بے تحاشا استعمال ہو گا۔ اس وقت پورے سیاسی نظام کی نظریں میئر کے انتخاب پر ہیں کہ کون بنے گا کروڑ پتی۔ میئر کا انتخاب جمہوری سیاست میں پیسے کے استعمال پر روکنے کے ضمن میں مکمل خاموش ہے۔

تبصرے بند ہیں.