آسمان سے من وسلویٰ حاصل کرنے والی قوم اور اس کے یار کو جو ہمارے رقیب روسیاہ سے پینگیں بڑھانے اور ہمیشہ ہمیں چھوٹا ثابت کرنے کا عملی مظاہرہ کرنے میں بڑی خوش دلی اور سوچی سمجھی کے تحت عملی مظاہرہ کرنے پر آمادہ نظر آتا ہے۔ جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی طاقت کو افغانستان اور عراق وغیرہ دیگر مسلمان ممالک کو جو جسمانی تکلیف ہی نہیں خفت بھی اٹھانی پڑی ہے، اسے پاکستان کے ’’دیسی گھی‘‘ کی اشد ضرورت ہے۔
جبکہ ہماری دو رقیب قومیں جن میں سے یہودی قوم کو یہ زعم ہے کہ ہم اہل کتاب اور آسمانی مذہب کے پیروکار ہیں، جبکہ ہنود دیومالائی اساس رکھنے والے مختلف طاقتوں کے حامل دیوی دیوتائوں کی پرستش کرتے ہیں دونوں اس غرور وتکبر میں مبتلا ہیں کہ ہمیں دوسری اقوام پہ امتیاز حاصل ہے، دوسری جانب ہندو برہمن بھی باقی ہندو اقوام سے خود کو برتر سمجھتا ہے، اور باقی ہندوئوں کو نچلے درجے کے قرار دے کر ان کو شودر ،ویش، اور کھتریوں میں تقسیم کردیتا ہے، اور تو اور وہ دوسرے ہندوئوں کے سایے کو بھی ناپاک تصور کرتے ہیں، برہمن ہندوئوں کے معاشرتی ظلم ہندوئوں کی تاریخ کی بھیانک تصویر ہے، اس کی گونج ہمیشہ سے اور خاص طورپر آج کے مودی کے دور میں عالمی میڈیا، حتیٰ کہ ہندوستان کے پریس میں بھی گاہے بگاہے آہی جاتا ہے، یہودیوں کا عالمی میڈیا پہ بہت زیادہ اثر ہے، اور دنیا کے 85فیصد میڈیا غالباً ان دونوں اقوام کی ملکیت سمجھا جاتا ہے۔
میڈیا اور پریس پر انہوں نے پیسہ Inkestmentسمجھ کر لگایا ہواہے اور میڈیا ہی کے زور پر اپنے دشمن ملکوں اور نظریاتی مخالفین کے زہریلے اور من گھڑت پروپیگنڈے کا طوفان شب وروز برپا کیے رکھتے ہیں، حتیٰ کہ یہودی دنیا کے طاقت ورترین صدر امریکہ کو بھی کٹھ پتلی کی طرح استعمال کرتے ہیں اور اگرکوئی صدر امریکہ کچھ جرأت اور ضمیر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ذہن کو استعمال کرنے پر مصر ہوتے ہیں، تو ان کا حال ماضی کے صدر کلنٹن اور کینیڈی جیسا ہوتا ہے، یہودی سرمایہ کار خصوصاً امریکہ میں امریکی سیاسی پارٹیوں کو بھاری عطیات یعنی رقوم دے کر ان کو زیراحسان رکھ کر ان سے اپنی مرضی کے مفادات حاصل کرتے ہیں۔
دوسری جانب ہندو دنیا کے میڈیا اورپریس پر کشمیری تحریک آزادی کو غداری کا الزام لگاکر اس کے تشخص کو مجروح اور داغدار کرتا رہتا ہے، اور ہندوستان میں ہونے والی ہر برائی کا الزام ہماری آئی ایس آئی پر دھرتا ہے۔
قارئین یہ بات آپ کے قابل غور ہوگی، کہ ہندوئوں اور یہودیوں کی کتابوں میں مسلمانوں کو ’’ولن‘‘ بناکر پیش کیا جاتا ہے، جبکہ سیکولرسٹیٹ کے داعی اور معاشرتی اور سیاسی بیداری کے اس دورمیں مذہبی انتہا پسندی کا بھیانک مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمانوں کی تاریخی بابری مسجد کو کتنی بیدردی سے شہید کرادیا گیا تھا، اس کو آپ ذہن پر زور دیں عالمی یعنی یہودی میڈیا نے کیوں نہیں اتنا اچھالا تھا، جتنا کہ اس کا حق تھا وجہ صرف اورصرف یہی تھی، کہ اس کے ذمہ دار موجودہ ہندوستان کے موجودہ حکمران ہیں، اور اگر ہندوئوں میں ذرہ برابر بھی حمیت اور غیرت ہوتی، اور تھوڑی سا بھی مذہبی خلوص ہوتا، بقول ان کے مسجد مندر کو گراکر بنائی گئی تھی تو جان پر کھیل کر اس وقت کہاں دبکے ہوئے تھے، مسجد بننے ہی نہ دیتے، جبکہ تاریخ ہندوستان میں کہیں بھی احتجاج کی رمق بھی سنائی نہیں دیتی جبکہ کانپور اور دوسری جگہوں پر مساجد گرانے کی ہرکوشش کو جان پرکھیل کر ناکام بنادیا تھا۔
دوسری جانب فلسطین کی دھرتی پہ دنیا روز فلسطین بچوں کو پتھروں سے اسرائیلی ٹینکوں میزائلوں کے سامنے سینہ سپرہوکر غلیلوں اور پتھر اور کنکروں سے مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں، اور نوجوان بچے، اور بچیاں اپنی ننھی منی جانیں، اپنے مقدس وطن عزیز پر نچھاور کرتی آتی ہیں، لیکن دنیا اسرائیل کے مربی اور امریکہ کے احسان تلے اس قدر دبے ہوئے ہیں کہ مسلمانوں کی تڑپتی لاشیں کشمیر اور فلسطین میں ان کے ضمیروں کو جھنجھوڑنے میں قطعی ناکام رہتی ہیں، جبکہ وہ خود اپنی جائیداد تک کتے بلیوں کے نام کرجاتے ہیں۔
دراصل ہندو ویہود دوایسی اقوام ہیں کہ جن میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے، ہندو بنیے ، اور اسرائیلی اور یہودی سرمایہ دار اور ساہوکار کا طریقہ واردات ایک جیسا ہوتا ہے، دونوں غریب غربا عوام اور اقوام کو مایہ کے جال میں پھنسا کر ایسے جکڑتے ہیں کہ غریب تو دور دنیا میں سدھار جاتے ہیں اور قومیں آئی ایم آئی کے پھندے میں اس طرح سے جکڑے جاتے ہیں کہ ہم وطنوں کو سانس لینا دشوار ہوجاتا ہے، اور ساری قوم کی کوششیں حکمرانوں کے قرضوں کو نمٹانے میں ہی گزرجاتی ہے، اور اصل زر کا مرض ویسا ہی رہتا ہے، بلکہ ان کے بعد ہماری اولادیں ادھار اتارنے پر بھی مجبور بنادی جاتی ہیں ان دونوں اقوام کا گٹھ جوڑ امریکہ کی آشیر باد اور سوچی سمجھی سازش کے تحت مسئلہ کشمیر پر اثر انداز ہونے، بیک وقت پاکستان اور چین کو مرعوب کرنے، اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوشش، اور برصغیر میں سیاسی اور فوجی اہمیت کے فوائد حاصل کرنے کی بھونڈی اور مکروہ گھنائونی سازش ہے جبکہ ہم اس کا سدباب کرنے کی بجائے مؤثر سیاسی توڑ ڈھونڈنے کی بجائے وقت گزری میں غلطاں اور سراسیما نظرآتے ہیں،
حالانکہ صرف امجد اسلام امجد ہی نہیں، ہمارے بزرگ بھی فرماتے ہیں کہ
ایک دن اس طرح بھی ہونا ہے
رنگ کو روشنی میں کھونا ہے!
جاگنا ہے، غبار میں، ہم کو
خاک کی تیرگی میں سونا ہے
اے مری چشم تر، بتاتو سہی
کون سا داغ ہے، جو دھونا ہے
تبصرے بند ہیں.