تحریکِ انصاف کا منطقی انجام

47

خیبر پختونخوا کے 17 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں پی ٹی آئی کو ہوم گرائونڈ پر جس ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے، وہ ایک منطقی نتیجہ ہے اس نا اہلیت کا جس کا مظا ہرہ تحریکِ انصا ف اپنے دورِ حکو مت میں کر تی چلی آ رہی ہے۔ اور یہ مکا فاتِ عمل نہیں ہے تو کیا ہے کہ جمعیت  علمائے اسلام ،جسے عمران خا ن کی جما عت اپنی دانست میں زیر و کر چکی تھی، حیران طور اس نے میدان مارلیا ہے۔ اور 21تحصیلوں پر کامیابی کے سے ساتھ سب سے بڑی مذہبی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔خصو صاًپشاور میں پی ٹی آئی کو غیرمتوقع شکست کا سامنا رہا۔ جے یو آئی نے شہر کی 7 میں سے 4 تحصیلوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ 4 شہروں میں سے 3 سٹی میئرز کی نشستیں بھی لے اُڑی۔ خیبر پختونخواہ میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے جمہوریت کی اساسی منزل کی اہمیت اور عوام نے انتخابات میں جیت سے بڑا معرکہ سر کرلیا۔ جمہوری ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک میں جمہوری عمل کے ضعف و اضمحلال کا ایک سبب بلدیاتی اداروں کی کمزوری اور جمہوریت کے اساسی کردار اور رائے دہی کے استحقاق پر پابندیوں نے کاری ضرب کردار ادا کیا۔ مین سٹریم سیاسی جماعتوں نے مقامی حکومتوں کی اہمیت کو نظرانداز کرتے ہوئے بنیادی جمہوریت کے کردار، اس کی شناخت اور ارتقائی عمل کو نقصان پہنچایا۔ ظاہر ہے جب بنیادی جمہوری عمل کو نشوونما اور فروغ نہیں ملے گا تو سیاسی حکمت ایک ناگزیر بوجھ اور آمریت بن کر طرزِ حکمرانی کو گہرائی تک آلودگی کا شکار کرسکتی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کو کمزور اسی رویے اور بیمار مائنڈ سیٹ نے کیا۔ چنانچہ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی الیکشن نے درحقیقت جمہوریت کا بند دروازہ کھول دیا ہے۔ اختلافات، انتقام، تضادات، عدم رواداری و غیر جمہوری روایات کی جگہ ووٹ کو اہمیت اور عوام کے فیصلے کو اہمیت ملی۔ آج اگر فاٹا کی خواتین کی ایک بڑی اکثریت کو ووٹنگ کا حق نہیں ملا۔ کل اس ذہنیت کو بھی جمہوری طرزِ عمل کے سامنے شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ قوم کے لیے بلدیاتی الیکشن ایک خوشگوار تجربہ ہے۔ ملک نے جمہوریت کی سمت ایک بہتر قدم اُٹھایا ہے۔ وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی اگر کمزور ہوئی تو ملک بھیڑیوں کے ہاتھ لگ جائے گا، لیکن پی ٹی آئی سپورٹس مین شپ کے ساتھ بھیڑیوں سے رقص کی اس مخاصمانہ روش کو روک سکتی ہے۔ الیکشن میں شکست کے اسباب میں ان ہی وجوہ پرسنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہوگی۔ وقت بدل رہا ہے۔دوسری جانب مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) خیبر پختونخوا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی۔ بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے واضح کردیاہے کہ پچھلے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی۔ موجودہ حکومت جعلی اور سلیکٹڈ ہے۔ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی کے ساتھ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ یہ سوچ شکست کھاچکی ہے کہ ہم نے ایک جماعت کو کنٹرول میں رکھنا ہے اور آگے نہیں جانے دینا۔ اب راستے کھول دو اور ہمیں آگے بڑھنے دو۔ ہم کو ان سے بہتر چلائیں گے، ہمیں پاکستان چلانا آتا ہے اور خدا کے فضل سے ہم دیانت دار لوگ ہیں۔ من حیث الجماعت جمعیت علمائے اسلام پر کسی قسم کے کرپشن کی باتیں نہیں ہیں، اب تو ثابت ہوگیا کہ کرپشن کی باتیں بھی ایک ہتھیار
کے طور پر استعمال ہورہی ہیں۔ ملک میں اس طرح کی چیزیں رہیں گے تو ملک کا کاروبار ٹھپ ہوجائے گا۔ سیاست دانوں کو بدنام کرنا، ان کی تذلیل کرنا یہ وتیرہ اب ختم ہوجانا چاہیے۔ ورنہ جو لوگ سیاست دانوں کے خلاف اس طرح کا پروپیگنڈا کرتے ہیں وہ سیاست دانوں سے ہزار درجہ زیادہ کرپٹ لوگ ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام اس وقت تحصیلوں اور یونین کونسل کی سطح پر سب سے بڑی جماعت بن گئی ہے۔ ہم پہلے بھی خیبر پختونخوا کی سب سے بڑی سیاسی قوت تھے اور اب بھی سب سے بڑی سیاسی قوت ہیں۔ ہمارا مذہبی لباس ہے، ہم علما کی جماعت ہیں، دین اسلام اور امت مسلمہ کی بات کرتے ہیں۔ پاکستان میں آئین کی روح سے قرآن و سنت کے نظام کی بات کرتے ہیں تو بااثر طبقے سمجھتے ہیں کہ اگر یہ لوگ اوپر آ گئے تو امریکہ اور مغرب کیا سوچیں گے۔ یہ سوچ ختم ہونی چاہیے۔ قبل از وقت انتخابات کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ کچھ اور بڑھ گئے ہیں اندھیرے تو کیا ہوا، مایوس ہم نہیں طلوعِ سحر ہے اب، طلوع سحر ہوگا اور اب تو خیبر پختونخوا نے پیغام دے دیا۔ آئی این پی کے مطابق انہوں نے کہا کہ ہم طالبان کے سیاسی حامی ہیں اور ان کے ساتھ اصولوں پر مبنی تعلقات رکھتے ہیں۔ دنیا کے پیچھے چلتے نہ امریکہ کے غلام پرویز مشرف جیسے ہیں۔ امریکہ اور یورپ نے طالبان کو دہشت گرد قرار دینے اور جنیوا کنونشن سے نکالنے کے باوجود صلح کرلی ہے۔ افغانستان کے وزیرخارجہ نے مجھ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا سو ہم مل لیے۔ وہ ایک ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے پاکستان آئے ہیں۔ امریکہ کو گوانتا ناموبے، شبرغان اور دیگر جیلوں میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا حساب دینا ہوگا۔پی ڈی ایم امرچ کی تیاریوں کے لیے تمام صوبوں میں سیاسی جماعتوں کے قائدین اور عہدیداران کی جانب سے اجلاسوں کا سلسہ جاری ہے۔ اویس نورانی جلد سندھ میں، میں خیبرپختونخوا میں، محمود خان اچکزئی بلوچستان میں جبکہ شہباز شریف پنجاب میں دیگر جماعتوں کے قائدین کے ساتھ رابطے کر رہے ہیں۔ ابھی تک ہمارے پاس مارچ تک ایک دو مہینوں کا وقت ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کی خیبر پختونخوا بلدیاتی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی اس بات کی دلیل ہے کہ موجودہ حکومت سلیکٹڈ ہے۔ نادیدہ قوتیں ہماری راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ ہم ایک مذہبی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں مگر مقتدرہ کو خوف ہے کہ یہ اگر برسراقتدار آگئے تو امریکہ اور مغربی دنیا کا رد عمل کیا ہوگا۔ بلوچستان میں جام کمال خان کے خلاف اپنی ہی پارٹی کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی، اتنے زیادہ اراکین مفت میں میری جھولی میں آئے تو ہم کیوں انکار کریں گے۔تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز نے شکست کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن میں پی ٹی آئی کا مقابلہ پی ٹی آئی سے تھا۔ ہمارے بہت سے کارکن پارٹی قیادت سے ناراض تھے، اس لیے ہم ہار گئے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم 14 اضلاع میں کامیاب ہوسکتے تھے۔ ہار کی ایک وجہ مہنگائی بھی ہے، لیکن یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ محمود خان نے الزام عائد کیا کہ ہمارے منتخب نمائندے کچھ روپوں کے لیے بک گئے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی ارباب شہزاد کے بھتیجے ارباب محمد علی بھی پارٹی امیدوار کے بجائے مخالف امیدوار کو سپورٹ کررہے تھے۔ وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور اور سابق صوبائی وزیر ہشام انعام اللہ میں بھی ٹھن گئی۔ بلدیاتی انتخابی نتائج کے بعد ہشام انعام نے وفاقی وزیر کو اسمبلی سے مستعفی ہوکر آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کا چیلنج دے دیا۔ علاوہ ازیں پی ٹی آئی نے تحریک انصاف کے مخالف امیدواروں کو سپورٹ کرنے والے ارکانِ اسمبلی کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے امیدواروں کی شکست کا سبب بننے والی پارٹی عہدیداروں اور ارکان اسمبلی کی فہرست مانگ لی ہے جبکہ شکست کی وجوہات کے حوالے سے بھی رپورٹ طلب کرلی ہے۔
گویا تحر یکِ انصا ف کی ہنڈیا اب بیچ چو راہے پھو ٹنے کو ہے۔

تبصرے بند ہیں.