’’جھولی میں ہم نے بھر لئے فاقے سمیٹ کر‘‘

82

قارئین کرام ، اس عنوان کے تحت میں نے جنر ل مشرف کے دور میں لکھا تھا ، جب صدر مشرف نے ریفرنڈم کرایا تھا ، اس وقت موجودہ حکمران کا موقف کیا تھا ، ہمیں تبصرے کرانے اور کرنے کا کیا فائدہ، مورخین وقت ہی اس پر بے لاگ ، ظالمانہ اور غیر جانبدارانہ ، حقائق لکھ کر ، نئی نسلوں کے چودہ طبق روشن کر دیں گے ، کہ بننے کو تو ہمارا وطن عزیز بن گیا ، مگر پون صدی کے باوجود بھی ، نہ عوام آزاد ہوئے اور نہ ہی حکمران، بظاہر تو اکابرین کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ، وہ تو بس قانون کے آگے’’باندی‘‘ بن کر ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں نظریہ ضرورت صرف حکومتوں کو تبدیل کرنے ، یا قانون کو اپنے مفادات کے تابع کرنے کے لئے لاگو ہوتا ہے ، اور پھر اس کا استعمال آزادانہ اور بغیر کسی روک ٹوک یا حیل و حجت کے ہر طاقت ور کرتا رہتا ہے ۔
خیر ہمارا تو مطلب تھا کہ معصوم اور مظلوم بچوں کے بارے میں کہ موسموں میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلی آتی جا رہی ہے ، بارش کے دنوں نے موسم سرما میں حتیٰ کہ مون سون کی ہوائوں نے بھی اپنے اوقات تبدیل کر کے ہمیںانسانی اوقات یاد دلا دی ہے، لیکن ہم ابھی تک لکیر کے فقیر ہیں۔
انگریزوں کے دور میں لاہور کا درجہ حرارت 102 فارن ہائیٹ سے کبھی بھی نہیں بڑھا تھا ، اس کی وجہ یہ تھی کہ باغوں کے شہر لاہور میں گھنے جنگلات کی بھرمار تھی ، جو خود رو اور قدرتی جنگلات تھے لیکن جنگ عظیم کے دوران ایندھن کی ضرورت کے تحت جنگلات کو بیدردی سے کاٹا گیا ، کیونکہ فوجیوں کو اس کی شدید ضرورت تھی۔
لاہور سے درختوں کو کاٹ کاٹ کر لکڑی یہاں سے باہر جانا شروع ہو گئی اور مال گاڑیاں بھی لد لد کر باہر جانا شروع ہو گئیں۔ انگریزوں کا کیا دھرا آج آپ کے سامنے ہے ، عمران خان جو جنگلات لگانے کا دعویٰ کر کے انگریزوں کو یعنی برطانیہ کے وزیر اعظم کو ایک ارب درخت لگانے کی ویڈیوز بھیجتے ہیں ، انہیں یہ بھی بتائیں کہ ایسا کرنا ان کی بیوقوفی کی وجہ سے ہوا ہے ان کا کیا دھرا ہم آج بھگت رہے ہیں ، اور تو اور وہ ظالم کے بچے ہمارا موسم تک خراب کر گئے ہیں ۔
وہ موسم سرما ، اور موسم گرما کی بھی تعطیلات کا جو (شیڈول)طے کر گئے ہیں ، ان میں سترسال سے سرمو فرق نہیں آیا حتیٰ کہ تبدیلی سرکار و تبدیلی پاکستان کے وزیر تعلیم شفقت چیمہ بھی بڑے زور شور سے دعویٰ دار تھے ، کہ وہ دونوں سیکرٹری کو بلا کر موسم سرما کی چھٹیوں کا اعلان کریں گے۔ مگر دوسرے دن انہوں نے اپنے طمطراتی بیان سے انحرا ف کرتے ہوئے حسب سابق چھٹیوں کا یعنی 25 دسمبر سے 4 جنوری تک تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کر کے والدین کو خوشخبری سنا دی ہے ، حالانکہ دنیا کے آلودہ ترین شہر کا اعزاز لینے والے لاہور میں ’’سموگ ‘‘ کا یہ حال ہے ، لوگ دھند میں اپنی گاڑی کسی دوسرے کے گھر میں ’’گھسیڑ ‘‘ دیتے ہیں ، حالانکہ یورپی ممالک اور ترقی یافتہ ممالک میں پبلک ٹرانسپورٹ ، گاڑیاں وغیرہ بند کر کے پیدل یا سائیکل پر اپنے اپنے اداروں پہ جانیکی تلقین اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ان کے وزیر ہیلی کاپٹر کے بجائے سائیکل پر دفتر جاتے ہیں ، جاپان جہاں فضائی آلودگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، عوام اور حکمران سائیکلوں کا استعمال کرتے ہیں ، حتیٰ کہ پٹرول پمپ بھی دن کے وقت بند کر دیئے جاتے ہیں اور رات سے صبح تک کھلتے ہیں کیونکہ تیل کی گیس نکلنے سے آوازاں پیدا ہوتا ہے ۔
وہاں فیکٹریوں کے لئے شہر سے بہت دور اور خصوصاً ہوائوں کے مطابق فیکٹریاں لگانے کی اجازت ہوتی ہے اور ماسک نہ پہننے پر جرمانہ ہوتا ہے ، میں حیران ہوں کہ اسی دور میں تحریک انصاف کی وزیر زرتاج گل جو وزیر اعظم کے درجنوں ترجمانوں سے زیادہ اکیلی پیپلز پارٹی کی پلواشہ کی طرح سب سے نمٹتی نظر آتی ہیں۔ انہوں نے پلاسٹک ، بوتلوں اور پلاسٹک کے برتنوں پہ پابندی غالباً اسلام آباد تک تو لگوای دی ہے کیا انسان صرف اسلا م آباد میں ہی بستے ہیں ؟ حکومت کو چاہئے ، اور خصوصاً زرتاج صاحبہ کو لاہور میں پلاسٹک فیکٹریاں اس مفاد کو مدنظر رکھے بغیر کہ تحریک انصاف کوفیکٹریوں کے مالکان اور مزدوروں کے ووٹ نہیں ملیں گے ، فوری پابندی کے لئے قانون سازی پہ زور دینا چاہئے ، دنیا کے مہذب ممالک پہ پلاسٹک کی اشیاء پہ پابندی ہے ، پلاسٹک کے آندھیوں میں اڑتے اور بارشوں میں گٹروں میں گھس کر سڑکوں کو اور شہروں کو سیلاب زدہ بنانے والے پلاسٹک کے بیگوں کو ہم روزانہ دیکھتے ہیں ، جن کو جلانے سے کینسر جیسے موذی مرض میں عوام مبتلا ہو جاتے ہیں ، وزیر اعظم کے معاون خصوصی مشیر اور کینسر ہسپتال کے فیصل سلطان نے اگر وزیر اعظم کو یہ مشورہ نہیں دیا ، تو وہ کس چیز کے مشیر ہیں ؟ قارئین اگر آپ برا نہ منائیں تو مہذب ممالک والے خاندانی منصوبہ بندی پر بھی زور دیتے ہیں، ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے بھارت میں سالانہ بارہ لاکھ اور پاکستان میں ڈیڑھ لاکھ افراد مر جاتے ہیں ، اور یہ تعداد کرونا سے مرنے والوں سے کہیں زیادہ ہے جو روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔
کھیت جلانے کا نظارہ جو دھوئیں کی شکل میں پھیل جاتا ہے ، وہ ہم روز دیکھتے ہیں ، سموگ کا ایک سانس ،10 سگریٹ پینے کے نقصان سے زیادہ ہے ، آخر میں قارئین آپ اس فارمولے کو دیکھ کرذرا میری طرح آپ بھی پریشان ہوں ۔سموگ 0 سے 50 تک اچھی ہوتی ہے ، 50 سے 100 تسلی بخش ، 100 سے 200 غیر تسلی بخش 200 سے زیادہ خطرناک ، جبکہ لاہور کی 400 سے بھی زیادہ ہو گئی ہے ، اس کا صرف ایک ہی حل ہے او وہ حل ہے مصنوعی بارش … جبکہ عوام کو تو چیزوں کی قیمتیں پوچھتے ہی خارش شروع ہو جاتی ہے اور پھر ہاتھ پستول ، کلاشنکوف اور دیگر اسلحے پر پڑتے ہی ڈاکہ زنی اور رہزنی پر مجبور کر دیتا ہے ، لوگوں نے مہنگائی کا علاج مرنے یا خودکشی کرنے کے بجائے دوسروں کو مار دینے کا دریافت کر ہی لیا ہے حالانکہ ایسا تو اب بھوکے بنگالی بھی نہیں کرتے ! بقول امجد اسلام امجد
جھولی میں ہم نے بھر لئے فاقے سمیٹ کر
دامن کسی کے آگے کشادہ نہیں کیا

تبصرے بند ہیں.