ظرف اور عالی ظرف!!

1,581

انسان کی پہچان اس کا ظرف ہے۔ ظرف کو ہم باطنی ہمت سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ انسان کا باطنی رزق اسے جس کاسے میں وصول ہوتا ہے اسے کاسہ ظرف کہتے ہیں۔ انسان اپنی ظاہری پرت میں اپنے ماحول اور معاشرے کا محتاج ہوتا ہے، اس کا ماحول اس کی ظاہری پرت کو اپنی ضرورت کے مطابق تبدیل کرتا رہتا ہے، مثلاً اگر کوئی گاؤں کا باشندہ ہے تو شہر میں وارد ہونے کے بعد اس کا بود باش بدل جائے گا، اگر ایک بچے کو مدرسے میں داخل کر دیا جائے تو اگلے ہی دن اس کے سر پر ٹوپی دکھائی دے گی، اسی طرح مشرق کے لوگ جب مغرب کا رخ ہیں تو جیسا دیس ویسا بھیس کے مصداق ان کے لباس کی تراش خراش میں فرق نظر آنے لگتا ہے۔۔۔۔ لیکن یہ ساری ماحولیاتی تبدیلی انسان کے صرف ظاہر کو تبدیل کرتی ہے۔ ماحول کی رسائی اس کے باطن تک نہیں ہوتی۔ باطن ظاہر کے ہاتھ پر کبھی بیعت نہیں کرتا۔ جب تک کسی کا باطن مایوسی کے پاتال میں کود کر خود کشی نہ کر لے۔ وہ ظاہر کی حاکمیت قبول کرنے سے انکار کرتا رہتا ہے۔ جب انسان خدانخواستہ اپنے باطن سے بددل ہو جاتا ہے تو وہ ظاہر کے کلیے کی حاکمیت قبول کر لیتا ہے اور حسینی قافلے سے نکل جاتا ہے۔
انسان کی اخلاقی اقدار اس کے اعلیٰ ظرف ہونے کی آئینہ دار ہیں۔ کم ظرف انسان جب مفاد اور اخلاق کے دوراہے پر پہنچتا ہے تو یکلخت مال اور مفاد کے حق میں فیصلہ سنا دیتا ہے، جبکہ عالی ظرف اپنے مال و مفاد کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اخلاقی تقاضا پورا کرے گا۔ ہمارے اخلاقی نصاب کا تعلق براہِ راست ہمارے باطنی ظرف سے ہے۔ یاد رہے کہ یہاں اخلاقیات سے مراد محض معاشرتی ادب و آداب نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی رضاجوئی کی خاطر مخلوق کے ساتھ تواضع کی راہ اختیار کرنا ہے۔ معاشرتی آداب ہر تہذیب کے جدا جدا ہیں، کہیں سر پر ٹوپی رکھنا ادب کہلاتا ہے اور کہیں ٹوپی اتار کر ہاتھ میں لے لینا ادب متصور ہوتا ہے۔ اخلاق کا پہلا امتحان اپنے ماتحتوں سے شروع ہوتا ہے۔ مال و منصب ہمارے ظرف کا امتحان ہیں۔ وہ لوگ جو ہمارے مال کے محتاج ہیں، اور وہ جو ہمارے منصب کے ماتحت ہیں۔ ان کے ساتھ اخلاق اور کشادہ روی ہمارے عالی ظرف اور عالی نسب ہونے کا پتہ دیتی ہے۔ کم ظرف انسان بہت جلد بھڑک اٹھتا ہے۔ اپنے سے طاقتور کے سامنے اس کے ادب آداب، اس کی نشست و برخاست اور خطاب و القاب مثالی ہوتے ہیں، لیکن اپنے منصب کی کرسی پر براجمان ہوتے ہی وہ اپنے ماتحتوں پر ڈسپلن کے نام پر ترش روی کے تیر برسانے لگتا ہے۔ خلوت اور جلوت میں فرق کم ظرف ہونے کی دلیل ہے۔
کم ظرف اپنے وقت ، وجود اور وسائل میں خورد برد کا مرتکب ہوتا ہے۔ عالی ظرف امانت کی حفاظت کرنا جانتا ہے، وہ عہد کی پاسداری کرتا ہے اور اپنے اطراف مخلوقِ خدا کی خدمت کے لیے باآسانی دستیاب ہوتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ شہرت اور دولت پاتے ہی اپنے منصب کے معاشرتی پروٹوکول کی حفاظی شیلڈ میں چھپ جاتے ہیں۔ عالی ظرف اپنی صلاحیتوں کا خراج وصول نہیں کرتے، وہ عام عوام کو دستیاب ہوتے ہیں۔ وہ معاشرے پر بوجھ نہیں ہوتے بلکہ وہ معاشرے کا بوجھ اٹھانے والے ہوتے ہیں۔ ان کی صلاحیتیں وقف ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ خالق کے امر کے مطابق مخلوق کے لیے وقف!!
کم ظرف کثیف خیال کا مالک ہوتا ہے، عالی ظرف خیال کی رفعت سے آشنا ہوتا ہے۔ رفعتِ خیال کا حامل باآسانی دوسروں کا بوجھ اٹھا لیتا ہے۔ عالی ظرف اپنے لیے کم سے کم تقاضا کرتا ہے لیکن دوسروں کے تقاضوں پر پورا اترنے کی پوری پوری کوشش کرتا ہے۔ عالی ظرف انسان کی ایک خاص نشانی یہ ہے کہ وہ شکوے شکایت سے دور ہوتا ہے۔ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں مستعد ہوتا ہے ، لیکن اپنے حقوق طلب کرنے میں تساہل سے کام لیتا ہے۔ وہ "پہلے آپ” کا قائل ہوتا ہے۔ "میں” ، "میرا” اور "میرے لیے” اس کے لیے اجنبی الفاظ ہیں۔ عالی ظرف سر اٹھا کر چلتا ہے اور کندھا جھکا کر رکھتا ہے۔ وہ اپنی نہیں سناتا، دوسروں کی سنتا ہے۔
عالی ظرف تعلقات کی دنیا میں بھی بڑا فراخ دل پایا جاتا ہے۔ وہ اپنے متعلقین کی لاپروائیوں اور کوتاہیوں کو فراخ دلی سے نظر انداز کرتا ہے۔ لوگوں کو معاف کرنا اس کیلیے کبھی دشوار نہیں ہوتا۔ وہ زود رنج نہیں ہوتا۔ عالی ظرف عالی ہمت ہوتا ہے۔ لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا اس کے لیے کبھی مشکل نہیں ہوتا۔ نفرت، کینہ، غصہ اور حسد کم ظرفوں کی مصروفیت ہے۔ عالی ظرف بڑی خوبی سے برداشت کر جاتا ہے۔۔۔۔ اپنی ناکامی اور دوسروں کی کامیابی!!
کم ظرف ناشکرگزار ہوتا ہے، عالی ظرف ہمیشہ تشکر کی حالت میں پائے جاتے ہیں۔ وہ مخلوق کا شکریہ اور خالق کا شکر ادا کرنے میں کبھی بخیل نہیں ہوتے۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے پاس ان کے استحقاق اور استعداد سے کہیں بڑھ کر نعمتیں ہیں، اس لیے ہر حال میں اپنے اوپر شکر کو واجب سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔ کم کو زیادہ سمجھتے ہیں، اس لیے ان کے لیے قناعت کے آسن بیٹھنا کبھی مشکل فیصلہ نہیں ہوتا۔ ظرف باطن کی ایک جہت ہے، اس لیے عالی ظرف کا باطن بالعموم روشن ہوتا ہے۔ اسے دینی ، روحانی اور اخلاقی نکتہ سمجھانا کبھی ناممکن نہیں ہوتا۔ روحانیت اس کے اندر ایک پوٹینشل کے طور پر موجود ہوتی ہے۔ وہ اپنی عظمت سے غافل تو ہو سکتا ہے، جاہل نہیں۔ روشن ضمیر خواہ اندھیرے میں ہو، اسے روشنی کی ایک کرن سورج سے شناسا کرنے کیلیے کافی ٹھہرتی ہے۔
عالی ظرف خود سے خود کو نکالنے پر قادر ہوتا ہے۔ خود بھوکا رہ کر دوسروں کو سیر کرنا عالی ظرفوں کا شیوہ ہے۔عالی ظرف کھاتا نہیں بلکہ کھلاتا ہے۔ رب کی یہ صفت جہاں جلوہ گر ہوگی وہاں ربوبیت کا دسترخوان بچھ جائے گا۔ جب ظرف اور اخلاقِ حسنہ ہم آہنگ ٹھہرے تو ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ اخلاق کی اعلیٰ ترین اقدار کہاں قائم ہو رہی ہیں۔ معاف کردینا ظرف کے اعلیٰ ہونے کی دلیل ہوا کرتی ہے۔ تاریخ کے روشن دانوں سے جھانکیں تو معافی ، عام معافی اور پھرغیرمشروط معافی صرف فتح مکہ کے موقع پر دیکھی جاتی ہے۔ کمالِ ظرف ہے کہ فاتحِ زمانہ نے عجز و انکسار میں اپنا سر اتنا جھکا دیا کہ اونٹنی کے کجاوے کے ساتھ چھونے لگا۔ رسالت مآبؐ نے فرمایا کہ مجھ سے پوچھا گیا، آپ کیا چاہتے ہیںِ، بادشاہ نبی بننا چاہتے ہیں یا فقیر نبی۔۔۔۔۔۔۔ فرمایا کہ میں نے فقیری کا انتخاب کیا، یااللہ ! مجھے مسکینوں میں زندہ رکھ اور مسکینوں میں اٹھا، مجھے ایک دن کھانا کھلا اور ایک دن بھوکا رکھ۔ شاہِ کون و مکاں نے اپنے لیے فقر یہاں تک پسند کیا کہ فرمایا "الفقر فخری”۔ جس فقر پر آپؐ نے فخر کیا وہ فقرِ علیؓ تھا۔ دولت اور طاقت کا اختیار ہوتے ہوئے اس سے بے نیاز ہوجانا ظرف کے عالی ہونے کی انتہا ہے۔ اپنے ظرف کو عالی کرنے اور رکھنے کیلئے ہمیں عالی ظرف کرداروں کی ضرورت ہوتی ہے، اور کائنات میں سب سے اعلیٰ اخلاق و کردارجس ذاتِ گرامی کا ہے اس پر اللہ اور اس کے فرشتے ہمہ حال درود بھیجتے ہیں، اور مومنوں کو بھی حکم ہے کہ درود بھیجیں۔۔۔۔۔۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں” یاد کا نام درود ہے، ادب کا نام فیض ہے” آپؒ فرمایا کرتے کہ اپنی زندگی میں ایک نامناسب اخلاق اس لیے نکال دو کہ حضورؐ کو پسند نہیں اور ایک اچھا کام اسلیے اپنا لو کہ حضورؐ کو پسند ہے تو تمہارا درود شروع ہو جائے گا۔ گویا یاد کا عملی طریقہ یہ ہے کہ کردار کی خوبی اپنا لی جائے ، تاکہ یاد ہمہ حال قائم ہو جائے۔ کردار کردار کے قریب ہو جائے تو روح روح کے قریب ہو جاتی ہے۔ اپنے ظرف کی تنگنائے کو وسعت آشنا کرنے کے لیے لازم ہے کہ ہم اپنے ظرف کی آبجو کو واصل دریا کریں۔ دل ہوں یا دریا، ان کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ سوئے قلزم رواں ہوتے ہیں۔ جہاں دو دل ملتے ہیں وہاں خضر سے ملاقات ہوتی ہے۔ خضر جسے اپنی ہمراہی کا شرف عطا کریں اس کے سامنے نہاں عیاں ہوا جاتا ہے!!!

تبصرے بند ہیں.