(تیسری وآخری قسط۔گزشتہ سے پیوستہ)
گزشتہ کالم میں، میں عرض کررہا تھا ہم علی سہیل ورک کے والد محترم کو سول ہسپتال گوجرانوالہ سے اُٹھا کر سرجی مڈ ہسپتال لاہور لے آئے۔ بھائی جان عامر عزیز نے مریض کی فائل دیکھنے کے بعد فرمایا تھا گوجرانوالہ کے سول ہسپتال میں مریض کا علاج بالکل ٹھیک ہورہا ہے لیکن اگر آپ اُنہیں صرف اپنی تسلی کے لیے لاہور لانا چاہتے ہیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں، ملک کے نامور ترین آرتھوپیڈک سرجن پروفیسر عامر عزیز کا شمار سرجی مڈہسپتال کے مالکان میں ہوتا ہے، ہسپتال کے مالکان مریض کو باقاعدہ ایک ’’گاہک‘‘ سمجھتے ہیں، میں نے اپنے گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا پروفیسر عامر عزیز ایک بالکل مختلف مزاج کے حامل ایسے فرشتہ سیرت انسان ہیں میرے خیال میں اُن کے اتنے زیادہ مریض اُن کی دوا سے ٹھیک نہیں ہوتے جتنے اُن کی دعا سے ہوتے ہیں، میرا اور میرے محترم بھائی طارق عباس قریشی کا بھی یہی خیال تھا اگر ابتدائی سرجری گوجرانوالہ کے سول ہسپتال میں بالکل ٹھیک ہوگئی ہے اب اُنہیں لاہور شفٹ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، علی سہیل ورک مگر بے چین تھا کہ اُسے ہر حالت میں اپنے والد کو لاہور کسی اچھے سرجن کی نگرانی میں شفٹ کرنا چاہیے، اِس حوالے سے اُسے ایک فکریہ بھی تھا لوگ کیا کہیں گے بیٹا بیرون ملک اتنا کماتا ہے اور باپ کا علاج ایک عام سے سرکاری ہسپتال میں کروارہا ہے، اِسی سوچ کے غالب آنے پر وہ فوری طورپر اپنے والد کو لے کر لاہور سرجی مڈشفت ہوگیا، پروفیسر مجید چودھری کا سرجری میں ایک نام ایک شہرت ہے اُنہوں نے اُن کا علاج شروع کردیا، علی سہیل ورک بار بار اِس اطمینان کا اظہار کررہا تھا وہ اگر اپنے والد کو گوجرانوالہ کے سرکاری ہسپتال میں رہنے دیتا اُس کے والد اب تک فوت ہوچکے ہوتے لہٰذا اُس نے اُنہیں لاہور شفٹ کرکے بہت اچھا کیا، اُس کے عزیز واقارب بھی اُس کی ہاں میں ہاں ملارہے تھے، میں سوچ رہا تھا کاش ہمارے سرکاری ہسپتالوں کی حالت کم ازکم اتنی تو درست ہو جائے وہاں داخل ہونے والے مریض کے بارے میں اُس کے عزیز واقارب یہ سوچنا بند کردیں اُن کا مریض اب یہاں سے زندہ واپس نہیں جائے گا، دوتین روز میں مریض کے زخم بھرنے لگے، پروفیسر مجید چودھری زخموں پر خود پٹی کرتے تھے، میں اُن کے پاس کھڑا اکثر یہ سوچ رہاہوتا تھا کاش ہمارے یہ بڑے بڑے پروفیسرز بڑے بڑے سرجنزاُن مریضوں کی بھی اپنے ہاتھوں سے ایسے ہی پٹی کیا کریں، یا اُن کے زخم بھی اپنے ہاتھوں سے ایسے ہی صاف کیا کریں جن کے پاس علاج کے لیے پیسے نہیں ہوتے، یعنی وہ ’’مفت کے مریضوں‘‘ کا بھی ایسے ہی خیال رکھا کریں جیسے وہ اپنے ’’قیمتی مریضوں‘‘ کا رکھتے ہیں، … دوتین روز بعد پروفیسر مجید چودھری کسی ذاتی غرض سے بیرون ملک چلے گئے، اُن کے جانے کے بعد اچانک ’’ انکشاف‘‘ ہوا مریض کے اندرونی زخمی رس رہے ہیں جس کی وجہ سے انفکیشن بڑھتا جارہا ہے، لہٰذا فوری طورپر دوسری سرجری کرنی پڑے گی، اِس مقصد کے لیے سرجی مڈ کے ایک اور سرجن پروفیسر کرنل عامر میاں کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا، سرجن مجید چودھری کے صاحبزادے سلمان چودھری نے اُن کی معاونت کی۔ سلمان چودھری کی معاونت کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی، اُنہیں صرف اُن کے ابومجید چودھری کی وجہ سے ساتھ رکھنا پڑ رہا تھا کہ کہیں وطن واپسی کے بعد وہ ناراض نہ ہو جائیں کہ اُن کا مریض اُن کے جانے کے بعد پروفیسر کرنل عامر میاں نے کیوں چھین لیا ؟… خیر دوسری سرجری بھی کامیاب ہوگئی، ایک بار پھر مریض تیزی سے صحت یاب ہونے لگا…ہمارے ایک بہت ہی محترم بھائی چودھری فیض چدھڑ پنجاب کے چیف کلکٹر کسٹمز ہیں، ذاتی حیثیت میں وہ ایک فرشتہ سیرت انسان ہیں، اتنے اہم عہدے پر ہوتے ہوئے عاجزی وانکساری جس طرح کُوٹ کُوٹ کر اُن میں بھری ہوئی ہے میں اکثر سوچتا ہوں زمانہ طالب علمی وہ میرے اُستاد ہوتے میری ذاتی زندگی میں اخلاقی حوالے سے جو کمیاں رہ گئی ہیں وہ شاید نہ ہوتیں، علی سہیل ورک کے ساتھ اُن کا کوئی دیرینہ تعلق نہیں۔ ڈیڑھ دوبرسوں سے بس اِک رابطہ ساتھا، مگر اُنہوں نے اِس مقولے کو ثابت کردیا ’’ رشتے خون کے نہیں احساس کے ہوتے ہیں، احساس کا رشتہ آزمائش کی اِس گھڑی میں جتنا اُنہوں نے نبھایا ہم جیسے دنیا دار اُس کا تصور بھی نہیں کرسکتے، اُن کا نام اُن کے والدین یا بزرگوں نے ’’فیض‘‘ شاید اِس لیے رکھا ہوگا وہ ’’فیض‘‘ تقسیم کرتے رہیں، شاید یہی اُن کی ’’خصوصیت‘‘ ہے جس کی بنیاد پر اللہ نے اُنہیں نئی زندگی دی کہ ایک حادثے میں موت کے منہ میں جانے سے وہ بال بال بچے، علی سہیل ورک کے والد سہیل ورک جتنے دن سرجی مڈہسپتال میں رہے کوئی دن شاید ہی ایسا ہوگا جب فیض صاحب سے وہ ’’فیض یاب‘‘ نہ ہوئے ہوں، پروفیسر مجید چودھری کے ساتھ اُن کا ذاتی تعلق ہے سو اُن کی وجہ سے بھی وہ مریض پرخصوصی توجہ دیتے تھے، … علاج کامیابی کے ساتھ جاری تھا۔ مگر پھر ہوا یہ تیسرے آپریشن کے بعد انفیکشن ہی کنٹرول نہ ہوسکی، نہ ہی سرجنز کو پتہ چل سکا یہ کون سی انفیکشن ہے اور اِس کے لیے کون سی میڈیسن یا انجکشن اثر کرتا ہے؟، انفیکشن اِس قدر بڑھ گیا فیصلہ کیا گیا مریض کو وینٹیلٹر پر ڈال دیا جائے، سوچار روز مسلسل وینٹیلٹر پر رہنے کے بعد مریض اللہ کو پیارا ہوگیا، علی سہیل ورک کو اپنے والد کا علاج کرنے والے ڈاکٹرز سے بہت سے شکوے شکایات ہیں، والد کو لاہور کے اچھے ہسپتال میں لاکر بہترین سرجنز سے اُن کا علاج کروانے کا کوئی فائدہ اُسے نہیں ہوا، گوجرانوالہ میں اُس کے والد کا سرکاری ہسپتال میں بہت کم پیسوں سے علاج ہورہا تھا، لاہور میں اُس نے لاکھوں روپے خرچ کیے، مگر والد کو بچا نہ سکا، موت کا ایک دن مقرر ہے، اُس نے اور اُس کے عزیزواقارب نے بہت دعائیں کیں بہت صدقے دیئے،… آخری آپریشن سے پہلے مریض کو جب آپریشن تھیٹر لے جانے لگے اُنہوں نے کمرے سے سب کو باہرنکال دیا، مجھ سے پوچھنے لگے ’’بٹ صاحب مجھے یقین ہے آپ مجھ سے جھوٹ نہیں بول سکتے۔مجھے بتائیں میں بچ جائوں گا؟‘‘… میں نے عرض کیا ’’ان شاء اللہ آپ ضرور بچ جائیں گے، آپ نے بس ہمت نہیں ہارنی‘‘… اُنہوں نے ہمت نہیں ہاری، وینٹیلٹر پر جب اُن کے مصنوعی سانس چل رہے تھے تب بھی اُن کا چہرہ بڑا مطمئن تھا، بس مجھے ایک فکر ہے روز حشر میری اُن سے اگر ملاقات ہوگئی وہ مجھ سے ضرور یہ پوچھیں گے ’’بٹ صاحب تُسی میرے نال جھوٹ کیوں بولیا سی ؟؟؟
Next Post
تبصرے بند ہیں.