اسلامو فوبیا کے خلاف امریکی کانگریس میں قانون سازی

104

امریکی ایوان نمائندگان میںاسلامو فوبیا کے خلاف بل منظورکر لیا گیا۔ڈیموکریٹس نے 219 وو ٹ کے ساتھ اسلامو فوبیا کے خلاف بل کی حمایت کی جبکہ ری پبلکنز نے 212 ووٹ کے ساتھ اسلامو فوبیا کے خلاف بل کی مخالفت کی۔بل کے تحت ایک محکمہ بنایا جائے گا جو اسلامو فوبیا کے واقعات کو مانیٹر کرے گا لیکن اس سے پہلے بل کو قانون بنانے کے لیے امریکی سینیٹ میں بھیجا جائے گا۔ یہ اقدام اس تناظر میں کیا گیا جب گذشتہ ماہ امریکی کانگریس کے مسلمان ارکان نے رپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والی ایوان نمائند گان کی رکن لورین بوبرٹ کی مذمت کی تھی جن کے اسلاموفوبیا پر مبنی ریمارکس منظرعام پر آئے تھے۔
مسلمان رکن کانگریس الہان عمر کو بل پیش کرنے میں بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا اور ایک ری پبلکن رکن کانگریس اسکاٹ پیری نے الہان پر دہشتگرد تنظیم سے تعلق کا الزام بھی لگایا تاہم بل منظور ہونے کے بعد اسکاٹ پیری کے الفاظ ایوان کی کارروائی سے حذف کردیئے گئے۔الہان عمرنے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسلامو فوبیا کے خلاف بل کا منظورہونا مسلمانوں کیلئے سنگ میل ہے یہ امریکا سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے بڑی خبر ہے۔ بل سے یہ پیغام گیا کہ اب اسلاموفوبیا کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ تعصب کے خلاف کھڑا ہونا کسی کو حملوں کا نشانہ بنا سکتا ہے لیکن ہمیں بزدل نہیں ہونا چاہیے ہمیں بلند کھڑے رہنا ہے۔سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے بھی خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
الہان عمر کے اس بل کا نام ‘بین الاقوامی اسلاموفوبیا کا مقابلہ’ ہے جس کا مقصد ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کے تحت ایک خصوصی نمائندے کا تعین کیا جائے جو دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کے واقعات کو رپورٹ کر کے امریکی محکمہ خارجہ کے علم میں لائے۔ اس نمائندے کی تعیناتی صدر کے ذریعے ہو گی اور واضح رہے کہ ایسا ہی ایک نمائندہ پہلے ہی امریکی محکمہ خارجہ میں موجود ہے جس کا کام
عالمی سطح پر یہود مخالف واقعات کو رپورٹ کرنا ہے۔ویسے تو یہ بل گذشتہ کئی مہینوں سے ایوانِ نمائندگان کی اْمورِ خارجہ کمیٹی میں موجود تھا مگر گذشتہ چند دنوں کے واقعات نے اس بل میں نئی روح پھونک دی ہے جس کے بعد اسے منظور کر لیا گیا ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان میں اس بل کی منظوری دنیا بھر میں مسلمانوں کے لیے ایک بہت بڑا سنگ میل ہے اور ایک مضبوط اشارہ ہے کہ اسلاموفوبیا کو کہیں بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ وائٹ ہاؤس نے بھی اس بل کی حمایت میں کہا ہے کہ آزادی مذہب بنیادی انسانی حق ہے۔اگر یہ قانون سازی کامیابی سے تمام مراحل طے کر لیتی ہے تو اس کے دور رس نتائج ملکی اور عالمی سطح پر ظاہر ہو سکتے ہیں۔
اسلامو فوبیا ایک ذہنی اختراع ہے، نفسیاتی بیماری ہے، مسلمانوں سے نفرت کرنے، تعصب برتنے کا نام ہے۔ اسلامو فوبیا مغرب میں جس طرح پھیلتا دکھائی دے رہا ہے اس پر پوری سنجیدگی ، تندہی اور وسیع تر انداز میں جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ ز ہر پھیلتا رہا توسب سے زیادہ مغربی معاشروں کے لئے خطرہ پیدا کردے گا۔
وزیر اعظم عمران خان نے اسلاموفوبیا کی کارروائیوں کے ذریعے بین المذاہب منافرت بڑھانے اور تہذیبوں کے درمیان افہام و تفہیم کو نقصان پہنچانے کے حوالے سے دنیا بھر میں اس طرح کے واقعات میں اضافے کی بنیادی وجوہات پر توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ اسلام کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ساتھ غلط طور پر جوڑنا مسلمانوں کی پسماندگی اور بدنامی کا باعث بنتا ہے۔ اسلامی نظریات اور مذہبی شخصیات کو آزادی اظہار رائے کی آڑ میں نشانہ بنانے سے دنیا بھر کے تقریباً ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔
ایک معروف غیر سرکاری امریکی تنظیم نے سروے میںامریکیوں سے سوال پوچھا کہ اسلامو فوبیا کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ اس کے جواب میں 57فیصد امریکیوں نے کہا،اس پر ہماری کوئی رائے نہیں ہے جبکہ 36فیصد کی رائے میں یہ ایک بڑا مسئلہ ہے، جبکہ باقی نے منفی جواب دیئے۔ اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مغربی ذہن یا تو پروپیگنڈہ کے زیر اثریا سیاسی انتہا پسند عناصر کے نعروں کے زیر اثر فیصلہ کررہا ہے اس کو اپنی ذہنی روش بدلنا ہوگی۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے۔ اگر درست اعداد و شمار سے دیکھا جائے تو اسلام ہی دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے کیونکہ عیسائیت میں مذہب کو نہ ماننے والوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ پیغمبر اسلام حضرت مصطفیٰؐ کو دنیا کے بڑے فلاسفر دانشوروں اور رہنمائوں نے دنیائے انسانیت کی سب سے عظیم و برتر ہستی تسلیم کیا ہے اس حوالے سے دو سو سے زائد معروف مصنفین کی کتابوں کے حوالے پیش کئے جاسکتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کوئی ابہام نہیں کہ دنیا میں پیغمبر اسلام ؐ کے علاوہ اور کوئی شخصیت پیدا ہی نہیں ہوئی جس نے دنیا کے ایک عظیم حصے میں اربوں انسانوں کو اپنا ہم نوا بنایا ہو۔ان تمام حقائق کو ملحوظ رکھنے کے بعد بھی کسی کے ذہن میں اسلامو فوبیا کی ایک رمق بھی باقی رہتی ہے تو پھر یہ اس فرد کے دماغ کافتور ہے۔
مغرب کو قدرے سنجیدگی اور غیر جانبداری کھلے ذہن کے ساتھ اسلام اور اسلامی تعلیمات کا جائزہ لینا چاہئے۔ اسلام کا مطلب ہی امن اور سلامتی ہے۔ آج اسلام دنیا کادوسرا بڑا مذہب ہے۔مغربی دنیا کو یہ کھلی حقیقت ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ آج وہ جس ترقی کی منزلوں پر پہنچ رہی ہے اس ترقی کی بنیاد مسلمانوں نے ہی فراہم کی تھی۔ اہلیانِ مغرب بدقسمتی سے مختلف ادوار میں اپنے مخالفین کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈے کو بہ طور ہتھیار استعمال کرتے رہے ہیں۔ ایسا ہی پروپیگنڈااسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کیاگیا،خصوصانائن الیون کے واقعے کے بعد اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ کر دکھایا جاتارہا جس کے نتیجے میں نفرت کی یہ آگ تیزی سے پھیلی جس نے اہلیانِ مغرب کو اسلاموفوبیا کا شکار کردیاہے۔ نتیجتاً دہشت گردی میں اضافہ ہورہاہے۔

تبصرے بند ہیں.