16 دسمبر: دو خونیں سانحوں کا دن

80

آج پورے پچاس سال ہو گئے۔ یہاں، باقی ماندہ پاکستان میں بیٹھی، میں یہ کالم لکھ رہی ہوں اور ادھر بنگلہ دیش اپنی  "آزادی ” کی گولڈن جوبلی تقریبات میں مصروف ہے۔ یہ تقریبا کئی دنوں سے جاری ہیں۔ آج ان کا نقطہ عروج ہو گا۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہم چودہ اگست کو مناتے ہیں۔ کبھی یہی 14 اگست بنگلہ دیش والوں کے لئے بھی آزادی کا دن تھا۔ تب وہ خطہ مشرقی پاکستان کہلاتا تھا۔ پھر آج کا دن ، 16 دسمبر، ہماری تاریخ کا حصہ بنا اور قائداعظم کا پاکستان دو لخت ہو گیا۔ مغربی پاکستان، پورا پاکستان بن گیا اور مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش کہلانے لگا ۔ ہم اس دن کو یوم سیاہ کہتے ہیں اور بنگلہ دیش والوں کے لئے یہ صبح آزادی کا دن ہے۔ بنگلہ دیش کے عوام کو تو شاید اپنی آزادی کے ثمرات مل رہے ہوں اور بظاہر مل رہے ہیں لیکن ہمارے ہاں اس    "یوم سیاہ”   کو رسمی اور روائتی حیثیت بھی حاصل نہیں رہی۔ کہیں کہیں کوئی اکا دکا تقریبات ہوتی ہیں۔ اخبارات میں کچھ مضامین چھپتے ہیں۔ کچھ کالم شائع ہوتے ہیں اور پھر اس یوم سیاہ کی سیاہی ختم ہو جاتی ہے۔
میرا تعلق پاکستان کی اس نسل سے ہے جس نے متحدہ پاکستان نہیں دیکھا۔ جو سقوط ڈھاکہ کے بعد پیدا ہوئی۔ جو بچہ 16 دسمبر 1971 کے دن پیدا ہوا تھا۔ اس کی عمر بھی پچاس برس ہو گئی ہے۔ اگر وہ تعلیم کے مختلف مراحل سے گزرا ہے تو اعلیٰ تعلیم حاصل کر چکا ہو گا۔ اس سے پوچھیے کہ کیا اسے پرائمری، مڈل، ہائی ، اعلیٰ ثانوی اور یونیورسٹی سطح کی تعلیم کے کسی بھی مرحلے میں بتایا گیا کہ متحدہ پاکستان کیوں ٹوٹا؟ سقوط ڈھاکہ کے اسباب و محرکات کیا تھے؟ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کیا کہتی ہے؟ اسکی سفارشات پر کتنا عمل ہوا؟ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ہم نے سانحہ سقوط ڈھاکہ سے کیا سیکھا؟ ہمارے طور طریقوں میں کیا تبدیلی آئی؟ ہم نے اپنی پالیسیوں اور اقدامات میں کیا رد و بدل کیا کہ آئندہ ہمارا ملک کبھی اس طرح کی صورت حال سے دوچار نہ ہو؟ ان سوالوں کے جوابات کی تفصیلات میں جائے بغیر پورے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ شاید ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کا بھی بس اتنا ہی حصہ سامنے آیا جتنا ایک بھارتی سورس کے زریعے ہمیں پتہ چلا۔ مکمل رپورٹ ابھی تک پردہ راز میں ہے۔
سقوط ڈھاکہ پہ لکھی گئی کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ جسٹس حمود الرحمن کمیشن نے پاکستان کی سلامتی اور بقا  کے لئے جمہوریت کو ضروری قرار دیا تھا۔ رپورٹ نے دستور کی حکمرانی کو نا گزیر کہا تھا۔ آمرانہ حکومتوں کو مہلک اور خطرناک قرار دیا تھا۔ لیکن ہمارا حال دیکھیں کہ گزشتہ پچاس سالوں میں سے بیس سال دو فوجی جرنیلوں کی حکمرانی رہی۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔ جمہوری حکومتیں بار بار ٹوٹتی رہیں۔ وزیر اعظم آتے اور جاتے رہے۔ اس عر صے میںوہ بڑی وفاقی جماعتیں کمزور ہو گئیں جو وفاق کے اتحاد اور یکجہتی کی ضمانت تھیں۔ چھوٹی اور علاقائی جماعتوں کو فروغ ملا۔نتیجہ یہ کہ علاقائی اور صوبائی تعصب میں اضافہ ہوا اور مسلسل ہو رہا ہے۔ جمہوری سوچ میں وسعت آنے کے بجائے تنگی اور گھٹن آرہی ہے۔ ملک میں  عدم برداشت اور تنگ نظری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا اظہار مختلف شکلوں سے سامنے آرہا ہے۔ اگر ہماری سیاست مختلف طبقاتی تعصبات سے پاک نہ ہوئی تو قومی یکجہتی کو فروغ دینا آسان نہیں ہو گا۔
ایک اور پہلو سے بھی سیکھیے۔ ایک آدھ بار ٹھوکر کھانے کے بعد بنگلہ دیش سنبھل گیا ہے۔ موجودہ وزیر اعظم گزشتہ دس سالوں سے اپنے عہدے پر قائم ہیں۔ اگر ان کے گزشتہ چھ برس کا عرصہ بھی شامل کر لیا جائے تو یہ معیاد سولہ برس بن جاتی ہے۔ جب ملک کی داخلی، خارجی، اقتصادی اور عمومی پالیسیاں سولہ سال تک کسی ایک شخصیت کے ہاتھ میں رہیں گی تو یقینا ان کا تسلسل آئے گا۔ نتیجہ یہ کہ بنگلہ دیش ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو چکا ہے۔ اس نے بڑی کامیابی کے ساتھ بڑھتی ہوئی آبادی کی رفتار کو قابو کر لیا ہے۔ برآمدات میں وہ ہم سے کہیں آگے ہے۔اس کی کرنسی ٹکہ، ہمارے روپے سے دگنی قدر رکھتی ہے۔ ایک ڈالر 95 ٹکے کا ہے، جبکہ ہمارا روپیہ ایک ڈالر کے مقابلے میں 180 تک پہنچ چکا ہے۔ اس کا جی۔ڈی۔پی بھی ہم سے دگنے سے بھی زیادہ ہے۔ ہمارے سولہ ارب ڈالر کے مقابلے میں بنگلہ دیش کے ذخائر 50 ارب ڈالر ہیں۔ ہمارے ہاں غربت کی شرح 40 فی صد جبکہ بنگلہ دیش میں 20 فی صد ہے۔ غرض سماجی اور اقتصادی تمام شعبوں میں وہ ہم سے کہیں آگے ہے۔ فی کس آمدنی بھی ہمارے ہاں کی فی کس آمدنی سے دگنی ہے۔ بہتر صحت پالیسیوں کی وجہ سے اوسط عمر72 سال تک ہو گئی ہے۔ بیرونی قرضے ہمارے چوتھائی کے برابر ہیں۔
ہمارا یہ حال کیوں ہے؟ شاید سقوط ڈھاکہ کے سانحے سے ہم بھی کوئی سبق سیکھتے تو حالات میں کچھ بہتری آجاتی۔ لیکن ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔ سیاسی عدم استحکام اب بھی عروج پر ہے۔ ہر طرف بے یقینی کی فضا پھیلی ہوئی ہے۔ معیشت تباہی کا شکار ہے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ تقریبا آدھی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے چلی گئی ہے۔ بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ہمارے بہت ہی دیرینہ اور ہر مشکل میں کام آنے والے دوست، سعودی عرب نے تین ارب ڈالر کا قرضہ، جتنی سخت شرائط پر دیا ہے، ماضی میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ایف۔ بی۔ آر کے سابق چیئرمین شبر زیدی نے یہ بیان دے کر خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں کہ ملک دیوالیہ ہونے کو ہے۔ اگر بنگلہ دیش پچاس سالوں میں ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا ہم سے کہیں آگے نکل گیا ہے تو ہم تمام شعبوں میں زوال کا شکار کیوں ہیں؟
آج کا دن ، 16 دسمبر، ایک اور دل دہلا دینے والے سانحے کی یاد بھی دلاتا ہے۔ یہ سانحہ ہے آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے حملے کا جس میں 132 معصوم بچوں سمیت 150 کے لگ بھگ افراد شہید ہو گئے تھے۔ جس بے دردی کے ساتھ اتنی بڑی تعداد میں پھول جیسے بچوں کو قتل کر دیا گیا ، اسکی مثال شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے ملک میں ملے۔ جیسا کہ میں نے گزشتہ کسی کالم میں نیشنل ایکشن پلان کا ذکر کیا تھا، آج سات سال بعد بھی اس پلان کی کئی شقوں پر کوئی عمل نہیں ہوا۔ اب تو ایک بار پھر دہشت گردی کی وارداتیں شروع ہو گئی ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ ہم کسی سانحے یا کسی بھیانک واردات سے کوئی سبق نہیں سیکھتے۔
سقوط ڈھاکہ اور اے۔پی۔ ایس، دراصل ایک ہی سلسلے کی دو کڑیاں ہیں۔ دونوں کے پس منظر میں ہماری منفی پالیسیاں کام کر رہی ہیں۔ ستم یہ کہ ہم نے دونوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔

تبصرے بند ہیں.