آہ سولہ دسمبر

80

قا ر ئین کرام، کل ایک اور سو لہ دسمبر آ یا تھا ،اور گذ ر گیا۔ اور آ ج سترہ دسمبر ہے۔ تین برس پہلے کے سترہ ستمبر والے روز جب میری اہلیہ نے اخبا ر میں اْ ن مقتول بچوں کی تصا ویر دیکھیں تو وہ پھو ٹ پھو ٹ کر رونے لگی تھی اور کہہ رہی تھی کہ ’ یہی تو تھے ۔ایسے ہی تو تھے جن کے پشاور میں گلے کاٹ دیئے گئے۔ان کا جرم کرکٹ کھیلنے کے نتیجے میں کسی کے گھر گیند آنے سے زیادہ نہیں ہوتا۔تم مرد ہم ماؤں کے درد کو محسوس ہی نہیں کر سکتے۔اسی لئے تو تم ان کی حفاظت نہ کر سکے۔تم،تم لوگوں کو پا لیسیاں بنانا آتی ہیں۔اخباری بیانات جاری کرنا آتے ہیں۔مذمت کے فن میں تم سے زیادہ ماہر کوئی اور نہیں۔تم، تم بزدلوں ان پھولوں کی نگہداشت کر ہی نا سکے‘‘ میں خاموشی سے شرمندگی کے سے عالم میں ا پنی سٹڈی میں چلا آیااور سوچنے لگا کہ کیا وہ تار جس سے دنیا بھر کی ماؤں کے دل آپس میں بندھے ہیں، ہم مردوں کو کبھی نظر آسکے گا؟کتنا عجیب تار ہے یہ جس سے ایک کی ممتا کے سگنلز سب تک منتقل ہو جاتے ہیں۔اور یہاں تو ایک سو بتیس بلکہ اس سے بھی زیادہ کے سگنلز تھے ۔تبھی تو ان سگنلز کی توانائی نے سب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔انصاف سے کام لیتے ہوئے کہتا ہوں کہ پشاور حادثہ پر جتنے درد اور خلوص کے ساتھ خواتین کالم نگاروں نے لکھا ہے،ہم مرد حضرات اس کی دھول تک نہیں پہنچ سکتے جن لوگوں نے بھی یہ مضا مین پڑھے وہ ضرور گواہی دیں گے کہ ان کی تحریر میں تصنع اور بناوٹ کا دور دور تک کوئی شائبہ نہ تھا ۔بلکہ ممتا کی پاک دھڑکن صاف سنائی دے رہی تھی۔بچے سب ہی خوبصورت ہوتے ہیں ،وہ بھی بہت خوبصورت تھے۔اور پھر چہروں پہ معصومیت ۔پھر جو حکومتی کارند و ں نے ان کے لئے دُعاؤں کے پروگرام رکھے تو میں نے ان سے گزارش کی تھی کہ جناب رہنے دیجیئے یہ احسان ۔ نہ کریں ان کے لئیے مغفرت کی کوئی دعا۔انہیں اس کی ضرورت ہی نہیں ۔البتہ اپنے لئے ابھی سے ضرور کریں کیونکہ آپ کے مرنے کے بعد گو کرائے کے ٹکر گدھے بے شک ایک کثیر تعداد میں آپ کے لئے دعا کریں گے ۔لیکن ان کی دعا عرش تک پہنچنا تو دور کی بات ،آپ کی عالیشان حویلیوں کی چھتوں کو بھی پار نہ کر سکے
گی۔اور پھر یہ سب سے بڑا حادثہ،جی نہیں،یہ کہیں کہ اب تک کا سب سے بڑا حادثہ۔(میرے منہ میں خاک) لیکن اس ملک کی تاریخ یہی بتاتی ہے۔واہگہ کا حادثہ کیا کم بڑا تھا ؟ لیکن اس حادثہ نے اسے چھوٹا بنا دیا ۔اسی دوران اندھوں پر اندھا ظلم کا حادثہ۔پھر اس سے پہلے ماڈل ٹاؤن لاہور میں چودہ انسانوں کا سیدھی فائرنگ سے قتل۔اس سے پہلے مسیحی برادری کے چرچ پر حملہ جس میں ۲۷۵ کے قریب انسان لقمہ اجل بنے۔ اس پہ طر ہ یہ کہ بقر ا طی کارندے ٹی وی پر بیٹھ کر فرما ر ہے تھے کہ بے شک پشاور میں بڑا حادثہ ہو گیا،لیکن اس بہانے سیاسی پارٹیاں ایک پیج پر آگیئں۔یعنی انہیں ایک پیج پر آنے کے لئے اتنی بڑی قربانی چاہیئے تھی۔تو پھر مائیں اور دیگر خواتین ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہیں کہ آؤ سبھی ماؤں سڑکوں پر ،ان بز دلوں سے ہمارے نونہالوں کی حفاظت نہ ہوسکے گی۔ہم خود اپنے نونہالوں کو اپنے حصار میں لے لیں گی۔اور دیکھیں گی کہ کون سورماان کی جانب بڑھتا ہے ۔یہ سن کر کیوں ہم مردوں کا کلیجہ نہیں پھٹتا ۔کیوں ہم ان کا خود پر اعتماد بحال کرنے میں نا کام ہیں؟
گو ہم یہ کہنے میں بجا ہیں کہ یہ پاکستان کا ۱۱، ۹ ہے۔لیکن خیال رہے کہ ۱۱،۹ نے امریکہ کی تاریخ کو واضح طور پر بدل دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔یعنی ایک ۱۱،۹ سے پہلے کا امریکہ اور ایک ۱۱،۹ کے بعد کا امریکہ ۔آپ دیکھ سکتے ہیں کہ امریکہ نے ۱۱،۹ کے بعد اپنے مفادات کو کتنا مدنظر رکھا۔اس نا چیز کو اچھی طرح یاد ہے کہ ۱۱،۹ کے فوراً بعد امریکہ کے اسوقت کے سیکریٹری آف اسٹیٹ کو لن پاؤل نے میڈیا ـ کی جانب سے کیئے جانے والے تندوتیزسوال کے جواب میں بتایا کہ ٹھیک صبح آٹھ بجے وہ خود ،صدر بش اورڈیفنس سیکریٹری رمز فیلڈروزانہ ٹیلی فون کانفرنس کال کرتے ہیں تا کہ آئندہ کا لائحہ عمل طے کر سکیںاس کے بر عکس وطن عزیز میں سانحہ پشاور کے فوراً بعد ہمارے اس وقت کے سر برا ہِ مملکت نے اپو زیشن لیڈر کو چائے کی دعوت دے ڈالی۔اور پھر وہ میٹننگ ان دونوں حضرات کے قہقہے پر ختم ہوئی۔یہ ہے ہمارے لیڈروں کی سنجیدگی کا معیار ۔۔۔ خیر جا نے دیجئے۔ ہم ۱۶ دسمبر ۲۰۱۴؁ کو پاکستان کی تاریخ کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔جس میں ۲۰۱۴؁ کے بعد کا پاکستان مثبت انداز میں ایک مختلف پاکستان ہو، لیکن نہیں۔ ہم ایک پیج پر آنے کی خوشی منا تے رہے ۔ اب بھی ہر صبح ڈرتے ڈرتے ٹی وی آن کرتے ہیں یہ سوچ کر کہ رات پھر کوئی نیا واقع رونما نہ ہو گیا ہو ۔اور ہر رات سونے سے پہلے بقول جون ایلیا یہ سوچ کر خوش ہوتے ہیں کہ
آج کا دن بھی عیش سے گزرا
سر سے پا تک بدن سلامت ہے
اس کالم میں جہاں ہم نے شہید بچوں کی ماؤں کے غم میں شریک ہونے کی کوشش کی وہاںسب بچوں کی مشترکہ روحانی ماں کا ذکر نہ کرنا بہت بڑی نا انصافی ہو گی میں ذکر کر رہا ہوں سکول کی پرنسپل صاحبہ کا،جنہیں بچوں کی جان بچانے کے لئے کوشش کرنے کی پاداش میں ز ند ہ جلا دیا گیا ۔میں پوچھتا ہوں کہ کیا وہ نشان حیدر کی مستحق نہیںہیں؟

تبصرے بند ہیں.