سانحہ اے پی ایس :ہستی کا اعتبار بھی غم نے مٹادیا

142

وطنِ عزیز کے دشمنوں نے ۱۶ دسمبر کی تاریخ کو ایک منحوس تاریخ بنا دیا ہے۔ ایک ۱۶ دسمبر کو ملک دو لخت ہوا اور دوسری ۱۶ دسمبر کو کتنی مائوں کے لختِ جگر جُداہوئے۔۱۶ دسمبر ۲۰۱۴؁ء کو اے پی ایس کا وہ سانحہ رونما ہوا جس نے ایک عالم کو غم و الم میں مبتلا کردیا۔ حیوانیت اور درندگی کی یہ انتہا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔اس سانحے میں ۸ سے ۱۸ سال کے وہ پھول بربریت کا نشانہ بن کر شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے جو ملک کا روشن مستقبل اور والدین کی آنکھوں کا نور تھے۔ ان معصوموں کو تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں نے اس وقت اپنے ظلم کا نشانہ بنایا جب وہ اسکول میں حصولِ علم میں مشغول تھے۔ سانحے میں طلباء اور اسکول اسٹاف سمیت ۱۴۱ شہید ہوئے اور چھ کے چھ دہشت گرد جہنم رسید ہوئے جب کہ ۱۲۱ بچے شدید زخمی ہوئے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ بد ترین دہشت گردی کی کاروائی ہے جو ۲۰۰۷ء کراچی میں سانحہ کارساز کے بعد ہوئی۔ مختلف نیوز ایجنسیوں کے مطابق اس حملے میں کی جانے والی کارروائی کی مماثلت بہت حد تک ۲۰۰۴ء میں بیسلن اسکول کے واقعے سے ہے جو روس میں نارتھ اووسٹیا الانیا (North Ossetia – Alania) میں ہوا۔ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اے پی ایس کا سانحہ پاک فوج کے مشہور آپریشن ضرب عضب کا رد عمل تھا جو پاک فوج نے ۸ جون ۲۰۱۴ء کو کراچی ائرپورٹ پر حملے کے بعد دہشت گردوں کی بیخ کنی کے لیے شروع کیا تھا۔ ایرانی نژاد امریکی مبصر ولی نصر کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کے نزدیک اے پی ایس پر حملے کا مقصد پاک فوج کے خلاف عوامی ردِ عمل اور دبائو پیدا کرنا تھا کہ وہ ضرب عضب کو بند کردے لیکن پاک فوج نے ان کی یہ چال ان پر ہی الٹ دی۔
اس سانحے نے قوم کو دہشت گردی سے لڑنے کا ایک نیا جذبہ دیا۔ سانحہ پشاور کے بعد ریاست اوراس وقت مسلم لیگ نواز کی حکومت نے یہ احساس
شدت کے ساتھ محسوس کیا کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا علاج بھی پوری قوت سے کرنا ہوگا۔ وہ سیاسی جماعتیں جو کسی نہ کسی شکل میں انتہا پسند عناصر کے لیے جواز تراشتی رہی تھیں انہوں نے بھی اپنے مئوقف میں واضح تبدیلی پیدا کی۔حکومت پاکستان نے عالمی پابندیوں اور دبائو کے باوجود سانحے کے دوسرے ہی دن سزائے موت پر پابندی فوری طور پر ختم کردی، آئین میں ۲۱ ویں ترمیم کی گئی اور نیشنل ایکشن پلان کی بنیاد رکھی گئی۔ آج کی برسرِ اقتدار جماعت تحریک انصاف نے اپنا دھرنا فوری طور پر ختم کرنے کا اعلان کیا ، حکومت، فوج ، سیاسی قیادت اور عوام ایک صفحے پر نظرآئے۔
مگر یہ بھی ایک افسوس ناک پہلو ہے کہ حکومت اور سیاسی قیادت کی جانب سے شہداء کے لواحقین اور متاثرین کے دکھ اورغم کا ازالہ اس طرح سے نہیں کیا گیا جس کے وہ حقدار تھے۔ ہماری سوچ و فکر اور رویوں کا یہ حال ہے کہ ہم اپنے کھلاڑیوں کی کامیابیوں پر شاندار اور پر تکلف تقریبات کا اہتمام کرکے ان کو سراہتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ملک کی بڑی رہائشی سوسائیٹیوں میں ان کو ہزاروں گز کے پلاٹ اور نقد رقوم بھی انعام میں دیتے ہیں لیکن اے پی ایس کے شہداء کے لیے کسی سوسائٹی یا کسی اور مقام (خیبر پختونخواہ میں ایک مقام کے علاوہ) پر کوئی یادگار قائم نہیں کی گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شہداء کے ورثاء اور متاثرین کو حکومت کی جانب سے ایک قومی سطح کی تقریب منعقد کرکے خراج تحسین پیش کیا جاتا اور ان کے دکھوں کو بانٹا جاتا لیکن کہ افسوس ایسا نہ ہوسکا۔ جب کہ پاک فوج کے سربراہ کی جانب سے باقاعدگی کے ساتھ دونوں عیدین پر ورثاء کو نہایت عزت و احترام کے ساتھ تحائف سے پیش کیے جاتے ہیں۔
وطن عزیز میں دہشت گردی کے حملے اور کاروائیاں اس سٹرٹیجک ڈیپتھ پالیسی کا نتیجہ و تسلسل ہیں جو ضیاء الحق مرحوم کے دور اقتدار میں اختیار کی گئی۔ آنے والی حکومتوں اور سیاسی قیادت نے مستقبل کا لائحہ عمل مرتب کرنے کی بجائے فقط ملک کی سیاست ہی میں فتحیابی کے خواہشمند رہیں۔ رہی سہی کسر امریکہ میںہونے والے ۱۱ ستمبر کے سانحے نے پوری کردی جس نے پاکستان کو ایک بار پھر اغیار کا سپاہی بنا دیا ۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جہاد کے نام پر جن گروہوں کی سرپرستی کی گئی بعد میںانہیں میں سے ہر گروہ نے اپنے ہی طور پر جہاد کا علم اٹھا لیا جب کہ اہل دین و دانش بتاتے رہے کہ جہاد صرف اور صرف ریاست کی ذمہ داری ہے اور ریاست کی سرپرستی میں ہی سود مند ہے ۔ چونکہ اس ’’جہاد‘‘ کی بنیاد ہی گروہی مفادات پر تھی جس کے سبب یہ گروہ تقسیم در تقسیم ہوتے چلے گئے اور انارکی پھیلانے اور دین حنیف کی تعلیمات کو مسخ کرنے کے مکروہ فعل میں مصروف رہے۔
اگرچہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی اور بھی بہت سی وجوہات ہیںلیکن بنیادی وجہ ہمارا کمزور ریاستی و جمہوری نظام ہے، جس میں کمزور اور مفاد پرست سیاسی ٹولے اپنی بری طرز حکمرانی کے باوجود ملک پر قابض ہیں۔ معاشرے میں معاشی، سیاسی اور سماجی استحصال، اشرافیہ اور عوام میں بڑھتی ہوئی خلیج بھی وہ عوامل ہیں جومایوسی، انتہا پسندی اور شدت پسندی کو جنم دیتے ہیں۔جس کی ذمہ دار ہماری لبرل اور مذہبی سیاسی جماعتوں پر پوری طرح عائد ہوتی ہے۔
اے پی ایس کے شہداء نے اپنے خون کا نذرانہ دے کر ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مزید تیز کیا اور ماضی کے مقابلے میں آج کا استحکام انہی شہداء کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ ان کی شہادت کا قرض پوری قوم پر ہے۔
جن والدین کے لخت جگر اس سانحے کا شکار ہوئے ان کا حال ایک طرف تو یہ ہے وہ شہداء کے والدین ہونے پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں تو دوسری جانب جینے کی تمنا اور خواہش بھی معدوم ہوتی محسوس کرتے ہیں :
ہستی کا اعتبار بھی غم نے مٹا دیا
پروردگار عالم سے یہی دعا ہے کہ وہ کسی بھی انسان کو اولاد کی آزمائش اور دکھ کے غم سے محفوظ رکھے ۔ آمین

تبصرے بند ہیں.