وزیراعظم عمران خان صاحب سے درخواست ہے کہ راشنگ کے نظام کا نفاذ کریں۔ اس سے نہ صرف ایک کروڑ سے زائد لوگوں کو روزگار ملے گا بلکہ معیشت کا پہیہ بھی تیزی سے چلنا شروع ہو جائیگا۔ موجودہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کا واحد حل راشنگ سسٹم کا فوری نفاذ ہے اور یہ وقت کا تقاضا بھی ہے۔ راشنگ کے علاوہ کوئی بھی طریقہ غریب لوگوں کو مقررہ نرخوں پر اشیائے ضروریہ کی فراہمی کیلئے کارگر نہیں۔
محکمہ خوراک اس وقت کسی بھی صوبے میں ایک بار گندم کی خریداری کے علاوہ کوئی کام نہیں کرتا اور سارا سال فارغ رہتا ہے۔ اگر حکومت واقعی غریب عوام کو مہنگائی سے نجات دلانا چاہتی ہے تو نادرا کے تعاون سے محکمہ خوراک کم سے کم مدت میں لوگوں کیلئے راشن کارڈ تیار کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی تمام اخبارات میں راشن ڈپووں کے قیام کیلئے خواہش مند افراد سے درخواستیں طلب کی جائیں۔ راشنگ کا نظام جاری کرنے کیلئے کم از کم پچاس لاکھ راشن ڈپو قائم ہوں گے اور ہر ڈپو ہولڈر دس لاکھ کی سیکورٹی جمع کرائے گا۔ اس سے اتنا پیسہ جمع ہوگا کہ حکومت کو مقامی بینکوں سے قرضے لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دران بھی ساری دنیا میں راشنگ سسٹم نافذ رہا بلکہ قیام پاکستان کے بعد بھی تقریباً تین سال تک راشن کا نظام برقرار رہا۔ 1965ء میں بھی چینی راشن کارڈ کے ذریعے راشن ڈپو سے ماہانہ کوٹے کے حساب سے ملتی تھی۔ ہر بالغ فرد کے لئے تین پائو (750گرام) اور ہر شیر خوار بچوں کے لئے آدھا سیر (450 گرام) کا ماہانہ کوٹہ مقرر تھا۔
راشنگ سسٹم میں شناختی کارڈ کی طرح پورے خاندان کا ایک کارڈ بنا دیا جاتا ہے جسے دکھا کر حکومت کی مقرر کردہ دکانوں سے اشیائے صرف و اشیائے خورونوش حکومت کے مقرر کردہ نرخوں پر خرید سکتے ہیں۔راشنگ سسٹم کی وجہ سے ملکی سطح پر غذائی اجناس کی ذخیرہ اندوزی کا بھی قلع قمع کیا جاتا ہے۔ راشن کارڈ امریکہ،بھارت، برطانیہ، پولینڈ اور پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں استعمال ہوتا رہا ہے۔
محکمہ خوراک کے اہلکاروں کے ذمہ راشن کارڈ کی تیاری اور ترسیل کا کام لگا دیا جائے تو بہتر ہوگا۔ ویسے بھی اس کی تیاری اتنی مشکل نہیں کیونکہ نادرا کے پاس ہر پاکستانی کا مکمل ریکارڈ دستیاب ہے۔ نادرا کے تعاون سے ہر گھر کا ایک راشن کارڈ بن سکتا ہے جس میں گھر کے افراد کی تعداد اور عمریں وغیرہ درج ہوں گی۔ اس کے بعد پورے ملک میں علاقہ وار راشن ڈپوکھولے جائیں ۔
راشن ڈپو کی سیکورٹی کا براہ راست فائدہ تو حکومت کو سرمایہ کی فراہمی کی شکل میں ہوگا اور دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ اگر کوئی ڈپو والا چھوڑ جائے یا کسی قسم کی ہیرا پھیری کرے تو حکومت کے پاس اتنی سیکورٹی جمع ہو گی کہ حکومت کی بجائے نقصان اس شخص کا ہی ہوگا۔ اس راشن ڈپوپر اشیائے خورونوش اور اشیائے صرف حکومتی نرخوں پروافر مقدار میں دستیاب ہوں تاکہ لوگ آرام اور سہولت سے خریداری کر سکیں۔ حکومت براہ راست ان اشیاء پر سبسڈی دے گی تو براہ راست عوام اس سے مستفید ہوں گے۔ ہر محلے یا علاقے میں راشن ڈپو ہونے کی وجہ سے نہ رش کا ڈر اور نہ لائنیں لگنے کا خطرہ۔
راشن ڈپو کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ایک ڈپو والا لازماً تین یا چار ملازمین رکھے گا۔ یوں ہر ڈپوپر تین یا چار ملازمین کو روزگار ملنے سے بے روزگاری میں واضح کمی آئے گی۔ اس کے علاوہ فیکٹریوں، ملوں، منڈیوں سے سامان لانے کیلئے ٹرکوں اور دیگر ٹرانسپورٹ کی چلت سے معیشت کاپہیہ بھی چلے گا۔ سامان کی لوڈنگ ، ان لوڈنگ کیلئے بھی مزدوروں کی ضرورت پڑے گی جس سے بہت سے مزدوروں کو روزگار ملے گا۔ آہستہ آہستہ یہ ڈپو آپ کا جنرل سٹور بن جائے گا۔
جب محلے کے اکثر گھرانے ان ڈپوسے خریداری کریں گے تو عام جنرل سٹورز اور کریانے والے جو اشیائے خورونوش کی منہ مانگی قیمت طلب کرتے ہیں یا چینی ، آٹے ، گھی کی ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں اور قیمت بڑھ جانے پر بیچتے ہیں ، ان سے کوئی بھی چیز نہیں خریدے گا توان کی ذخیرہ کی ہوئی اجناس خراب ہونے لگیں گی جسے وہ لازماً اونے پونے داموں فروخت کرنے پر مجبور ہو جائیںگے۔ راشن ڈپو کی بدولت مہنگائی پر بہترین کنٹرول ہو سکے گا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک طرف بڑھتی ہوئی مہنگائی دوسری جانب بے روزگاری نے نوجوانوں کو پریشان کررکھا ہے۔مہنگائی سے سب سے زیادہ جو طبقہ متاثر ہوا ہے وہ شہروں میں رہنے والا ہے جہاں اشیائے ضروریہ کے نرخ روزبروز بڑھ رہے ہیں۔ اشیائے خورد و نوش پر اٹھنے والے اخراجات دوگنا ہو چکے ہیں۔آٹا ، گھی، چینی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو گیا ہے۔ کئی علاقوں میں تو یہ اشیاء دکانوں پر دستیاب ہی نہیں۔راشنگ سسٹم سے جہاں قیمتوں میں واضح کمی آئے گی وہاں بے شمار لوگوں کو روزگار ملنے سے بے روزگاری بھی کم ہوگی۔
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا تاہم غریب عوام کو اشیائے خورد و نوش پر ڈائریکٹ سبسڈی فراہم کریں گے۔ 4 کروڑ لوگوں کو کیش سبسڈی دی جائیگی۔انہوں نے گھی پرسبسڈی دینے کا وعدہ کیا کہ درآمدی گھی کی اضافی قیمتوں کا بوجھ حکومت اٹھائیگی۔حکومت کا کامیاب پاکستان پروگرام لانچ ہونے کے بعدنچلے طبقے سے تعلق رکھنے والی 42 فی صد آبادی کو کھانے پینے کی اشیا پر براہ راست سبسڈی دی جائے گی۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.