ایماندار اور بھی ہیں

100

عوام توخوش قسمت ہیں ہی کہ انہیں عمران خان جیسا ہینڈسم، شریف اور ایماندار قسم کا وزیراعظم اور حکمران ملاہے لیکن عوام سے زیادہ خوش قسمت اورلکی خود وزیراعظم عمران خان ہیں کہ اسے اپنے سے بھی زیادہ ہینڈسم،شریف اورایماندارسیاسی مخالف ملے ہیں۔ چوہوں جیسی مجلسیں کرنے والی پی ڈی ایم اور مفادات کے گرد گھومنے اور چکر لگانے والی اپوزیشن اگر نہ ہوتی تو کیا۔؟ وزیراعظم عمران خان اس طرح ملک کی معیشت کا بیڑا پار اور عوامی امنگوں کی چادر تار تار کرتے۔؟ نواز شریف سے لیکر زرداری و بلاول اور مولانا سے لیکر شہباز شریف تک سب کہہ رہے ہیں کہ کپتان کی حکومت ہمیں ایک دن بھی برداشت نہیں۔ان کی جانب سے نااہل حکومت کوآج گرانے اورکل گرانے کی باتوں کابھی اب دریاسے گویاایک سمندر بن گیاہے لیکن ان سب نے حکومت گرانے یااس سے جان چھڑانے کےلئے عملی طور پرحکومت کےخلاف جوکیایااب کر رہے ہیں۔وہ نہ صرف ہمارے بلکہ پوری دنیاکے سامنے ہے۔جن کوعمران خان کی حکومت ایک دن کیا۔؟ایک منٹ اورایک لمحے کے لئے بھی قابل قبول اورقابل برداشت نہیں تھی زمینی حقیقت اورسچ یہ ہے کہ وہ عظیم لوگ اسی حکومت اورحکمران کونہ صرف آج بھی برداشت اورقبول کررہے ہیں بلکہ یہ فریضہ اورکارنامہ وہ پچھلے تین سال سے بڑی ایمانداری کے ساتھ سرانجام دے رہے ہیں۔ حکومت کے حوالے سے قوم کونااہل اورناقابل قبول کی لوریاں،قصے ،کہانیاں اورگانے سنانے والوں نے تین سال تک حکومت کوایسے برداشت کیاکہ موجودہ زمانے کے حقیقی صابراورشاکر بھی اب ایک دوسرے کے منہ دیکھ رہے ہیں۔اپوزیشن کی اسی بے مثال صبروشکرکاکمال اوربرکت ہی تو ہے کہ جذبات اورغیرت کی کوکھ سے جنم لینے والی پی ڈی ایم بھی پھراپنی غیرت اورجذبات کادفاع نہ کرسکی۔حکومت سے جان چھڑانے کے لئے بننے والی پی ڈی ایم سے جمعہ جمعہ آٹھ دن بعدپیپلزپارٹی کااخراج اسی صبر اور شکر کا ثمر ہی توتھاورنہ پیپلزپارٹی کوحکومت مخالف تحریک سے راہیں جداکرنے کی کیاضرورت تھی۔؟ویسے عمران خان کی اس سے بڑی خوش قسمتی اور کیا ہو گی کہ اپوزیشن کے اکثر سرکردہ لیڈراوررہنماءتین سال میں بھی حکومت کے خلاف کسی ایک نکتے، موقف اورمشن پر متفق نہیں ہوسکے۔کہنے والے توکہتے ہیں کہ وزیراعظم
عمران خان کی طرح اپوزیشن کے تمام لیڈراوررہنماءبھی فقط زبانی کلامی بڑھکوں،دعوﺅں اوروعدوں پراپنے مردہ سیاسی گھوڑوں کو زندہ رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔جس طرح عمران خان وقت کو دھکا دے رہے ہیں اس سے زیادہ اپوزیشن کاقبیلہ اور فرقہ وقتی دھکوں پرٹائم پاس کر رہا ہے۔ آج اورکل میں حکومت کو گھر بھیجنے کے دعوﺅں اور وعدوں کے بعد اب تین ماہ بعد مارچ میں مارچ کااعلان کیایہ صبروشکرکی انتہا اور ایمانداری کی آخری حد نہیں۔؟ ہم توپہلے ہی کہتے رہے کہ ان صاحبان کے عادات واطواربھی بلے والوں سے مختلف نہیںلیکن ہماری باتوں پر کسی نے دھیان نہیں دیا۔ اللہ کو حاضر ناظر جان کرکوئی بتائیں توسہی کہ کیااپوزیشن ایسی ہوتی ہے۔؟ لوگ وزیراعظم عمران خان اوراس کی حکومت کا رونا رو رہے ہیں حالانکہ کپتان کی نااہلی پررونے سے زیادہ لوگوں کواپوزیشن کی بے حسی پرآنسوبہانے چاہئیں۔اس ملک کی تباہی اورعوام کی بربادی میں جتناہاتھ عمران خان کاہے اس سے کہیں زیادہ قصوراپوزیشن کابھی ہے۔اپوزیشن کاکام حکومت کوغلط کام اورغلط پالیسیوں سے روکناہے۔ماناکہ اس حکومت نے بہت غلط کام کئے ہوں گے لیکن سوال یہ ہے کہ تین سال سے جب حکومت یہ غلط کام کرکے عوامی امنگوں اورامیدوں کاخون کررہی تھی اس وقت یہ ایمانداراپوزیشن کہاں تھی۔؟ کیا وزیراعظم عمران خان کی طرح اپوزیشن کے ان بڑے بڑے ایمانداروں کاکام بھی صرف پریس کانفرنسز، میڈیا ٹاک اور دھواں دار تقریریں ہی ہیں۔؟ حکومت وقت کے ہاتھوں مچھلی کی طرح تڑپنے والی انسانی مخلوق کے نظارے یاتماشے پر مگرمچھ کے چند آنسو بہانے والے ان اپوزیشن لیڈروں اوررہنماﺅں نے کیاآج تک عوام کے حق یا مفاد میں کوئی ایک مارچ، مظاہرہ، احتجاج یااسمبلی سے کوئی واک آﺅٹ کیا۔؟اپنے مردہ سیاسی گھوڑوں کی پشت اور دم پرعوام کے بورڈ اور بینرز لگانے والے سیاسی مداریوں نے کیاایک دن بھی مہنگائی،غربت اوربیروزگاری سے تڑپنے ورلنے والے کسی غریب کی کوئی خبرلی۔؟لوگ مہنگائی اورغربت کے پہاڑ تلے دب کربھوک وافلاس سے مر رہے ہیں مگرا پوزیشن کے ان ایمانداروں یامداریوں میں کسی کوبھی ان کی کوئی پروا نہیں۔ ہرایک کواقتدار،کرسی اوراپنے سیاسی مستقبل کی فکرلاحق ہے۔کپتان توعوام کے خیرخواہ نہیں یہ توسب کوپتہ ہے لیکن اپوزیشن کی خیرخواہی سے بھی ہرخاص وعام بخوبی واقف ہے۔انہیں عوام کی اگرذرہ بھی کوئی فکرہوتی توعوام تین سال سے اس طرح مصائب،مشکلات اورپریشانیوں سے کبھی نہ گزرتے۔ان کی سیاست تین سال پہلے بھی اپنے صرف اپنے لئے تھی اوران کی سیاست کامحورآج بھی صرف اورصرف خودی ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے مارچ میں مارچ کااعلان یہ بھی صرف اپنے مردہ سیاسی گھوڑے میں جان ڈالنے کے لئے ہے ۔یہ اگرمارچ عوام کے لئے کرتے توپھرنہ یہ تاریخوں پرتاریخیں دیتے اورنہ ہی حالات وموسم کاکوئی انتظارکرتے۔حکومت نے عوام کے ساتھ جوکچھ کرناتھایااس حکومت میں عوام کے ساتھ جوکچھ ہوناتھاوہ توہوچکا۔تین سال گزرچکے ہیں۔ بقایایہ ایک ڈیڑھ سال بھی گزرجائے گا۔ہم مانتے ہیں کہ ملک وقوم کواس نہج تک پہنچانے کی ذمہ داری عمران خان اینڈکمپنی پرعائدہوتی ہے لیکن اس معاملے میں اپوزیشن والے بھی کوئی دودھ کے دھلے ہوئے نہیں۔ظلم پرخاموش رہنے والے بھی ظالم ہی تصور کئے جاتے ہیں۔ پھر سہولت کاروں کا درجہ اور مقام تو اس سے بھی بلند ہے۔ عمرانی حکومت نے اگر مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے ذریعے عوام کا جینا حرام کیا تو اپوزیشن والوں نے حکومتی سہولت کاری کاتمغہ بھی تو اپنے نام کیا۔اسمبلی سے بھاری تنخواہیں اورمراعات لینے والے اپوزیشن کے ممبران اگربت نہ بنتے تو کیا۔؟ حکومت تین سال تک عوام کے لئے اس طرح عذاب بنی رہتی۔؟ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ کوئی مانےں یانہ۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ ملک میں تین سال سے عوام کے پیٹ اورپیٹھ پریہ تالیاں دونوں ہاتھوں سے ہی بج رہی ہیں۔ غریب عوام کو مہنگائی، غربت، فاقہ کشی ،بھوک اور افلاس کے سمندر میں پھینکنے پر وزیراعظم عمران خان ذمہ دار اور گنہگار ہیں یا نہیں لیکن اپوزیشن کے یہ سارے ایماندار اس جرم کے ذمہ دار اور گنہگار ضرور ہیں۔ کیونکہ برے کام اورغلط اقدامات سے کپتان کے ہاتھ روکناان کافرض بھی تھااوران پرعوام کاقرض بھی۔ جس طرح عمران خان نے عوامی امنگوں، امیدوں اور ووٹوں کا پاس نہیں رکھا اسی طرح یہ ایماندار بھی عوامی امیدوں پر پورا اترنے میں یکسر ناکام رہے۔ اس لئے اس گلشن کو اجاڑنے میں کپتان اکیلے نہیں شریک سفراورایمانداریہ بھی ہیں۔

تبصرے بند ہیں.