اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا

60

کہتے ہیں جس نے اپنے دوستوں کے ساتھ وفا نہیں کی وہ دوسروں کے ساتھ کیا کرے گا۔ اپنا تن من دھن قربان کرنے والے رخصت ہو گئے اور پیچھے ان کا نام لینے والا بھی کوئی نہیں اور جو اپنا سب کچھ قربان کر کے نیا پاکستان بنانے آئے تھے وہ بھی اپنی عزت کو بچا رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں اپنے دیرینہ دوست احسن رشید کی تصویر سوشل میڈیا پر نظر آئی۔ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے آمین۔ کیا زبردست آدمی تھا۔ دوستوں کا خیال رکھنے والا اور خان کو سیاست میں لانے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے والا۔ جب خان سیاست میں نووارد تھے تو وہ ساتھ ہو لیے۔ ان دنوں وہ ایک سعودی کمپنی میں صدر کے عہدے پر فائز تھے۔ سعودی عرب میں وہ واحد پاکستانی تھے جو اتنے بڑے عہدے پر تھے اور اپنی قابلیت اور لیاقت کی وجہ سے انہوں نے کمپنی کو چار چاند لگا دیے۔ ان کی کمپنی میں زیادہ تر پاکستانی کام کرتے تھے۔ وارداتیں کرنے والے جب تحریک انصاف میں داخل ہوئے تو وہ اس وقت پنجاب کے صدر تھے، ان کی جگہ کسی اور کو صدر بنا دیا گیا اور ٹکٹوں کے معاملہ میں بھی ان کی رائے کو اہمیت نہیں دی گئی۔ کینسر کے مریض پہلے سے تھے صدمہ برداشت نہ کر سکے۔ وہ اکیلے نہیں ہیں جن کے ساتھ یہ حال ہوا۔ تحریک انصاف کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی لمبی تاریخ ہے۔ کس کس کا نام لیں۔
آج یہ سب کچھ اس لیے یاد آ رہا ہے کہ اپنے برادر بزرگ اور دوست انجینئر افتخار چوہدری کے حوالے سے سوشل میڈیا پر کردار کشی کی مہم دیکھنے میں آئی۔ من گھڑت اور جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈہ کرنے کا مقصد ان کا منہ بند کرانا ہے لیکن یہ ان کا کردار ہے کہ ان کے سیاسی دشمن بھی ان پر کسی قسم کا کوئی الزام لگانے سے قاصر ہیں۔ اس کا قصور صرف یہ ہے کہ اس کی دوستی اور دشمنی کا سب کو علم ہوتا ہے۔ انجینئر افتخار چوہدری تحریک انصاف کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات رہے اور شمالی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات ہیں۔ پارٹی کے لیے دن رات کام کرتے رہے۔ ایم این اے کی ٹکٹ تو دور ایم پی اے کی ٹکٹ بھی ان سے گئی۔ سعودی عرب میں چالیس ہزار ریال کی نوکری کرتے تھے وہ چھوڑ کر واپس آ گئے کہ خان کا ساتھ دینا ہے۔ ان کو پارٹی میں احسن رشید لائے تھے۔
پاکستان میں جمہوری جدوجہد کا ساتھ دینے والوں پر جب سعودی عرب میں قیامت صغریٰ برپا ہوئی تو وہ بھی اس کی زد میں آ گئے۔ نواز شریف ملک بدر ہو کر جدہ پہنچ گئے تھے اور موصوف وہاں پر خبریں کے لیے نمائندگی کرتے تھے۔ آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ اسد درانی کو پاکستان کا سفیر بنا کر سعودی عرب روانہ کیا گیا اور جدہ میں ایک تقریب کے دوران انجینئر افتخار ان سے الجھ پڑے۔ معاملہ پاکستان انٹرنیشنل جدہ کا تھا۔ جنرل صاحب کو بہت برا لگا اور انہوں نے سعودی انٹیلی جنس کے ذریعے انہیں گرفتار کرا دیا۔ بغیر کسی الزام کے انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ وہ اکیلے جنرل اسد درانی کے عتاب کا شکار نہیں ہوئے بلکہ ارشد خان، نعیم بٹ، قاری شکیل 
سمیت بہت سے دوسرے لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور انہیں سعودی عرب سے باہر نکال دیا گیا۔ بیس سال سے سعودی عرب میں مقیم لوگوں کو اس طرح باہر نکال دیا جائے تو ان پر کیا بیتے گی اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کی فیملی کو ملنے کی اجازت نہیں تھی، خاندان کے ساتھ ان کی ملاقات جہاز میں ہوئی۔ پاکستان آکر انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف جدوجہد کی۔ جنرل حمید گل نے راولپنڈی میں ایکس سروس مین سوسائٹی کے زیر اہتمام ایک کانفرنس منعقد کی، میں بھی اس میں شریک تھا۔ جنرل درانی بھی پاکستان آ چکے تھے اور جنرل پرویز مشرف کے خلاف ہو گئے تھے وہ جب اس اجلاس میں آئے تو انجینئر افتخار چوہدری نے سب کی موجودگی میں ان کو ان کے کرتوت یاد دلائے، بیچارے وہاں سے بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔
میں بھی چند برس سعودی عرب رہا ہوں اس لیے میں بہت سے لوگوں کے کردار سے واقف ہوں کہ کون کیا کرتا رہا ہے۔ یہ کہنا کہ انہیں کوڑوں کی سزا ہوئی تھی اور پاکستانی قونصلیٹ میں تعینات کسی افسر کے کہنے پر یہ سزا معاف ہوئی اور یہ بھی کہ انہوں نے لاکھوں ریال کا کوئی فراڈ کیا تھا سب جھوٹ ہے، انہیں سفیر پاکستان کے خلاف بات کرنے کی وجہ سے بغیر کسی الزام کے جیل میں ڈالا گیا اور وہاں سے پاکستان بھیج دیا گیا۔ قونصلیٹ کے افسران نے انہیں بچانے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا بلکہ انہیں گرفتار کرانے میں ان کا کردار ضرور تھا۔ جس بلڈنگ میں رہتے تھے اس کا نام انہوں نے پاکستان بلڈنگ رکھا جہاں پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہراتا تھا، پاکستان کا کون سا سیاستدان ہے جس کی انہوں نے جدہ میں میزبانی نہیں کی ان کے اعزازات میں حلقہ یاراں وطن کے پلیٹ فارم پر تقاریب منعقد کراتے رہے۔ پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو جشن کی سب سے بڑی تقریب جدہ میں منعقد ہوئی تھی اور وہ اس کو منظم کرنے والوں میں شامل تھے۔ حلقہ یاراں وطن میں ان سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے لوگ شامل تھے اور سب مل کر پاکستانی مہمانوں کے لیے محفل سجایا کرتے تھے۔ جن کے اعزازات میں تقاریب منعقد کرائیں ان میں سے بہت سے مشرف کے ساتھی تھے لیکن ان کی رہائی میں کوئی بھی کردار ادا کرنے سے قاصر تھے۔ موجودہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے چچا شہباز چوہدری بھی ان دنوں جدہ میں تھے پیپلز پارٹی کے صدر تھے بعد میں مشرف کے ساتھ چلے گئے اور وفاقی وزیر بنے وہ بھی حلقہ یاراں وطن میں تھے۔ افتخار چوہدری بعد میں دوبارہ سعودی عرب گئے وہاں جا کر اپنی پہلے والی کمپنی میں ملازمت کی اور اپنی مرضی سے نیا پاکستان بنانے کے لیے پاکستان آ گئے۔ لوٹ مار کی ہوتی یا کسی جرم میں سزا یافتہ ہوتے تو انہیں دوبارہ سعودی عرب جانے کی اجازت نہ ملتی۔ ان کے بچے اب بھی سعودی عرب میں ہیں ان کا آنا جانا بھی لگا رہتا ہے۔ بھارتی چینلز پر جس طرح وہ ارنب گوسوامی اور سابق بھارت فوج کے افسران کو جواب دیتے ہیں کوئی دوسرا یہ کام نہیں کر سکا۔ وہاں سے ان پر یہ الزام لگا کہ وہ جعلی انجینئر ہیں اور اب یہاں سے یہ الزام عائد ہوا ہے۔ الزامات عائد کرنے کے بجائے بہتر ہے کہ ان کے خلاف دھوکا دہی کا پرچہ درج کرایا جائے لیکن مقصد صرف ان کا منہ بند کرانا ہے مگر وہ نہیں جانتے کہ افتخار چوہدری ڈر کر میدان سے بھاگنے والا نہیں ہے۔ پردے کے پیچھے رہ کر مہم چلانے والوں کا معاملہ یہ ہے کہ صاف چھپتے بھی سامنے آتے بھی نہیں۔ جدہ دور نہیں ہے، افتخار چوہدری کے معاملات کا وہاں سب کو علم ہے لیکن جو پردے کے پیچھے ہیں ان کے کارناموں کی بھی بہت سوں کی خبر ہے۔ دوستوں اور دشمنوں کو خبر ہو کہ ہم  بہت کچھ جانتے ہیں، ان کی سیاسی فکر سے اختلاف ضرور ہے مگر ان کے کردار پر کسی کو انگلی اٹھانے کی اجازت ہرگز نہیں دی جا سکتی۔ جہاں تک تحریک انصاف کا سوال ہے اس سے کوئی توقع نہیں کہ وہ کسی سیاسی کارکن کی خدمات کا اعتراف کرے گی۔

تبصرے بند ہیں.