معاشرے کے پاگل پن کا علاج کون کرے گا؟

85

سیالکوٹ کے انتہائی اندوہناک اور شرمناک وقوعہ کے بعد بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔ وزیر اعظم کا بیان، وزراء کے بیانات، اپوزیشن راہنماوں کے بیانات، علمائے کرام کے بیانات، سول سوسائٹی کے بیانات، غرض مذمتی بیانات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ یہی حال میڈیا کا ہے جو اس سانحے کی تفصیلات بھی دے رہا ہے، اسکی بھرپور مذمت بھی کر رہا ہے، اس پر مذاکروں اور بحث مباحثے کاسلسلہ بھی جاری ہے۔ پولیس بھی اپنے طور پر سرگرم دکھائی دے رہی ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی متحرک ہیں۔ غرض یہ کہ پورے ملک میں سوگ کی فضا بھی ہے اور غصہ بھی پایا جاتا ہے۔ بظاہر یوں لگتا ہے جیسے ہمارے ہاں رونما ہونے والا اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ ہے لیکن ایسا نہیں۔ سری لنکا سے رزق روزی کی تلاش میں پاکستان آئے شہری کا مذہب، اسلام نہیں تھا۔ یہاں تو ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ مسلمانوں، بلکہ قرآن کریم کے حفاظ کو بھی مشتعل ہجوم نے مار مار کر ہلاک کر دیا۔ نہ کوئی شہری انہیں بچا سکا نہ پولیس ان کی مدد کو پہنچ سکی۔ علامہ اقبال کے اسی شہر سیالکوٹ میں دو حافظ قرآن بھائیوں کو چوری یا ڈاکے کے فرضی الزام میں ڈنڈے مار مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ کوئی چار سال قبل پشاور کی یونیورسٹی میں مشعال خان نامی نو جوان اسی مذہبی دیوانگی کی بھینٹ چڑھ گیا تھا۔ معلوم نہیں ان مجرموں کا کیا ہوا۔ وہ کیفر کردار کو پہنچے یا نہیں لیکن مذہبی جنون اور دیوانگی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہی ہو رہا ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے اس طرح کے واقعات کے تدارک کے لئے کبھی بھی سنجیدگی کا مظاہری نہیں کیا۔ کبھی سوسائٹی کا اجتماعی ضمیر حرکت میں نہیں آیا۔ کبھی کسی حکومت نے اس بیماری کے اسباب کا جائزہ لینے اور اس کا علاج کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔بات بات پر کمیٹیاں بنتی ہیں۔ کمیشن وجود میں آجاتے ہیں۔ لیکن آج تک ہم نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ ہمارے ہاں، خاص طور پر نوجوانوں میں، تشدد اور زور زبردستی کا رجحان کیوں بڑھ رہا ہے۔ ہم قانون کی حاکمیت کا تصور پیدا کرنے میں کیوں ناکام ہیں۔ دنیا میں ستاون کے لگ بھگ اور مسلم ممالک بھی ہیں۔ ان کے دل میں بھی اسلام کا جذبہ موجود ہے۔ وہ بھی نبی ﷺ سے کچھ کم محبت نہیں کرتے۔ لیکن اس طرح کے واقعات ہمارے ہاں ہی کیوں ہوتے ہیں؟ مذہب سے گہری محبت ہر شخص کرتا ہے۔ لیکن یہ محبت دیوانگی اور جنون کی حدوں کو نہیں چھوتی۔ کوئی شخص قانون ہاتھ میں لینے سے پہلے ہزار بار سوچتا ہے۔ لیکن ہمارا معاشرہ تو جیسے بے مہار اونٹ بنتا جا رہا ہے۔ شاید اس وجہ سے کہ قانون اور انصاف کے عمل پر ہمارا یقین نہیں رہا اور ہم خود ہی منصف بن کر سزا سناتے اور خود ہی اس پر عمل درآمد کر کے فوری انصاف کے تقاضے پورے کر دیتے ہیں۔
تشدد کے اس رجحان کے اسباب کیا ہیں؟ کیوں لوگوں کے دلوں اور دماغوں میں اس طرح کے بیج بو دئیے جاتے ہیں کہ انہیں قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا حق حاصل ہے؟ کیوں ان کی سوچوں کو مسخ کر کے یہ خیال بٹھا دیا جاتا ہے کہ ان کا یہ فعل جنت کی کنجی بن جائے گا؟ دین کے اس بنیادی اور انتہائی اہم سبق کو کیوں دل و دماغ میں راسخ نہیں کیا جاتا کہ ایک شخص کا قتل، پوری انسانیت کا قتل ہے۔ کیوں نہیں سوچتے کہ قتل و غارت گری کے اس رجحان کی حوصلہ افزائی کہاں سے ہو رہی ہے؟ یہ ایسے ہی ہے کہ کانٹوں کی ایک فصل بوئی جائے۔ اسے پانی سے سینچا جائے۔ اس میں کھاد ڈالی جائے۔ اسے پروان چڑھایا جائے۔ اور جب چاروں طرف کانٹے ہی کانٹے راستہ روکنے لگیں اور لباس کو تار تار کرنے لگیں تو ہم کانٹوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیں۔ کوئی نہ پوچھے کہ ان کا بیج بونے والے، انہیں پانی دینے والے اور ان میں کھاد ڈالنے والے کون ہیں؟
وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا ایک بیان نظر سے گزرا۔ وہ کہتے ہیں کہ” ہم نے ہر طرف ٹائم بم لگا دئیے ہیں جنہیں ناکارہ نہ بنایا گیا تو وہ اسی طرح پھٹتے اور دوسروں کا خون کرتے رہیں گے”۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام کس کا ہے؟ کون ان بموں کو ناکارہ بنانے کے لئے میدان میں آئے؟ پہل کون کرے؟ کیا یہ کام ریاست کا نہیں کہ وہ پورے یقین اور پوری طاقت کے ساتھ میدان میں آئے اور معاشرے کو ایسے جنونیوں سے پاک کرے؟ حکومت یا ریاستی عہدیداروں کے ساتھ ساتھ اس مشن میں اپوزیشن، تما م سیاسی جماعتوں اور معاشرے کے تمام طبقات بالخصوص علمائے کرام کو بھی اس نیک کام میں حکومت کا ہاتھ بٹانا چاہیے۔ وقت آگیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں بھی دین کے حقیقی تقاضوں کا شعور پیدا کرنے کی مضبوط اور مربوط کوششیں کی جائیں۔ ہم آنکھیں بند کر کے انتہا پسندی کا الزام دینی مدارس پر تھوپ دیتے ہیں۔ لیکن تشدد، عدم برداشت اور انتہا پسندی تو ہماری قومی پہچان بنتی جا رہی ہیں جن سے کوئی طبقہ بھی خالی نہیں۔ ولی خان یونیورسٹی پشاور، کون سا دینی مدرسہ تھا جہاں مشعال خان کو دن دہاڑے قتل کر دیا گیا تھا۔ یہ رجحان ایک وبا کی طرح پھیلتا جا رہا ہے جسکی ویکسین تلاش نہ کی گئی تو پاکستان کو بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔
سیالکوٹ کے تازہ سانحہ پر ساری دنیا ہماری مذمت کر رہی ہے۔ عالمی ادارے الگ بول رہے ہیں اور مختلف ممالک الگ ملامت بھیج رہے ہیں۔ ہمارے بارے میں پہلے ہی دنیا میں کوئی زیادہ خیر سگالی نہیں پائی جاتی۔ کوئی مانے نہ مانے، ہم عالمی تنہائی کا شکار ہیں۔ آئی۔ایم۔ایف چند ٹکوں کے لئے ہمیں ایسے شکنجوں میں کس رہا ہے جو سراسر ہماری آزادی و خود مختاری کی توہین ہیں۔ حالت یہ ہے کہ معاشی ماہرین کے خیال میں اب سٹیٹ بنک آف پاکستان بھی عملًا آئی۔ ایم۔ایف کے کنٹرول میں چلا جائے گا۔ حکومت پاکستان خود اپنے ہی بنک سے قرض نہ لے سکے گی۔ سعودی عرب ہمارا برادر اسلامی ملک ہے۔ لیکن حال ہی میں تین ارب ڈالر کے قرض کے لئے ہمیں انتہائی کڑی شرائط کی شکل میں جو گولیاں نگلنا پڑی ہیں اس کی کوئی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ فاٹف ہمیں گرے لسٹ سے نکالنے کے لئے تیار نہیں۔ دنیا ہم پر بدستور دہشت گردی کی سرپرستی کے الزامات لگا رہی ہے۔ ایسے میں جب سیالکوٹ جیسے واقعات پیش آتے ہیں اور ایک غیر ملکی باشندے کو اس بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے تو پھر کون ہمیں مہذب ملک کہے گا؟ کون ہمارے نظام قانون و انصاف کے قصیدے پڑھے گا؟ کون ہماری وکالت کرئے گا؟ میں نے ایک انگریزی اخبار میں واشنگٹن کے پاکستانی نامہ نگار کی سٹوری پڑھی۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکی کانگرس یا سینٹ میں پاکستان کی حمایت کرنے والے قانون ساز کتنی مشکل میں پڑ گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم پاکستان کے بارے میں کوئی بات کرنے لگتے ہیں تو سننے والا صرف ایک لفظ بولتا ہے "سیالکوٹ”۔
یہ نعرہ تو نہ جانے ہم کب سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ "ہمیں اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہو گا "۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کون کرے گا؟ ایک طرف معیشت کا ایسا بحران کہ مہنگائی بے قابو ہو چکی ہے۔ روپے کی قیمت افغانی کرنسی سے بھی آدھی رہ گئی ہے۔ دنیا قرض دینے پر آمادہ نہیں۔ عالمی ادارے، ایسٹ انڈیا کمپنی بنتے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف معاشرہ جنونی ہو چلا ہے۔ کیا یہ واقعہ ہماری آنکھیں کھول سکے گا؟ یا ہم اسی پاگل پن کا شکار رہیں گے اور دنیا ہمیں اسی طرح جنونیوں کا ملک سمجھتی رہے گی؟ اللہ پاک ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ آمین۔

تبصرے بند ہیں.