میرے پاس کوئی چڑیا ہے نہ دوسروں کی طرح کوئی ذرائع جن کی بنیاد پر تجزیہ کروں۔ کسی دانشور کا تواتر سے کالم پڑھتا ہوں نہ ہی کسی کا تجزیہ سنتا ہوں یہ ریموٹ کنٹرول جانبدار ذرائع رائے عامہ بہکانے کے لئے تجزیہ کرتے ہیں۔آقا کریمؐ کی حدیث طیبہ ہے کہ اگر کوئی کہے کہ پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ گیا تو یقین کر لینا اگر کوئی کہے کہ کوئی شخص اپنی طبع یعنی فطرت بدل گیا تو یقین نہ کرنا۔(مفہوم)۔ زمینی حقائق اگر بیانات سے بدلے جا سکتے تو وطن عزیز دنیا میں پہلے نمبر پر ترقی یافتہ، مہذب اور امن کا گہوارہ ہوتا نہ کہ جھوٹ،غیبت، ڈھٹائی، بدعنوانی، دھوکہ دہی، لاقانونیت اور آئین سے روگردانی یہاں کی اکثریت کا روزگار بنتا۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے فرمایا عدالتیں آزاد ہیں آزاد رہیں گی یقین کرنا ہوگا کیونکہ ان کے بیان کو عدالتی حکم کا درجہ حاصل ہے۔ لہٰذا نہ ماننے سے توہین عدالت ہو سکتی ہے ویسے میں نے کبھی وہ شہد نہیں خریدا جس کی بوتل پر اصلی شہد لکھا ہو۔ وکلا کو عدالتوں پر حملوں کا لائسنس نہیں دے سکتے۔ یہ فرمان ہے لاہور ہائی کورٹ کے جناب چیف جسٹس صاحب کا جس کی تہہ دل سے تائید کرتا ہوں کیونکہ سارا عدالتی نظام اس بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے ناکارہ ہو چکا ہے بلکہ اب تو حالت یہ ہے کہ لاہور کی ماتحت عدلیہ فیصلے ہی نہیں کرتی ایک خوف کے ساتھ انصاف کی کرسی پر بیٹھا ہوا جج جب خیر خیریت سے رات کو واپس چلا جائے تو گھر والے بھی شکر ادا کرتے ہیں۔ بیانات اپنی جگہ اور حقائق یہ ہیں کہ عدلیہ آزاد تو ہو سکتی ہے مگر بے خوف نہیں ہے خاص طور پر ماتحت عدلیہ۔
ایڈووکیٹ جنرل فرماتے ہیں کہ پاکستان عدم برداشت والا معاشرہ بن رہا ہے میرے خیال میں بن چکا ہے اور اس کی بنیادیں حکمران طبقوں نے رکھیں اور پھر موجودہ حکمرانوں نے تو برداشت لفظ ہی ڈکشنری سے نکال دیا۔ سیالکوٹ والے سانحے نے ان گنت سانحات یاد دلا دیئے۔ چند سال قبل دو لڑکوں (بھائیوں) کو جس طرح وحشیانہ تشدد سے مار ڈالا گیا کوئی زندگی بھر نہیں بھول سکتا۔ موٹروے پر عورت کے ساتھ زیادتی کے واقعہ پر تو شاید درندے بھی معصوم دکھائی دیں۔ اور حالیہ سیالکوٹ کا سانحہ جس میں ایک پردیسی کے ساتھ جو ہوا اس کی مثال نہیں ملتی۔ فواد چودھری فرماتے ہیں ہم نے ٹائم بم لگا دیئے ہیں ناکارہ نہ کیا تو وہ پھٹیں گے وقت ریت کی طرح ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ یہ بے حسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے گویا طوفان ابھی باقی ہے؟ میرے خیال میں ہم نے ٹائم بموں کی بارودی سرنگیں بنا دیں جگہ جگہ ان کے ہیڈکوارٹرز ہیں جن کے کرتا دھرتا اپنے علاوہ کسی کو برداشت نہیں کرتے اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس کا نظریہ سب سے بہتر، برتر اور انسانیت کے درخشندہ اصولوں پر مبنی ہے تو پھر اس کا طرز عمل بھی سب سے بہتر و برتر اور انسانیت کے اصولوں پر مبنی ہونا چاہئے ورنہ سمجھا جائے گا کہ وہ نظریے کا صرف نام استعمال کرتا ہے اور اپنے نظریے کا منافق ہے۔
انتہا پسندی، تشدد اور لاقانونیت کا کھرا جہاں جا کر نکلتا ہے وہ اقتدار کی راہداریاں اور حقیقی سنگھاسن ہے۔ ہمارے زعما، ذاکرین، علما، سٹیک ہولڈرز کے بیانات زمینی حقائق کے برعکس ہیں جو عدم بھروسہ کا سبب ہیں جب بھروسہ نہ ہو تو پھر کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ چودھری سرور کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ میں ہم نے سب کچھ آئی ایم ایف کو دے دیا ہے، درست فرماتے ہیں آئی
ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کی جس کو سمجھ آگئی اس کی نیند پرائی ہو گئی۔ سعودیہ کے ساتھ حالیہ معاہدہ آئی ایم ایف سے مختلف نہیں۔ وزیراعظم کی تقریریں سنیں تو لگتا ہے زمین پر کھڑے ہو کر مریخ کی مخلوق سے مخاطب ہیں۔ فرمان اور دعویٰ یہ ہے کہ غریب آدمی اوپر جا رہا ہے۔ حقائق یہ ہیں کہ امیر مقروض ہو رہے ہیں۔ بیان یہ کہ کرپٹ حکمران بڑا مسئلہ ہیں۔ حقائق یہ ہیں کہ ساڑھے تین سال سے موصوف ہی حاکم ہیں اور یہ یاد رہے کہ ساڑھے تین سال محترمہ بینظیر بھٹو شہید حتیٰ کہ نواز شریف کو حکومت نہیں ملی کہ ذلت اور مقدمات کی پاتال میں اتار دیئے گئے جبکہ عمران خان کو جو حمایت میڈیا، اسٹیبلشمنٹ سے ملی اور وطن عزیز کی وہ کلاس جس نے والدین کو بھی ناراض کر دیا مگر عمران کی حمایت جاری رکھی اور خرچہ بھی والدین سے لیا۔
زمینی حقائق یہ ہیں کہ حکومت نے اس عوام اور حامیوں کی خاطر بھی کچھ نہ کیا اور انہیں بیچ منجھدار چھوڑ دیا اب میری کبھی نظریہ عمرانیات کے پیروکاروں سے بات ہو تو وہ بھی کہتے ہیں یا پوچھتے ہیں پھر کس کو لائیں؟ اسٹیبلشمنٹ کا مسئلہ بھی یہ ہے کہ کس کو لائیں۔ سادہ سی بات ہے جس کو عوام منتخب کریں اس کو لائیں اب حکمرانوں پر کوئی بھروسہ کرنے کو تیار نہیں۔ رہ گئے بیرون ملک پاکستانی ان کی رائے اس ملک کے نمائندوں کے لئے تو معتبر ہو سکتی ہے جس ملک میں رہ رہے ہیں لیکن معذرت نہیں دعوے کے ساتھ کہتا ہوں وطن عزیز کے حوالے سے ان کی رائے بالکل اہمیت نہیں رکھتی بلکہ نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ ایک روزگار والا یورپین امریکن دنیا میں رہنے والا بیروزگار مظلوم غریب کے لیے کیا فیصلہ کر سکتا ہے۔ یہی زمینی حقائق ہیں اور بیانات اس کے بر عکس ہیں۔
میرا دوست جو امریکہ سے دو ہفتوں کے لئے آیا ہوا ہے، کا کہنا ہے کہ یار یہ بات تو درست ہے کہ ہر آدمی، ہر گھر سر پر بازو رکھ کر آہ و بکا کر رہے ہیں مگر بازار ہوٹل بھی بارونق ہیں۔ میں نے کہا کہ آہ و بکا تم نے بازاروں میں گھروں میں ریستورانوں میں ہی سنی ہو گی۔ تم کیا چاہتے ہو کہ لوگ سبزی، اشیائے خورونوش، پوشاک خوراک کے لیے نہیں صرف قبر کشائی، مردہ نہلائی کا آرڈر دینے کے لیے ہی باہر نکلیں۔ تمہیں باراتیں چڑھتی نہیں، صرف جنازے اٹھتے ہوئے نظر آئیں تو سمجھو گے کہ ملک کے حالات وہی ہیں جو لوگ بیان کرتے ہیں۔ وطن عزیز میں مڈل کلاس ختم ہو گئی، مڈل کلاس غربت کی لکیر سے نیچے چلی گئی۔ غریب فقیر ہوگئے اور فقیر مجرم۔ مالی، معاشی، روایتی، سماجی، اخلاقی طور پر ملک دیوالیہ ہو گیا، سٹیٹ بنک پرایا ہوا۔ بیرونی قرضوں کے نیچے کراہتی ہوئی قوم تین ماہ سے زیادہ ان حالات کا سامنا نہیں کر پائے گی۔ حکمرانوں کی زبان پر دنیا کو بھروسہ ہے نہ پاکستانیوں کو اور دنیا زبان و بیان کے بھروسے پر چلا کرتی ہے، اداکاری اور جھوٹ سے نہیں۔ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ کب کیا ہو مگر وہ لوگ جن کے تجزیے تحریریں حالات کی خبر دیتی ہیں جو اپنی نہیں ہمیشہ شیخ رشید کی طرح کسی اور کی زبان بولتے ہیں ان کے تجزیے تبصرے بدل چکے ہیں مگر اب بدلے ہوئے تجزیے وطن عزیز کو پہنچے ہوئے نقصان کا ازالہ نہیں کر سکتے۔
اس وقت وطن عزیز کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جس پر بیرونی دنیا اور اپنے عوام بھی بھروسہ کریں۔ کوئی لاکھ اختلاف کرے مگر وطن عزیز کے عوام نواز شریف، بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمن پر بھروسہ کرتے ہیں۔ زرداری صاحب کا نام اس لیے نہیں لکھا کہ زرداری صاحب کے نام سے بعض لوگوں کا دوران خون ان کو موت کے منہ میں نہ دھکیل دے ورنہ ایران، چائنا، خلیجی ممالک زرداری صاحب سعودی عرب، امریکہ، ترکی، چین اور وطن عزیز کا اکثریتی صوبہ پنجاب میاں نواز شریف اور مریم نواز پر بھروسہ کرتا ہے۔ بدقسمتی سمجھیں یا خوش قسمتی مگر یہی حقائق ہیں۔ اگر وطن عزیز کی اسٹیبلشمنٹ بھی ان سے معاملہ کرنے میں کامیاب ہو گئی تو شاید کوئی بہتری آ سکے ورنہ قیمہ والی مشین میں گوشت ڈال ہی دیا گیا ہے، اس کا ثابت نکلنا ممکن نہیں۔ مینار پاکستان سے شخص کو دھکا دیا جا چکا ہڈی پسلی حتیٰ کہ زندگی کا سلامت رہنا معجزہ ہو گا۔ قیمہ والی چلتی مشین کا بٹن آف کرنا ہو گا۔
حلقہ نمبر 133 لاہور میں پیپلز پارٹی نے 34000 ووٹ لیے ہیں۔ اتنے لوگ اب عمران خان لاہور میں کسی جلسے میں اکٹھے نہیں کر سکتے۔ ذاتی طور پر میں پیپلز پارٹی کی جیت سمجھتا ہوں کیونکہ ان کا مقابلہ 1985 سے پنجاب میں حکومت کرنے والوں کے ساتھ تھا۔ سیاسی کلچر رکھنے والی جماعتوں کی عوام میں پذیرائی ہونا خوش آئند ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے کہا تھا اگر ہمارا راستہ روکا گیا تو پھر بنیاد پرست آئیں گے۔ لہٰذا تشدد، انتہاپسندی، اور بنیاد پرستی روکنے کے لیے سیاسی کلچر اور روایات رکھنے والی جماعتوں کی پذیرائی ضروری ہے۔ بیان، بھروسہ اور زمینی حقائق ایک ہونے چاہئیں۔ بیانات اور زمینی حقائق میں میل نہ ہو تو پھر بھروسے کا فقدان ہوا کرتا ہے جو اس وقت ہر سطح پر اوج ثریا کو پہنچا ہوا ہے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.