قرض کی پیتے تھے مے

66

بیٹھے بیٹھے اچانک خیال آیا کہ خانِ اعظم کے یوٹرن گنتے ہیں۔ ہم گنتے گنتے ’’ہَپھ‘‘ گئے مگر یوٹرن شیطان کی آنت کی طرح طویل ہوتے گئے۔ صرف کورونا وائرس پر ہی کئی یوٹرن۔ وزارتِ عظمیٰ کے حصول سے پہلے 100 دنوں میں ملک کی تقدیر بدلنے کا اعلان، پھر درسِ خودی دیتے ہوئے کہہ دیا ’’گھبرانا نہیں‘‘۔ ذرا غصّہ آیا تو فرمایا ’’قوم میں صبر نہیں‘‘ اور آخری پیغام یہ کہ ہماری کارکردگی کا 5 سال بعد پتہ چلے گا۔ بجا ارشاد! مگر ساڑھے 3 سال گزرنے کے باوجود ’’میڈم کارکردگی‘‘ مفقود الخبر۔
خانِ اعظم کے بقول ’’یوٹرن نہ لینے والا کبھی کامیاب رَہنماء نہیں ہوتا اور جو یوٹرن لینا نہیں جانتا، اُس سے بڑا بیوقوف کوئی نہیں ہوتا‘‘۔ اِس حساب سے تو خانِ اعظم دنیا کے عظیم رَہنماؤں کو بہت پیچھے چھوڑ جاتے ہیں کیونکہ عظیم رَہنماؤں نے تو پتہ نہیں شاید چار پانچ یوٹرن لیے بھی ہوںگے یا نہیں لیکن ہمارے خاں کے یوٹرن بے شمار۔ اِس لیے اقوامِ عالم کو چاہیے کہ خانِ اعظم کو عظیم ترین رَہنماء تسلیم کرکے اُن کے آگے زانوئے تلمذ تہ کردیں۔ ویسے ہمارے ہاں کئی لکھاری ایسے بھی پائے جاتے ہیں جو خانِ اعظم کو قائدِاعظم ثانی، محمود غزنوی، ٹیپو سلطان اور اِن جیسے کئی دوسرے القاب سے نوازتے رہے لیکن پتہ نہیں اب اُنہیں کیا ہوگیا ہے کہ یہ لکھاری یا تو ’’دُڑکی‘‘ لگا گئے ہیں یا پھر تلواریں سونت کر اپنے ہی ممدوح کے شکار کو نکل کھڑے ہیں۔
تھک ہار کر ہم نے سوچا کہ یوٹرنوں پر ’’مٹی پاؤ‘‘ اور قوم کو خانِ اعظم کے کارنامے گنواؤ۔ ہو سکتا ہے کہ ہماری نظر کمزور ہو کیونکہ سیاسی گَٹر میں ’’گوڈے گوڈے‘‘ اُترنے کے باوجود ہمیں ’’کَکھ‘‘ نظر نہیں آیا۔ اب ایسا بھی نہیں کہ ’’شیروانی‘‘ کے حصول کے بعد خانِ اعظم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہے ہوں۔ حقیقت یہی کہ اُنہوں نے اپنی علمیت کے زور پر قوم کے علم میں اضافے کی مقدور بھر کوشش کی اور کرتے رہتے ہیں۔ دینی، دنیاوی، معاشی، معاشرتی، تاریخی اور سائنسی علوم پر اُن کی گرفت دیکھ کر بندہ اَش اَش کر اُٹھتا ہے۔ اُنہوں نے فرمایا ’’باقی پیغمبر اللہ کے آئے لیکن تاریخ میں اُن کا ذکر ہی نہیں۔ بڑا کم ذکر ہے۔ حضرت موسیٰ کا ہے مگر حضرت عیسیٰ کا تو تاریخ میں ذکر ہی نہیں‘‘۔خانِ اعظم کے اِس بیان کے بعد ہم نے سوچا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مسیحیوں کے نزدیک دنیا کے سب سے بڑے مذہب کے نبی کا ذکر ہی نہ ہو۔ محترم! قُرآنِ مجید کی 13 سورتوں میں 61 مرتبہ حضرت عیسیٰ کا ذکر ہے اور سورۃ مریم میں حضرت عیسیٰ کا قصّہ مفصل بیان کیا گیا ہے۔ کیا قرآنِ مجید سے زیادہ مستند
کوئی تاریخی حوالہ بھی ہو سکتا ہے؟۔
خانِ اعظم نے فرمایا’’ درخت رات کو آکسیجن اور صبح کو ہائیڈروجن چھوڑتے ہیں‘‘۔ ہم تو یہی پڑھتے آئے کہ درخت دن کو آکسیجن چھوڑتے ہیں لیکن اب پتہ چلا کہ ہمارے اساتذہ اتنے نااہل تھے جو ہمیں غلط سلط پڑھاتے رہے۔ ہمارے علم میں ایک اور اضافہ ہی نہیں بلکہ بہت بڑا دھماکہ تھا جب خانِ اعظم نے ایرانی صدر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں فرمایا ’’جرمنی اور جاپان نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد اپنے مشترکہ سرحدی علاقے میں صنعتیں قائم کیں‘‘۔ باقی دنیا تو ہمارے خلاف تھی ہی، گوگل نے بھی ہمیں گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جس کے مطابق جرمنی اور جاپان کے درمیان 900 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ اب یہ تو اُن ممالک میں جا کر ہی پتہ چل سکتا ہے کہ گوگل سچا ہے یا ہمارے خانِ اعظم۔ ہمارے عظیم وزیرِاعظم حسابی کتابی بھی بہت ہیں۔ اُنہوں نے فرمایا ’’ہم نے اڑھائی سالوں میں 35 ہزار ارب قرضہ واپس کیا‘‘۔ حاسد کہتے ہیں کہ گزشتہ 3 سالوں کے بجٹ میں ملکی و غیر ملکی قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لیے کُل 9 ہزار ارب روپے مختص کیے گئے۔ اب 9 ہزار ارب میں سے 35 ہزار ارب ادا کیسے ہوگیا؟۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کا 3 سالوں کے بجٹ کا کُل حجم بھی 35 ہزار ارب نہیں بنتا۔۔۔۔ ہمیں کیا معلوم کہ ایسا کیسے ہو گیا، یہ اللہ جانے یا خاں، ’’سانوں کی‘‘۔
خانِ اعظم کی نگاہِ انتخاب کے قُربان جائیں کہ اُنہوں نے سارے لعل وجواہر اپنے گرد اکٹھے کر لیے۔ ایک گوہرِ نایاب (شوکت ترین) نے آئی ایم ایف کے سامنے یوں گھٹنے ٹیکے کہ اب مِنی بجٹ کی نوید سنا رہے ہیں۔ گورنر پنجاب چودھری سرور نے ایک تقریب میں فرمایا ’’آئی ایم ایف نے 3 سالوں میں دیئے جانے والے 6 ارب ڈالروں کے بدلے ہمارا سب کچھ لکھوا لیا‘‘۔ خانِ اعظم نے سچ کہا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر ہے خودکُشی، واقعی اب ہم اجتماعی خودکشی کی طرف رواں دواں ہیں۔ سٹاک مارکیٹ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ہی دن میں لگ بھگ 2200 پوائنٹس گِر گئی اور وہ ڈالر جو 1958ء میں 3 روپے کا اور 2018 ء میں 110 روپے کا تھا، آج 180 روپے کا ہوگیا۔ یہ بھی اِسی حکومت کا کارنامہ ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ جی ڈی پی منفی 0.38 فیصدتک پہنچا ( نوازلیگ کے دَور میں جی ڈی پی 5.8 فیصد)۔ 2018ء میں ہر پاکستانی ایک لاکھ 44 ہزار روپے کا مقروض تھا جبکہ آج ہر پاکستانی 2 لاکھ 35 ہزارروپے کا مقروض ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق نومبر 21ء میں مہنگائی گزشتہ 21 ماہ کی بلند ترین سطح پر 11.5 فیصد رہی۔ ماہرِمعاشیات ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ یہ اعداد وشمار غلط ہیں۔ اگر درست رپورٹنگ ہو تو مہنگائی 13 سے 14 فیصد تک ہے۔ اِس مہنگائی پر وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وفاقی وزراء بھی پھَٹ پڑے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے حلقوں میں کس مُنہ سے ووٹ مانگنے جائیں گے؟۔ گویا
کعبہ کس مُنہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
ہمارا وزراء کو پیغام ہے کہ ابھی تو ابتداء ہے، جب آئی ایم ایف کے حکم پر مِنی بجٹ میں 350 ارب روپے کے مزید ٹیکس لگائے گئے، بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات مہنگی کی گئیں اور ٹیکس چھوٹ ختم کی گئی تو پھر مہنگائی کا ایسا طوفان اُٹھے گا جو آپ سب کو بہا لے جائے گا۔
خانِ اعظم احتساب کا نعرہ بلند کرکے اقتدار میں آئے۔ اُنہوں نے بارہا کرپشن کو جَڑ سے اُکھاڑ دینے کا نعرہ بلند کیا لیکن آڈیٹر جنرل کی چشم کُشا رپورٹ نے بیچ چوراہے بھانڈا پھوڑ دیا۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق وزیرِاعظم کورونا ریلیف پیکج کے لیے 1200 ارب روپے مختص کیے گئے جن میں سے 500 ارب روپے غریبوں کے ریلیف کے لیے تھے لیکن اُن پر صرف 116 ارب روپے خرچ ہوئے اور اُن میں سے بھی 35 ارب روپے سے زائد خلافِ ضابطہ ادائیگیوں کا انکشاف ہوا۔ غریب ترین خاندانوں کے لیے 150 ارب روپے رکھے گئے جبکہ 145 ارب روپے دیئے گئے۔ مزدوروں کے لیے 200 ارب روپے کا فنڈ مختص ہوا لیکن 16 ارب روپے دیئے گئے۔ یوٹیلٹی سٹورز کے لیے 50 ارب روپے مختص ہوئے جبکہ 10 ارب روپے دیئے گئے۔ بجلی اور گیس کی سبسڈی کی مَد میں 100 ارب روپے رکھے گئے لیکن صرف 15 ارب دیئے گئے۔ آڈیٹر جنرل رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ بینظیر انکم سپورٹ فنڈ میں 7 ارب روپے ایسے 5 لاکھ لوگوں کو تقسیم کیے گئے جو نہ صرف یہ کہ غریب نہیں تھے بلکہ پینشنراور انکم ٹیکس فائلر بھی تھے۔ یہ پیسہ ایسے لوگوں کو بھی دیا گیا جنہیں نادرا ضرورت مندوں کی فہرست سے نکال چکا تھا۔ چین نے کورونامریضوں کے لیے 100 بستروں پر مشتمل انفیکشن سنٹر بنانے کے لیے این ڈی ایم اے کو 4 ملین ڈالر کی امداد دی لیکن آج تک ایسا کوئی سنٹر معرضِ وجود میں نہیں آسکا۔
اِس رپورٹ میں بے ضابطگیوں کے منظرِعام پر آنے کے بعدکون کہہ سکتا ہے کہ پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ اگر بین الاقوامی سروے کے مطابق کرپشن 3 درجے بڑھ چکی تو اِس سروے کو تسلیم کیے بنا کوئی چارہ نہیں۔ کیا احتساب کا نعرہ لگانے اور ریاستِ مدینہ کی تشکیل کا عزم کرنے والے وزیرِاعظم صاحب اِس رپورٹ پر کسی کارروائی کا حکم صادر فرمائیںگے؟۔ یاد رہے کہ اسلامی ریاست کی خشتِ اوّل ہی عدل ہے اور عدل کا تقاضہ یہی کہ بلاامتیاز کیا جائے۔

تبصرے بند ہیں.