انہیں اقتدار عزیز ہے عوامی مفاد نہیں؟

77

فرض کیا موجودہ حکومت اپنی مدت اقتدار پوری نہیں کرتی اور اس کی جگہ نئی حکومت آتی ہے تو اس سے عوام کو کیا فرق پڑے گا۔ وہی چہرے ہوں گے، وہی طرز عمل اور وہی طرز سیاست ہو گا جواب تک ہے۔
یہ جو ایک سنسنی سی حکومت کے آنے جانے کی پھیلائی جا رہی ہے اس کا مقصد محض دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کا اپنے کارکنوں اور ووٹروں کو اپنے ساتھ چمٹائے رکھنا ہے۔ انہیں اقتدار میں آنے کی امید دلاتے رہنا ہے جبکہ سوچنے والے دماغوں کا خیال ہے کہ اس بے چین ماحول میں کوئی سیاسی جماعت آگے آنے کو تیار نہیں کیونکہ معاشی صورت حال ایک طرح سے بے قابو ہو چکی ہے۔ آئی ایم ایف اس پر بھی خوش نہیں اسے تو شاید لوگوں کو تڑپتا اور سسکتا ہوا دیکھنا ہے لہٰذا وہ آئے روز احکامات صادر کر رہا ہے کہ ابھی پٹرول کو اور مہنگا کرنا ہے گیس بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ کرنا ہے۔ دولت و جائیداد پر لاگو ٹیکس کو بھی بڑھانا ہے جو رعایتیں دی گئی ہیں ان کو واپس لینا ہے وغیرہ وغیرہ۔
اس صورت میں ہمیں نہیں لگتا ہے کہ یہ دو بڑی جماعتیں چاہیں گی کہ آگے چل کر جو لوگوں کی سانسیں روکنے والی مہنگائی ہونے والی ہے، اس کے پیش نظر اختیارات کا قلم ہاتھ میں تھاما جائے۔ بس رولا ڈالا جاتا رہے گا۔ حکومت کو بھی مشکل میں ڈالا جائے گا۔ اس کے لیے طرح طرح کی سیاسی رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہیں گی تا کہ ان کے سیاسی مقاصد کو کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے لہٰذا ساڑھے تین برس کے بعد جب انتخابات قریب آرہے ہیں تو منظر پر موجود بڑی جماعتوں کو یاد آگیا ہے کہ ملک کے اندر مہنگائی، نا انصافی اور بے روزگاری نے عوام کو زندہ درگور کر دیا ہے۔
یہ ہر دوسرے تیسرے روز مہنگائی پر بیان جاری کر رہی ہیں پی پی پی نے تو اگلے چند دنوں میں مہنگائی کے خلاف باقاعدہ سڑکوں پر آنے کا اعلان کر دیا ہے کہ اب بہت ہو گئی وہ غریب عوام کو پستا ہوا نہیں دیکھ سکتی انہیں حکومت کی پالیسیوں نے برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ وہ عوام دشمن فیصلے کیے جا رہی ہے اسے معلوم ہی نہیں کہ لوگ خودکشیوں پر مجبور ہو چکے ہیں۔ وہ اپنے جسموں کے اعضا فروخت کر رہے ہیں اور نوجوان بے روزگاری کے ستائے جرائم کاارتکاب کرنے لگے ہیں۔
بہرکیف تمام سیاسی جماعتوں کے رویوں اور کرداروں سے عوام اچھی طرح سے آگاہ ہیں وہ
جانتے ہیں کہ جب یہ اقتدار میں ہوتی ہیں تو ان کے روپ اور ہوتے ہیں اور جب اقتدار سے محروم ہوتے ہیں تو ان کے چہروں کی رنگت کچھ اور ہوتی ہے لہٰذا وہ سڑکوں پر آنے سے پہلے سو بار سوچیں گے۔
اگر ان کے ادوار مثالی ہوتے تو آج وہی اقتدار میں ہوتیں۔ پی ٹی آئی نہ ہوتی مگر انہوں نے بھی وہی کچھ کیا جو آج ہو رہا ہے نعرے کچھ وعدے کچھ اور عمل کچھ کہ آئی ایم ایف نہیں جانا مگر چلے گئے احتساب سخت کرنا ہے مگر اب تک کسی کو کوئی سزا نہیں ہوئی بس گونگلوؤں سے مٹی جھاڑی جا رہی ہے۔ عوام کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔ اقربا پروری بھی ہو رہی ہے اور کمیشن خوری بھی۔
اب اگر منی بجٹ آتا ہے تو کیا واقعتا غریب لوگ آنسو نہیں بہائیں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی مزید شرائط ماننے سے متعلق غور شروع کر دیا ہے مگر لگتا ہے وہ غور ہی کرے گی کوئی فیصلہ نہیں کیونکہ اسے عوامی مفاد سے کوئی دلچسپی نہیں وہ اپنے اقتدار سے چپک کر رہ گئی ہے یہی وجہ ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے گرد تو اس کے ذہن کی ”پھرکی“ گھومتی ہے عوامی مسائل کے نہیں بات سوچنے کی ہے کہ حکومت ای وی ایم کو کیوں ضروری تصور کر رہی ہے۔ کہیں دال میں کچھ کالا تو نہیں؟ پھر وہ سمندر پار پاکستانیوں کو بھی ووٹ کا حق دے رہی ہے شاید اسے یہ پورا یقین ہے کہ چونکہ باہر والے پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان ایک دیانت دار وزیراعظم ہے وہ اس ملک کو آگے لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے لہٰذا اسے آئندہ بھی اقتدار میں رہنا چاہیے لہٰذا ان کے ووٹوں سے وہ دوبارہ موج میلہ کر سکتی ہے عوام جائیں بھاڑ میں۔
ذرا دیکھئے اقتدار کیسی چیز ہے کہ جب کوئی اس میں آتا ہے تو اس کا دل اسے چھوڑنے کو نہیں چاہتا پچھلے حکمران بھی اسی طرح سوچتے اور کہتے کہ اگر انہیں اگلے پانچ برس ملے تو وہ عوام کو ہر آسائش فراہم کریں گے لہٰذا انہوں نے بڑے جتن کیے۔ گلی محلے سے لے کر علاقے کی سطح پر چیدہ چیدہ اپنے ”ہم خیال“ لوگوں کو آشیر باد دی انہیں سہولتیں دیں تا کہ وہ کمزوروں اور غریبوں کو اپنے گرد جمع رکھ سکیں مگر وقت نے ایسا نہیں ہونے دیا لہٰذا عمران خان اور ان کی حکومت یہ مت سوچے کہ وہ آئندہ بھی برسراقتدار رہ سکتے ہیں۔ ملک کے اندر کے لوگ ان کی پالیسیوں کی وجہ سے ناپسند کر رہے ہیں وہ ان کو اب مزید حکومت کرنے کا موقع نہیں دینا چاہتے کیونکہ وہ ان کے لیے کچھ نہیں کر سکے انہیں آگے بھی بنیادی حقوق ہوں یا عام سہولتیں وہ نہیں دے سکیں گے کیونکہ آئی ایم ایف سے قرضہ اتنا لے چکے ہیں اور سیاسی الجھنوں میں اس قدر الجھ چکے ہیں کہ ان کے لیے کوئی بڑا ریلیف دینا مشکل ہو گا بلکہ ناممکن ہو گا یہ تو ہے ان کے ڈیلیور کرنے کی  بات ان کے مزاج میں جو سختی ہے اور اس میں ٹھہراؤ نہیں ”بادشاہ گروں“ کو یہ چیز بھی کھٹکتی ہے لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں سیاسی منظر مختلف ہو گا۔
خیر عوام ان تمام جماعتوں سے غیر مطمئن ہیں سنجیدہ عوامی حلقے چاہتے ہیں کہ یہاں کوئی انقلابی پارٹی آئے جو اس نظام کو بدل دے کیونکر اب آوے کا آوا بگڑ چکا ہے۔ سماجی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ معیشت جاں بلب ہے جس کے صحت یاب ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ ہاں اس کو بہتر بنانے کے لیے اصلاحات کے ساتھ بے رحم احتساب کی ضرور ت ہے مگر اس ضمن میں سبھی جماعتیں خاموش ہیں اور موجودہ حکومت نے قرضہ لے کر معاشی حالت کو سدھارنے کی حکمت عملی اختیا رکر رکھی ہے اور اسے مزید ٹھیک کرنے کے لیے مالیاتی اداروں کی تمام شرائط ماننے کی ٹھانی ہوئی ہے نتیجتاً لوگ بلبلا اٹھے ہیں مگر حیرت یہ ہے کہ وہ سڑکوں پر نہیں آرہے اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ وہ آئیں گے بھی نہیں وہ آئیں گے مگر ہنوز دلی دور است!
بہرحال حکومت نے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ عوام کی مزید چیخیں نہیں نکلوائے گی یعنی وہ کسی مالیاتی ادارے کی ڈکٹیشن نہیں لے گی مگر ہمیں نہیں لگ رہا کہ وہ ایسا کر سکے گی اس میں اعتماد کی کمی ہے اور سکت بھی نہیں لہٰذا منی بجٹ جس کی تیاری کی جا چکی ہے آئے گا جو اپنے ساتھ آہوں سسکیوں اور آنسوؤں کا سمندر بھی لائے گا۔ اب اگر بلدیاتی انتخابات ہوتے ہیں یا پھر عام انتخابات تو پی ٹی آئی کہاں کھڑی ہو گی اسے اس کی پروا نہیں کیونکہ اسے صرف سیاسی منظر پر موجود رہنا ہے (خواہ ایک نکتے کی صورت میں ہو) اس کے علاوہ وہ اور کچھ نہیں چاہے گی۔
حرف آخر یہ کہ عوام کا سفر حیات  اس امید پر جاری رہا ہے کہ اچھے دن آئیں گے اور موجودہ حکمرانوں سے وہ اس کی توقع کر رہے تھے مگر انہوں نے انہیں رلا دیا رسوا کر دیا ا نہیں ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے ان کے ساتھ کوئی انتقام لیا جا رہا ہو وگرنہ کوئی حکومت جو منتخب ہو خود کو جمہوری بھی کہلاتی ہو وہ کمزور اور بے بس عوام کو کسی اذیت میں مبتلا رکھنے سے گھبراتی ہے مگر افسوس اس نے ”کڈھ کڑاکے“ دیئے ہیں اور اسے اس کا ذرا بھر ملال نہیں۔

تبصرے بند ہیں.