نئی ویڈیو: جنگ اور محبت میں سب جائز

62

جمہوریت کو جتنانقصان پاکستان کی سیاسی پارٹیوں نے پہنچایا ہے، شاید کسی اور نے نہیں پہنچایا ہو گا۔ ہماری قومی سوچ یہ ہو چکی ہے کہ ہم الیکشن یا انتخابی عمل کو ہی جمہوریت سمجھ بیٹھے ہیں حالانکہ انتخابات ایک جمہوری نظام میں محض عوامی اظہار رائے کا ایک ذریعہ سمجھے جاتے ہیں۔آپ کو یاد ہو گاکہ مشرف دور میں ممبران پارلیمنٹ کے لیے گریجوایشن کی شرط لازم ہوئی تو سارے انڈر گریجویٹ سیاستدانوں نے راتوں رات جعلی ڈگریوں کے ذریعے کوالیفائی کر لیا وہ منتخب بھی ہو گئے اس کے بعد ان کی نا اہلیوں کا سلسلہ شروع ہوا تو کوئی ایک سیاسی پارٹی بھی ایسی نہیں تھی جس کے دامن میں جعلی ڈگری ہولڈر موجود نہ ہوں اس گنگا میں سب نے ہاتھ دھوئے۔ اکثریت جعلی گریجویٹس کو عدالتوں نے نا اہل قرار دے دیا مگر ان میں کچھ بچ گئے جو آج بھی کسی نہ کسی پارٹی کا حصہ ہیں۔ کچھ تو موجودہ وزیر بھی ہیں۔ حکمران پارٹی کے ایک ایم این اے پر اثاثے چھپانے کے الزام میں نا اہلی ثابت ہوگئی مگر انہیں سزا سے پہلے استعفیٰ دلا کر سینیٹ کا ممبر بنوا دیا گیا۔ یہ حکمران پارٹی کی جمہوریت پر قاتلانہ حملہ کی سازش سے کم نہ تھا مگر اس کے باوجود پارٹی کے نہ تو دامن پر کوئی داغ ہے اور نہ ہی ضمیر پر کوئی ہلکا سا بوجھ باقی ہے۔یہی حال تمام پارٹیوں کے اراکین کی صداقت اور امانت کا ہے مگر آئین پاکستان کی رو سے وہ اب بھی صادق اور امین ہیں۔ یہ جمہوریت کے ساتھ اجتماعی زیادتی ہے مگر سیاسی جماعتوں کے سربراہان اس سے دانستہ چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہ طوائف الملوکی اب بھی جاری ہے۔

 

سسٹم میں خرابی کی بڑی وجہ انتخابی سیاست میں مڈل مین کاکردار ہے۔ ہمیں باقی ہر شعبے میں مڈل مین نظر آتے ہیں لیکن سیاست کے شعبے میں پائے جانے والے مڈل مین کو کوئی کچھ نہیں کہتا ذرا غور کریں کہ Electables ہمارے وہ مڈل مین ہیں جو ووٹ خرید کر منتخب ہوتے ہیں اور مہنگے داموں خود کوفروخت کر کے بھاری منافع کماتے ہیں۔ ان کی اپنی کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہوتی البتہ اپنے حلقے میں ان کی گرفت مضبوط ہوتی ہے ان کی Borgaining Power ہوتی ہے ۔ یہ آزاد الیکشن لڑیں تو جیت جاتے ہیں یہ جس پارٹی سے بھی کھڑے ہوں اپنے ووٹ بینک کی وجہ سے ان کی سیٹ پکی ہوتی ہے۔ یہ بکتے بھی ہیں یہ آلہ

 
¿ کار بھی بنتے ہیں اور سب سے زیادہ کرپشن بھی یہی کرتے ہیں۔ ان کی سیاست کا محور ہی پیسہ ہے۔ لاکھوں لگاو

 
¿ اور کروڑوں کماو

 
¿ کا مشعل راہ اصل ہے ان کے نزدیک 

کیسا خدا کیسا نبی ، پیسہ خدا پیسہ نبی

سیاسی پارٹیاں ان کی سرپرستی کرتی ہیں ان کو لانے کے لیے چارٹرڈ جہاز بھیجے جاتے ہیں یہ ہر پارٹی میں بڑے معزز اور معتبر ہوتے ہیں، یہی ہماری قومی سیاست کے ڈبل شاہ ہیں کیونکہ یہ ناجائز پیسے کو راتوں رات ڈبل کرنے کا ہنرجانتے ہیں۔ ان کی وجہ سے ہی عام آدمی پر الیکشن میں حصہ لینے کے سارے دروازے بند ہیں۔ یہ ٹکٹ کے حصول کے 

لیے 20 کروڑ پارٹی سربراہ کو دیتے ہیں اس رجحان کی وجہ سے سیاست میں عام آدمی کا داخلہ ممنوع ہو چکا ہے۔ یہی وہ عناصر ہیں جنہوں نے ووٹوں کی خریداری کا دھندا متعارف کرایا ہے جس کے تحت قرآن پرہاتھ رکھوا کر ووٹ کا حلف دلوانے کے بعد ووٹر کو پیسے دیئے جاتے ہیں۔

اس طویل تمہید کے بعد اب لاہور کے حلقہ 133 کے ضمنی الیکشن سے پہلے ریلیزہونے والی ووٹ فروشی کی ایک اور ویڈیو کا ذکر کرنا ضروری ہے جو اس وقت پورے ملک میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ن لیگ والے کس طرح قطاریں لگوا کر ایک ایک بندے سے حلف اٹھوا کر 2 ہزار روپے فی ووٹ کے حساب سے کیش ادائیگی کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

 

اگر آپ غیر جانبدار رہتے ہوئے Fact Checking کریں تو صاف نظر آرہا ہے کہ یہ ویڈیو لیگ کے مخالفین نے پارٹی کوبدنام کرنے کے لیے مارکیٹ کی ہے۔

 

زمینی حقائق یہ ہیں کہ حلقہ 133 سے جمشید اقبال چیمہ اور ان کی اہلیہ دونوں کے کاغذات ایک ہی وجہ سے مسترد ہونا اتفاقی یا حادثاتی نہیں تھا۔ چیمہ صاحب کی کاروباری سوجھ بوجھ یہ تھی کہ 5 کروڑ پارٹی ڈونیشن اور 5 کروڑ شوکت خانم ڈونیشن کے بعد انہیں ٹکٹ حاصل کرنا ہے پھر الیکشن کمپین کے لیے 15 سے 20 کروڑ اور چاہیے اتنی بڑی رقم کیسے ریکور ہو گی جبکہ منتخب ہونے کے بعد ان کے پاس بمشکل ڈیڑھ سال کا عرصہ ہو گا۔ اس سے بھی بڑا سوال یہ تھا کہ حکمران جماعت کی ساکھ جس لیول پر گر چکی ہے چیمہ صاحب کی ساری انوسٹمنٹ ڈوبنے کا خطرہ تھا کیونکہ خفیہ سروے بتا رہے تھے کہ ان کی پارٹی بری طرح مقبولیت کھو چکی ہے۔ لہٰذا انہوںنے اپنا پیسہ بچا لیا اپنی ساکھ بھی بچا لی اور غیر منتخب وزارت بھی بچا لی جو بطور مشیر وزیراعظم ان کے پاس تھی۔ پی ٹی آئی کے اندر یا مضبوط تاثر پایا جاتا ہے کہ جمشیدچیمہ کی اس حرکت کی وجہ سے ن لیگ کو نہ صرف واک اوور مل گیا بلکہ پی ٹی آئی لاہور میں اپنے بچے کھچے ووٹر کومنہ دکھانے کے قابل نہیں رہی۔

 

ن لیگ والے اتنے بچے نہیں ہیں کہ وہ جس ضمنی الیکشن کو ایک طرح سے بلامقابلہ جیت چکے ہیں، اس میں وہ لائنیں لگوا کر پیسے بانٹتے پھریں۔ یہ کام تو اس وقت کیا جاتا ہے جب مقابلہ آخری حد تک کانٹے دار ہو مگر یہاں تو مقابلے کی فضا موجود ہی نہیں ہے۔ پی ٹی آئی میدان چھوڑ کر جا چکی ہے۔ یہ فیکٹر بھی اپنی جگہ پر ہے کہ مرحوم پرویز ملک کی موت کی وجہ سے بھی عوامی ہمدردیاں اور Sympathy Vote ان کی فیملی کی طرف ہے۔ پی ٹی آئی پہلے بھی ان سے بری طرح شکست کھا چکی ہے۔

 

اس ویڈیو کے غیر مصدقہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں کسی کا چہرہ دانستہ ظاہر نہیں کیا گیا ۔ پیسے دینے والے اور لینے والے دونوں فریق ناقابل شناخت ہیں۔ ویڈیو اتنی صفائی سے بنائی گئی ہے جیسے کسی ڈرامہ کی شوٹنگ ہو رہی ہو۔ خفیہ ویڈیو کی ریکارڈنگ ایسی نہیں ہوتی۔

 

ووٹ خریدنے کے لیے پیسے دینے والوں کو بھی پتہ ہے کہ یہ کام ہمیشہ الیکشن کی رات ہوتا ہے اتنے دن پہلے نہیں ہوتاا ور نہ ہی اتنی حلف برداری کی تقریبات ہوتی ہیں اور نہ ہی لائنیں لگوائی جاتی ہیں ۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ خریدار خود چل کر فروخت کار کی بیٹھک میں جاتا ہے وہاں اسے 50 یا 100 اصلی شناختی کارڈ پیش کیے جاتے ہیں اور ہول سیل بنیاد پر ادائیگی ہوتی ہے اور ایک ہی وصول کنندہ100 ووٹ کا حلف دیتا ہے۔ اس موقع پر کئی دفعہ شناختی کارڈ ان سے لے لیے جاتے ہیں جو اگلے دن پولنگ سٹیشن پر واپس کیے جاتے ہیں اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ فروختکار دوسری پارٹی کو دوبارہ ووٹ نہ بیچ سکے۔ یہ کام رات کے اندھیر ے میں ہوتا ہے کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔

 

حکمران پارٹی نے یہ پراپیگنڈا ویڈیو اپنی آنے والی ناکامی کے لیے جواز پیدا کرنے کے لیے لانچ کی ہے۔ جنگ اور محبت میں چونکہ سب جائز ہوتا ہے، یہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ویسے بھی آج کل ہماری قومی سیاست ویڈیو کے ذریعے چلتی ہے۔ہر بات ثابت کرنے کے لیے ویڈیو کاسہارا لیاجارہا ہے۔ ویڈیو کی صداقت اور EVM مشین کی ووٹوں کی گنتی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ اگر کوئی اب بھی یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے تو اس کی خوش گمانی قابل تحسین ہے۔

تبصرے بند ہیں.