30اکتوبرمیرے دلدار (دلدار پرویز بھٹی) کا یوم وفات ہوتا ہے اور 30نومبر (آج) اُن کا یوم پیدائش ہے، نئی نسل کی اطلاع کے لیے عرض ہے وہ ٹیلی وژن کے اپنے وقت کے مقبول ترین کمپیئرہونے کے ساتھ ساتھ انگریزی ادب کے اُستاد، پنجابی زبان کے ماہر، اور اُردو کے مقبول کالم نویس تھے، انگریزی میں اُنہوں نے شاعری بھی کی، وہ ڈرامے بھی لکھنا چاہتے تھے، زندگی نے مگر وفا نہیں کی، وہ بہت سی صلاحیتوں اور خوبیوں کے مالک تھے، مگر اُن کی عالمی شناخت پی ٹی وی کے اُن کے وہ پروگرام (پنجند، میلہ، ٹاکرا) تھے جو آج بھی لوگوں کو یادہیں۔ اُنہوں نے کچھ کتابیں بھی لکھیں، فی البدیہہ جملے بازی میںکوئی اُن کا ثانی نہیں تھا، نہ خدمت خلق میں کوئی تھا، اُن کے مکمل تعارف کے لیے اُن کی وفات پر معین اختر کا یہ ایک جملہ ہی کافی ہے ’’جوکچھ میں، انور مقصود ، اور عمرشریف کرتے ہیں، وہ سب دلدار کرسکتا تھا، مگر جو دلدار کرتاتھا وہ ہم تینوں میں سے کوئی نہیں کرسکتا‘‘… دلدار بھٹی 47برسوں کی عمر میں اُس وقت پاگئے جب شوکت خانم ہسپتال کی فنڈریزنگ کے لیے عمران خان کے ساتھ وہ امریکہ گئے، وہاں دوران شو اچانک اُنہیں برین ہمیرج ہوا، وہ گرے لوگ اُنہیں اُٹھا کر ہسپتال لے جانے لگے، اُنہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اُنہیں منع کردیا ، اپنی زندگی کا آخری جملہ اُنہوں نے اُسی وقت بولا ’’ اج دلدار داشو مُک گیا جے‘‘… دلدار کا شو واقعی مُک گیا کیونکہ اُس کے بعد کوئی دلدار پیدا نہیں ہوا، میں نے اُن کے ہر یوم وفات پر کالم لکھا، پہلی بار ناغہ پچھلے 30اکتوبر کو اِس لیے ہوا میں اُن دنوں اپنے ایک اور بزرگ دوست ڈاکٹر اجمل نیازی کی وفات پر قسط وار کالمز لکھ رہا تھا، اُن کالموں میں دلدار بھٹی کا ذکر بھی آیا مگر اُن کے یوم وفات پر 30اکتوبر کو اُن پر کالم لکھنے کی روایت قائم نہ رہ سکی، سو اِس کا ازالہ میں اب آج اُن کے یوم پیدائش پر ایک دو کالمز لکھ کر کرنا چاہتا ہوں، آج شاید میں اپنے دوستوں وقارئین کو پہلی بار بتانے لگا ہوں اُن کے ساتھ میرے تعلق کی ابتداء کیسے ہوئی تھی ؟، میں گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتا تھا، تب شوکت خانم کینسر ہسپتال کی تعمیر ہورہی تھی، اسے عمران خان کے ایک بڑے کارنامے کے طورپر دیکھا جارہا تھا، عمران خان اُن دنوں نیا نیا ورلڈ کپ جیت کے آیا تھا، اُس کی مقبولیت آسمانوں کو چُھورہی تھی۔ تب اِس مقبولیت کو اُنہوں نے ایک اچھے مقصد شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کے لیے کیش کروایا کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کاش اُن کی یہ مقبولیت برقرار رہتی، جو اس صورت میں رہ بھی سکتی تھی کہ وہ صرف سماجی خدمات پر توجہ دیتے، عبدالستارایدھی کی وفات کے بعد ایک اورعبدالستار ایدھی ہمیں مل گیا ہوتا، جوکچھ سیاست و حکومت سے باہر رہ کراُنہوں نے کیا اُس کا ایک فی صد بھی سیاست وحکومت میں آکر وہ نہیں کرسکے، اگر کچھ لوگ یہ کہتے ہیں ’’اُنہیں کچھ کرنے نہیں دیا گیا ‘‘ تب بھی قصور اُن کا ہی ہے، کہ بجائے ایک گندے سسٹم کاحصہ بننے کے اُس سسٹم کو ٹھوکر مار کر وہ باہرآجاتے …اب یہ ایک مستقل رونا ہے جو وقتاً فوقتاً ہم روتے رہیں گے فی الحال ذرا اپنے دلدار کو یاد کرلیں، میں اُس زمانے کی بات کررہا تھا جب شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کی فنڈریزنگ کے لیے بچہ بچہ باہر نکلا ہوا تھا، عورتیں اپنے زیورات تک بیچ رہی تھیں، اسے چونکہ پاکستان میں کینسر کے علاج کا پہلا ہسپتال قرار دیا جارہا تھا، اور کینسر کا موذی مرض تیزی سے پھیلتا جارہا تھا چنانچہ اِس کی تعمیر کو عمران خان کے ایک بہت بڑے کارنامے کے طورپر محسوس کیا جارہا تھا، میں ازرہ مذاق یہ عرض کرنے لگا ہوں شریف خاندان کو اگر پتہ ہوتا اس کینسر ہسپتال کا خالق اِک دن وزیراعظم بن کر اُن کے تاحیات وزیراعظم رہنے کے خواب کوملیا میٹ کردے گا وہ کینسر ہسپتال بننے ہی نہ دیتے، یا اُس کے مقابلے میں اپنا کوئی کینسر ہسپتال بنالیتے، یا اُنہیں اگر یہ پتہ ہوتا ورلڈ کپ جیت کر لانے والا اِک دن اُن کی حکومت گرانے کا باعث بنے گا وہ پاکستان کو ورلڈ کپ جیتنے ہی نہ دیتے، … کینسر ہسپتال کی تعمیر کے لیے فنڈریزنگ میں سب سے بڑا کردار طلبہ نے ادا کیا، پاکستان کا شاید ہی کوئی سکول، کوئی کالج یا کوئی یونیورسٹی ایسی ہو جہاں فنڈ اکٹھے نہ کئے گئے ہوں، میں اُن دنوں جیساکہ اُوپر بھی عرض کرچکا ہوں گورنمنٹ کالج لاہور میں تھا، میں نے اپنے دوستوں سے مل کر شوکت خانم ہسپتال کے لیے اڑھائی لاکھ روپے اکٹھے کیے۔گورنمنٹ کالج لاہور میں چونکہ زیادہ ترمالی طورپر مضبوط لوگوں کے بچے پڑھتے تھے اِس لیے اتنے پیسے (اڑھائی لاکھ) اکٹھے کرنے میں زیادہ مشکل نہیں ہوئی، مجھے اُن دنوں گھر سے دو روپے روزانہ ملتے تھے، میں نے ابوسے کہا وہ مجھے دو مہینے کا ایڈوانس جیب خرچ دے دیں، اُنہوں نے مجھ سے اِس کی وجہ پوچھی میں نے اُنہیں بتایا ’’ میں نے شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کے لیے فنڈ اکٹھا کرنا ہے، اِس کی ابتداء میں خود سے کرنا چاہتا ہوں، یہ پیسے مجھے اِس مقصد کے لیے چاہئیں‘‘… ابونے مجھے پانچ سو روپے دے دیئے، میرے والد بڑے محنتی انسان تھے، وہ ایک تھڑے پر کپڑا بیچتے تھے، مجھے پتہ تھا وہ اتنے پیسے افورڈ نہیں کرسکتے، میں نے کسی اور مقصد کے لیے اُن سے پیسے مانگے ہوتے، اور اُنہوں نے مجھے اتنے پیسے دیئے ہوتے، میں اُن کی مالی پوزیشن کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ رقم اُنہیں واپس کردیتا، یا تھوڑے پیسے رکھ لیتا، مگر مجھے چونکہ معلوم تھا اللہ کی راہ میں دیئے گئے پیسے کئی گنا اضافے کے ساتھ واپس ملتے ہیں سومیں نے ابوکے دیئے ہوئے پانچ سوروپے خاموشی اور خوشی سے جیب میں ڈال لیے … حلال پیسوں سے شروع ہونے والی اِس مہم میں اللہ نے اتنی برکت ڈالی صرف ایک ہفتے میں اڑھائی لاکھ روپے اکٹھے ہوگئے، مزید بھی ہوسکتے تھے، مگر میں چاہتا تھا یہ رقم جلد ازجلد عمران خان تک پہنچ جائے، پر مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی یہ پیسے میں اُن تک کیسے پہنچائوں؟، شک وشبے کا دور تھا، میں یہ سمجھتا تھا یہ رقم اگر میں نے براہ راست اُن تک نہ پہنچائی، یا اُن کے ہاتھ میں نہ دی یا میں نے اِس مقصد کے لیے کوئی اور ذریعہ یا راستہ اختیار کیا یہ رقم اُن تک نہیں پہنچے گی، یا پوری نہیں پہنچے گی، میں نے جب اس خدشے کا اظہار اپنے ایک اُستاد محترم (پروفیسر منیر لاہوری) سے کیا اُنہوں نے بتایا اسلامیہ کالج سول لائن میں انگریزی کے ایک پروفیسر دلدار پرویز بھٹی، عمران خان کے بہت دوست ہیں، اُن سے جاکر ملو، اور یہ رقم اُن کو دے دو…(جاری ہے)
Next Post
تبصرے بند ہیں.