تاریخ عالم گواہ ہے کہ ایسی کوئی مہم اور سیاسی بساط نہیں جس میں غلطی اور خوشامدانہ مشوروں کا ذکر نہ ہو۔ توزک جہانگیری ’’پڑھتے ہوئے اُس وقت کے حواریوں اور مشورہ سازوں پر نگاہ رک گئی جو جہانگیر کو برابر اُکسا رہے تھے کہ وہ رانا مان سنگھ کے کریا کرم کو ادھورا چھوڑ کر اکبر کی بوجوہ دکن مہم جوئی یعنی مفارقت میں واپس جمنا کے پار بسنے والے ’’پرگنوں‘‘ اور ان کے سرسبز علاقوں پر قبضہ کرلیں تو عین دانشمندی ہوگا چونکہ جمنا اکبر آباد کا دریا ہے لہٰذا وسعت بھی ہوگی اور اکبر رانا مان سنگھ کی شکست تاہلاکت بھی ادھوری چھوڑنا حکم عدولی نہ جانیں گے …
راجا مان سنگھ نے جہانگیر کی خلافت میں اپنی ملازمت تو قبول کرلی تھی مگر بنگال کو اپنی دسترس میں رکھنا اور اپنی اولاد کو ناظم ومختاربنگال مشروط رکھا تھا … یہ الگ بات کہ اس کے بڑے بیٹے جگت سنگھ کو تخت وتاج کے بجائے سفر آخرت پیش آگیا … خیر یہ یورش یہیں چھوڑ جہانگیر قریب 1595ء واپس اکبر آباد پہنچا تو قلعہ دار قلیج خان نے استقبال کیا… خوش دلی کا اندازہ اور خلوص کا گمان جتنا عام انسان کے لیے مشکل ہوتا ہے بادشاہ کی تنہائی اتنا بھی گوارہ نہیں کرسکتی یعنی ان کے شاہانہ جاہ وجلال (پروٹوکول) کو ایک لحظہ الگ رکھ کر سوچیے وہ ایک لمحہ کے لیے بھی کسی بھی رشتے کسی بھی قرابت داری کے لطف وکرم کا یقینی حظ نہیں اٹھاسکتے ہمہ وقت عوام اور خواص پر دہشت بٹھائے رکھنا ان کے اپنے اندر کے خوف کا تقاضا اور بقاء کا مسئلہ ہوتا ہے …یعنی کہیں نہ کہیں ظالم بھی مظلوم ہوتا ہے جہانگیر دومرتبہ رانا مان سنگھ کی مہم مرگ ادھوری چھوڑ کر پلٹا اپنے دربار میں (نہایت عاشق نرم جوشاعر شرابی) تین مشترکہ عاشق مردوں کی کھال کھنچوائی فلمیں جب اسے گانے گاتے دکھاتی ہیں تو یہ ثابت ہوتا ہے ہم کس قدر رضائی میں منہ دے کر خواب دیکھنے والی قوم ہیں وہ بیٹا جسے بادشاہ نے ’’ سیکری‘‘ کے بزرگ خانوادے تلک کوسوں ننگے پائوں سفر کیا اور بعدازاں مرادپوری ہونے پرسیکری کو بھرپور شہر بناکر نام فتح پور سیکری رکھ دیا کیا بادشاہت کہ امراء وزراء کو ابرواٹھا کر دیکھا تو وہ محلات کاروبار بازار اٹھا فتح پور جابے دنوں میں شہر بسائے اور ہاتھیوں کے پائوں تلے’’پہروں‘‘ میں روندڈالے انسان خود کو عظیم کہے یا سفاک اس کا فیصلہ وقتاً فوقتاً بدلنے پر منحصر ہے۔ کئی بار اپنی الہ آبادی کی مہم جُو زندگی سے نکل کر نورالدین جہانگیر والد سے ملنے اکبر آباد آیا مگر راستے ہی میں خیمہ زن ہوتے ہوئے کبھی اکبر کے خوشامدیوں نے جہانگیر کے ہمراہ لائولشکر سے خائف کردیا تو کبھی جہانگیر کے مستقبل بینوں نے اکبر کے ہاں اسیر کرلیے جانے کے خدشے پر اصرار کیا … محبت خوف کے سائے میں پلتی ہے درست مگر شفقت پدری اور پسری ادب کہیں بہت کم کی چیزیں ہیں طاقت کے سامنے جب بیٹے کو کہا جائے کہ آپ احکام نہیں دے سکے آپ کی مہر سند نہیں یاوالد سے کہا جائے کہ آپ کے پسر سے پوچھ کر فیصلہ ہوگا۔ تو کون سا بیٹا اور کون سا باپ جنگل کے مرد بس فتح یاب ہونا جانتے ہیں ان کا میدان چولہا چوکا نہیں میدان جنگ ہے۔
آج کئی میڈیا ہائوسز میں باپ بیٹوں کے درمیان اختلاف دیکھتی ہوں دستخط کی جنگ چیک بک کا قضیہ تو کچھ بھی عجیب نہیں لگتا، خیر تزک جہانگیر کے مطابق اکبر کئی مرتبہ جہانگیر کی سرکشی کو روکنے کے لیے مریم مکانی والدہ کو روانہ کرتا ہے اور جہانگیر بھی پناہ کے طورمریم مکانی کے محل ہی میںرکتا ہے بیٹیاں بہنیں اور مائیں مفاہمت کا کردار اور نرم خوئی پیدا کرتی ہیں۔
تاریخ انسانی یہی ہے موجودہ چھچھلتے ہوئے منظم کو دیکھتی ہوں تو کچھ بھی عجیب نہیں لگتا … محض اتنا ہی کہ مرد تو اپنے حقیقی ازلی کاروبار جنگ پر لگاہوا ہے عورت تازہ تازہ باہر بھی مشق زنی کرنے چلی ہے… گھریلو سازشوں بادشاہ کے کاندھے پر ہاتھ اور بیٹوں کی پیدائش کے فخر سے نکل کر طاقتور عہدوں پر متمکن ہورہی ہے مگر مردوں جیسا جگرا نہیں کررہی اسے نسوانی وقار بس میں سیٹ اور شستہ زبان بھی چاہیے، مردانہ گالی گلوچ اور کھلی باتیں عورتوں کی موجودگی میں ویسے ہی پابند سلاسل ہوجاتی ہیں۔ عورتیں ڈبل رعایت چاہتی ہیں یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ مرد کچن میں گھسے اور ڈوئی فرائی پین پتیلے کو استعمال کیے بغیر کھانا پکائے عورتیں دفتروں کاروباری جگہوں کو ڈرائنگ روم والے تکلف میں دیکھنا چاہتی ہیں حتیٰ کہ ٹائروں کی دکانوں پر کھڑی مہندی والے ہاتھ نچا نچا کر لڑ رہی ہوتی ہیں۔ مردوں کی دنیا میں مداخلت مگر غیرت کا بوجھ انہیں کے سریعنی لڑکے کو کوئی لڑکی چھیڑے تو بہن مدد کو نہیں آئے گی مگر مجال ہے کہ بھائیوں والی لڑکی کو کوئی چھیڑ جائے بھائی تن من دھن کی بازی لگادیں گے چاہے بہنوں سے لاکھ اختلاف ہو… مگر ان کی حفاظت صدیوں کی ثقافت نے ان پر ڈال رکھی ہے …
جس آزادی کا نعرہ آج لگایا جارہا ہے مجھے کوئی یہ بتا دے کہ بادشاہ سے لے کر فقیر تلک کون آزاد ہے؟ کیا بادشاہ سڑک پر کھڑا ہوکر سٹہ کھا سکتا ہے کیا فقیر محلوں میں گھس سکتا ہے کیا ایسا نہیں کہ ہم ایک دوسرے کی ’’ٹیراٹری‘‘ (علاقے) میں گھستے ہیں جبکہ ایسا تو ’’بدمعاشوں‘‘ کی دنیا میں بھی نہیں ممکن بدمعاش یعنی برا معاش رکھنے والے بھی کسی اصول ضابطے کے تحت چلتے ہیں اپنے اپنے علاقے بانٹ لیتے ہیں ایک دوسرے کی چھائونی پر چھاپہ نہیں مارتے تھانیداروں کے بھی اپنے اپنے علاقے اور وہاں کے مسائل نپٹانے کی ذمہ داری ہوتی ہے سیاست دانوں کے علاقے جہاں سے وہ انتخاب لڑتے ہیں ہم ایسوں کے اپنے شہر سوسائٹی محلے ہوتے ہیں محاورہ ہے کہ ’’یہ چوتھے محلے‘‘ سے آکر لڑ رہا …محلے دار ہوتے ہیں دوسری صورت مسافر کی یا اجنبی کی ہوتی ہے جس پر کوئی اعتبار نہیں کرتا۔
مجھے لگتا ہے عورتیں اس وقت اسی ’’اجنبی ‘‘ علاقے میں ہیں گھرسنسار چولہا چوکا کی اجارہ داری اور کاروباری دفتری نظام کے بیچ معلق ہیں انہوں نے اپنا فیصلہ وقت پر چھوڑا ہے ان سے آگے چلنے والے معاشرے ڈپریشن، اداسی اورخالی گھروں سے بھرے ہوئے ہیں … ایک یادوبچے غیرملکی زبان بولتے ہوئے غیرملکی نغمے سنتے ہوئے غیرملکی نصاب پڑھتے ہوئے آخری وقت میں ماں کے قدموں تلے جنت نہیں تلاش کرتے …باپ کی وراثت پر تو حق سمجھتے ہیں، اس کو مگر عام انسان کے اچھے بُرے پیمانے پر تولتے ہیں۔
ماں کا کہنا حدیث نہیں مغربی نصاب کے مطابق اگر وہ سچ بول رہی ہے تو ’’ویل ان گڈ‘‘ نہیں تو اس کا جھوٹ اس کے رتبے کی وجہ سے نہیں برداشت کیا جائے گا …
ایک بین الاقوامی کنفیوژن ایک فطری صاف گوئی سے متصادم ہے صرف کسی کسی جگہ رعایتیپیکیج ملے ہیں مگر عورتوں کی ایک قسم کو یہپیکیج نہیں چاہئیںوہ اپنے انسان ہونے کا حق مانگ رہی ہیں اور دوہری مشقت بھی اُٹھا رہی ہیں اس میں کوئی تو تسکین کا پہلو ہوگا …
میں اپنی ذاتی رائے کو محفوظ رکھتے ہوئے محض کل انسان کی بے بسی پر نگاہ کیے ہوئے ہوں یہ مردوزن کبھی تصوف کا سہارا لیتے ہیں کبھی شریعت کا اپنے اپنے نکتہ نظر کو درست خیال کرکے باقی سب ردکردیتے ہیں جوان کے خیال کے مطابق نہ چلے اسے تنہائی کی سزادیتے ہیں۔
ایک جنگ وہ ہے جو پورا معاشرہ لڑ رہا ہے اور اس کے بینر تلے ذیلی جنگیں بھی جاری ہیں چونکہ قلمکار ہوں خود کو آزاد پانیوں پر ہمہ اطراف دیکھنے کی صلاحیت پر چھوڑ رکھا ہے۔
صحیح اور غلط کی اصطلاحات استعمال کرنے کے لیے کوتاہ بیں ہونا ضروری ہے صحیح اور غلط کے امکانی مقامات اور ان کا بدلنا صحیح اور غلط کو بھی بدل دیتا ہے ۔
تسلسل سے دیکھنا سوچنا اور ہرطبقہ فکر کو جگہ دینا شاید کبھی کسی عمدہ اصول کی دریافت کا باعث ہوا بھی تو چھوٹی چھوٹی بحثیں اور درمیانی عقل کی حکمرانی ہے جو حقیقی وفطری مفکر کے لیے پریشانی کا باعث نہیں مجھے تو بڑی بڑی کانفرنسوں پرضائع ہوتے پیسوں اور کچی باتوں والے سکالروں پر مسرت کے مواقع ملتے ہیں …’’میڈیاکرز‘‘ کے دورمیں لوگ عقل کی بادشاہت سے خائف ہی رہتے ہیں اور رہنابھی چاہیے …
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.