گزشتہ کالم پر بہت سے احباب نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ مجموعی طور پر سب اس کو تسلیم کر رہے ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان اور بھارت کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ تو ہے لیکن دونوں ممالک جیسے ہے جہاں کی بنیاد پر اسے لے کر چلنا چاہتے ہیں اور جو حصہ جس کے تصرف میں ہے وہ اس کے کنٹرول کو مضبوط بنا رہے ہیں ایسے میں کشمیر کی تقسیم ہوتی ہے یا اس کے حصے بخرے ہوتے ہیں انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔ کشمیریوں کی تیسری نسل غلامی در غلامی میں جکڑی جا رہی ہے۔ احساس زیاں بھی جاتا رہا شاید یہ ہمارے لیے ہی کہا گیا تھا۔ ان لوگوں کا بھی شکریہ جو میری فکر سے اختلاف رکھتے ہیں مگر انہوں نے بھی اس کالم کی تحسین کی ہے۔ اپنے اپنے انداز میں بات کرنے کا حق ہر کسی کو حاصل ہے۔ بدقسمتی یہی ہے کہ ہم نے پڑھنے لکھنے سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے اور تاریخ کو کتابوں میں دفن کر دیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اس تاریخ کو سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچانے کا بندوبست کریں۔
کہتے ہیں کہ When in Rome Do as the Ronans DO۔ یہ مسئلہ محض خودمختار کشمیر، الحاق پاکستان، حق خودارادیت یا پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک کے انتخاب کا نہیں بلکہ کشمیری قوم کی بقا سے جڑا ہوا ہے۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ ہم نے بہت سے لوگوں کو فراموش کر دیا ہے اور کشمیر کو صرف اپنے مفادات کے تحت استعمال کر رہے ہیں۔ جموں والے وادی والے کو نہیں مانتے، گلگت والے مظفرآباد سے دور ہیں اور اسکردو والے لداخ سے نالاں ہیں۔ کشمیر کی وحدت تو کہیں نہیں نظر آرہی۔ کوئی کہتا کہ ہمیں پاکستان کا حصہ بنا دو کوئی بھارت کے حق حکمرانی کو قبول کر رہا ہے اور کوئی خودمختاری کے نعرے کی آبیاری میں مصروف ہے۔ بین الاقوامی سازشیں اور طاقتیں اپنا رنگ دکھا رہی ہے۔ سوال محض اتنا سا ہے کہ کیا ہم لوگوں کو حق خودارادیت دینے کے لیے تیار ہیں اور اگر تیار ہیں تو کیا ہم نے اس کے تقاضے پورے کر دئیے ہیں۔ حق خودارادیت کو محدود کیوں کر کیا جا سکتا ہے۔ اب تو پاکستان کی ایک بڑی اکثریت اور اشرافیہ بھی اس بات کی حامی نظر آتی ہے کہ کشمیریوں کو آزاد کر دو۔ بہت ہو گیا، کچھ تو ہمیں بوجھ سمجھنا شروع ہو چکے ہیں حق خودارادیت کی بات ہوتی ہے تو مجھے ضیاء الحق کا ریفرنڈم یاد آ جاتا ہے۔ یعنی آپ نے اس بات پر ووٹ دینا ہے کہ کیا آپ پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں اور اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو پھر میں پانچ سال کے لیے ملک کا صدر ہوں۔ اسی طرح جب ہم یہ کہتے کہ کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دو تو ہم یہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ ہم کشمیر کے پاکستان سے الحاق کو تسلیم کر رہے ہیں۔ میں اس ملک میں پلا بڑھا ہوں اس سے مجھے محبت ہے لیکن کیا آپ کسی دوسرے شخص کو یہ حق دیتے ہیں کہ وہ اپنے اس حق کو استعمال کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ جانے کا اعلان کر دے۔ بالکل بھی نہیں۔ ہم اس کی حق کی ایک منٹ میں نفی کر دیں گے۔ اس کو ایک اور مثال سے سمجھ لیتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں بہت سے سیاستدان ایسے ہیں جو بھارت کے ساتھ جانا چاہتے ہیں تو کیا وہ کشمیری نہیں رہے اور کیا ان کے حق کو ہم تسلیم نہیں کریں گے۔ جب تک ہم ان سے بات چیت نہیں کریں گے ان کے ساتھ ڈائیلاگ نہیں ہو گا مسئلے کا حل نہیں ہو سکے گا۔ بھلے وقتوں میں ایک وفد سری نگر سے لاہور آیا، سیفما والے اس قسم کے وفود کا تبادلہ کرتے تھے۔ ہمیں علم ہوا تو ان سے ملنے ہوٹل چکے گئے۔ سری نگر یونیورسٹی کی ایک پروفیسر بھی وفد کا حصہ تھیں۔ کہنے لگیں کہ آپ کیسے کشمیری ہیں کہ آپ کو کشمیری زبان بولنا نہیں آتی۔ یعنی کشمیری وہ ہے جسے کشمیری بھاشا آتی ہے۔ ان کی اس تعریف کے بعد تو جموں، گلگت بلتستان، لداخ والے سارے غیر کشمیری ہو گئے۔ کشمیر ایک وحدت کا نام تھا جسے وقت گذرنے کے ساتھ ہم نے تقسیم کر دیا۔ یہ مسلمانوں، ہندوؤں، سکھوں اور بہت سے مذہب کا دیش تھا اسے ہم نے صرف اسلام سے جوڑ دیا اور باقی مذاہب کو اس سے باہر کر دیا۔ کشمیر کو حق خودارادیت کے بجائے ہندو اور مسلم میں بانٹ لیا۔ یہ تیرا وہ میرا۔ یہ تم لے لو وہ مجھے دے دو۔ کشمیریوں کے وفود مسلم لیگی رہنماؤں سے ملے تو کہا گیا پہلے کشمیر کو ضم کرو پھر بات ہو گی، مہاراجہ نے بھارت کی طرف ہاتھ بڑھایا تو کہا گیا کہ پہلے بھارت کا حصہ بنو۔ مہاراجہ نے سٹینڈ سڑک اگریمنٹ کا پروانہ ارسال کیا بھارت نے جواب دینا مناسب نہ سمجھا مگر قائد اعظم نے اسے قبول کر لیا۔ بعد ازاں ہماری حکومت نے ان معاہدے کی دھجیاں بکھیر دیں۔ اس معاہدے کی رو سے پاکستان کو جو رول کشمیر میں ملا تھا ہم نے وہ ادا کرنے کے بجائے کوئی اور کھیل شروع کر دیا۔
اب بھی وقت ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں کشمیر کو ایک باجگزار ریاست تصور نہ کریں اور نہ ہی اسے اپنی ہار جیت کا پیمانہ بنائیں۔ گذشتہ کالم پڑھنے کے بعد سوئٹزرلینڈ سے جلاوطن کشمیری رہنما سردار شوکت علی کشمیری نے مجھے میجر جنرل اکبر خان کی کتاب Kashmir of Raiders سوفٹ فارم میں ارسال کی۔ میجر جنرل اکبر خان قائد اعظم کے پہلے ملٹری سیکرٹری کے طور پر اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے اور وہ کشمیر میں ہونے والے جنگ میں براہ راست شریک تھے، پاکستان میں پہلی گوریلا وار انہوں نے شروع کی تھی۔ بعد میں راولپنڈی سازش کیس میں انہیں گرفتار کیا گیا۔ فیض احمد فیض بھی ان کے ساتھ ہی گرفتار ہوئے تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ راولپنڈی سازش کے تمام فوجی کردار وہ تھے جنہوں نے کشمیر کی جنگ میں براہ راست حصہ لیا تھا اور وہ اس وقت کی حکومت کی کشمیر پالیسی سے سخت نالاں تھے۔
حکایت ڈائجسٹ کے مدیر عنایت اللہ نے اس کتاب کا ترجمہ بعنوان کشمیر کے حملہ آور اور راولپنڈی سازش کیس کیا تھا۔ یہ کتاب چند ایک لوگوں کے پاس موجود ہو گی۔ میں نے اس کتاب کا ٹائٹل دیکھا ہے جس میں مصنفین میں پہلے نمبر پر عنایت اللہ کا نام ہے اور دوسرے نمبر پر میجر جنرل اکبر خان کی نام۔ ایک کتاب کے ساتھ ہم اتنی بددیانتی کرتے ہیں تو کشمیر کے حوالے سے ہمارے اجتماعی رویے اس سے کہیں زیادہ گھناؤنے ہیں۔ میں نے اس کتاب کا مطالعہ کیا ہے اور مجھے اس میں کہیں یہ بات نظر نہیں آئی کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے حکومت سے کہا ہو کہ وہ کشمیر کے اندر قبائلیوں کو داخل کر دیں۔ ایک جگہ پر انہوں نے لکھا ہے کہ قائد اعظم نے جنرل گریسی کو فوج کشمیر میں داخل کرنے کے لیے کہا لیکن یہاں بھی انہوں نے کسی دوسری کتاب کا حوالہ دیا ہے یعنی یہ بات ان کے سامنے کبھی نہیں ہوئی۔ میجر جنرل اکبر خان نے بار بار اپنی کتاب میں اس بات کا ذکر کیا کہ انہیں بار بار یہی تاکید کی جاتی رہی کہ اس سارے معاملے کی حکومت یا فوج کے اعلیٰ عہدیداران کو خبر نہ ہو۔ حاضر سروس فوج کا ایک اعلیٰ عہدیدار جنرل طارق کے کوڈ کے ساتھ کشمیر میں جنگ کرتا رہا اور فوج کی ہائی کمان کو اس کی خبر نہیں تھی۔ اس بات کو تسلیم کر لیا جائے تو اس سارے آپریشن کی قانونی حیثیت متنازع ہو جاتی ہے۔ ایک طرف وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان، مسلم لیگ کے اعلیٰ عہدیداران کے ساتھ اس جنگ میں شریک تھے تو دوسری طرف فوج کے اندر سے گولہ بارود اور رائفلیں چوری ہو کر محاذ جنگ پر جا رہی تھیں۔ اس کتاب میں یہ بھی درج ہے کہ جنگ کے لیے بھیجا جانے والا سامان راولپنڈی کے بازاروں میں فروخت ہوتا رہا۔ پنجاب پولیس کے لیے خریدی جانے والے چار ہزار رائفلوں کو کشمیر میں بھیجنے کا حکم صادر ہوا اور اس کی جگہ درے سے گھٹیا رائفلیں بھجوا دی گئیں۔ یعنی اس جنگ میں جس کا یہاں داؤ لگا اس نے بخشا نہیں۔ ان چار ہزار رائفلوں کا سودا کس نے کیا اس پر کتاب خاموش ہے۔ میجر خورشید انور( وہ اصلی میجر نہیں تھے) جو قبائلیوں کے ساتھ بارہ مولا پہنچ گئے تھے اور وہاں سے سری نگر صرف چار میل دور تھا مگر انہوں نے پیش قدمی روک دی اور کشمیری رہنماؤں سے کہا کہ پہلے اس بات کا تعین کیا جائے کہ کشمیر کی آنے والی حکومت میں اسے کون سا عہدہ دیا جائے گا، انہیں زعم تھا کہ انہوں نے کشمیر کو آزاد کرایا ہے۔ انہوں نے دو دن ضائع کیے اور بھارتی فوج سرینگر ائیرپورٹ اتر گئی اور وہ منظر سے غائب ہو گئے۔ یہ بھی کہا گیا کہ وہ شادی کے لیے غائب ہوئے تھے۔ خورشید انور کو اسکندر مرزا اور لیاقت علی خان دونوں کی حمایت حاصل تھی۔ کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں۔ ہزاروں ہیں قصے کیا کیا بتاؤں۔سردار شوکت حیات خان نے اپنی کتاب ’’گمشدہ قوم‘‘ میں بھی کچھ اس طرح ذکر کیا ہے”
’’کشمیر کے پاکستان کے حملے کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے پٹیل کا پیغام دیا کہ پاکستان کشمیر لے لے اور حیدرآباد دکن پر سے اپنا کلیم واپس لے کر اس ریاست کو انڈیا کو دیدے۔‘‘
جب سردار شوکت نے لیاقت علی خان سے کہا کہ انڈین فوج کشمیر میں داخل ہو چکی ہے اور ہم قبائلیوں کے ساتھ مل کر ان کو باہر نہیں نکال سکتے اور نہ ہی ہم فوج کی مدد سے کشمیر لے سکتے ہیں ، اس لیے بہتر یہ ہے کہ پٹیل کی پیشکش پر غور کر لیں۔لیاقت علی خان کا جواب تھا۔
’’سردار صاحب کیا میں پاگل ہو گیا ہوں کہ میں کشمیر کے پہاڑوں اور ٹیلوں کے بدلے ریاست حیدرآباد دکن چھوڑ دوں؟ جو کہ پنجاب سے بھی بڑی ریاست ہے۔‘‘
Next Post
تبصرے بند ہیں.