عزازیل کا تکبر

170

عزازیل کے والد کا چہرہ شیر جیسا اور والدہ کا چہرہ بھیڑیے کی مادہ سے مشا بہت رکھتا تھادونوں ہی نہایت دلیر، طاقت ور اور بہادر تھے۔ابلیس میں اپنے والد اور والدہ دونوں کی خصوصیات پائی جاتی ہیں یعنی وہ نہایت خوداروسرکش اور مکار ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت خودغرض،فریبی اور دھوکہ باز بھی ہے۔فرمانِ باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: میں جسے چاہتا ہوں عزت دیتا ہوں اور جسے چاہتا ہوں ذلت دیتا ہوں۔فرشتوں اور قومِ ابلیس کے درمیان ہونے والی جنگ کے بعد جو جن قیدی بنائے گئے ان میں شہزادہ ابلیس بھی موجود تھا ۔جب ان کو بارگاہِ الہٰی میں پیش کیا تو فرشتوں کو ابلیس کی بہترین تربیت کرنے کا حکم ہوا۔حکمِ الٰہی کے بعد شیطان کی بہترین تربیت کی گئی اللہ جل جلا لہ کے رتبے اور جاہ و جلال سے آشنا کرایا گیا۔عبادات ا ور ریاضت کے طریقے وآداب سکھائے گئے ۔ کچھ ہی عرصے میں یہ اپنی فطری تیزی و طراری کے سبب سب کچھ سیکھ گیا۔اللہ رب العزت کا انعام تھا کہ اس کی پلکیں ہر لمحہ عبادت و ریاضت سے بوجھل اور ہونٹ ذکرِالٰہی سے لرزیدہ رہتے تھے ۔یہاں تک کے ابلیس اپنی عبادات میں اتنامقرب ہوا کہ مختلف آسمانوں میں اس کے مختلف رتبے بنے۔ پہلے آسمان والوں نے اس کو عابد کہا، دوسرے آسمان والوں نے زاہد، تیسرے آسمان والوں نے عارف،چوتھے آسمان والوں نے ولی ،پانچویں آسمان والوں نے تقی ،چھٹے آسمان والوںنے خاشع اور ساتویں آسمان والوں نے عزازیل کے لقب سے پکارا۔تخلیقِ آدم ؑ کے بعد جب اللہ رب العزت نے فرشتوں بشمول ابلیس کو
سجدہ کرنے کا حکم دیا تو سب فرشتے سجدہ زیر ہو گئے البتہ شیطان نے انکار کر دیا اور احکم الحاکمین کے دریافت کرنے پر ندامت ، شرمندگی و معذرت کے بجائے تکبر و سرکشی اختیار کی۔وہ مغرور ہو گیا خود کو آدم ؑ سے افضل قرار دیاکہ میں تو آگ سے بنا ہوںاور انسان مٹی سے بنا ہے کیسے میںبرتر ہو کر اس مٹی کے بنے پیکر کو سجدہ کروں۔جس پر سرزنش ہوئی تو متنبہ ہوکر توبہ کے بجائے اللہ سے تا قیامت اولادِ آدم کو گمراہ کرنے کی مہلت طلب کی۔یہ غرور، تعصب اور تکبر اس کی پچاس ہزار سال کی عبادتوں پر غالب آ گیا اور خداوند قہاروجبار نے لعنت کا طوق اس کے گلے میں پہنا کر اس مردود کو جنت سے نکال دیا۔جس کے بعد ابلیس اپنے 9بیٹوں کے ساتھ زمین پر اترا۔شیطان نے اپنے بیٹے ہفاف کو صحرا میں شر پھیلانے ـــ، لاقس اور ولہان کو نمازوں کے درمیان وسوسے پیدا کرنے، زلبنور کو جھوٹی تعریف اور جھوٹی قسموں کے لیے اکسانے، ہشر کو ماتم گریبان پھاڑنے اور سینہ کوبی کے لئے تیار کرنے، ابیض کو انبیاء کے دلوں میں وسوسے ڈالنے، اعوس کو زنا کاری پر اکسانے، واسم کو گھروں میں فساد ڈالنے اور مطوس کوافواہ سازی پر لگا دیا یوں زمین پر شر، گمراہی اور سفلی طاقتوںکی تاریخ کا آغاز ہوا۔ عربی زبان میں نافرمان، سرکش، باغی اور خبیث وجود کو شیطان کہا جاتا ہے خواہ وہ انسان ہو یا جن۔ انسان کو گمراہ کرنے کے پیچھے صرف شیطان کا ہاتھ ہی نہیں بلکہ بیشمار انسانی روپ میں موجود شیطانوں کا ہاتھ بھی ہے جو ہمارے اردگرد موجود ہوتے ہیں۔ انسان نما شیطان اور جن شیطان میں فرق یہ ہے کہ انسانی شیطان کو اذان نہیں بھگاتی اور نہ ہی یہ ماہِ رمضان میں جکڑے جاتے ہیں بلکہ وہ اہلِ ایمان کے ساتھ مسلسل جھگڑنے اور زمین میں فساد برپا کرنے میں لگے رہتے ہیں یہ انسان نما شیطان دوسرے انسانوں سے گمراہی کے بڑے بڑے کام کرا لیتے ہیں۔ایسے انسان نما شیطان ہر دور میں پائے جاتے ہیںاور شیطان انہیں اپنے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتا ہے جیسے حضرت موسیٰ ؑکے دور میں فرعون،حضرت ابراہیم ؑکے زمانے میں نمرود، حضرت یوسف ؑ کو ان کے بھائیوں کے ذریعے یعقوب ؑ سے الگ کیا،حضرت عیسیٰ ؑکے متعلق یہودیوں کو بہکایاکہ انہیں سولی پر چڑھا دیں ۔شیطان نے جو کچھ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کیا اس کی اصل وجہ تکبر تھی ۔تکبر ہی وہ منفی جذبہ ہے جو انسانوں کو آخری درجے میںخدا کا نا فرمان بنا دیتا ہے جو شخص کسی بھی طرح شیطان کے قابو میں نہیں آتا اس کو شیطان تکبر میں ڈال دیتا ہے انسان خود کو بڑا سمجھتا ہے ، اپنے اعمال کو ،اپنی دولت ،اپنے مقام و مرتبے،اپنی طاقت،اپنے حسن،علم،ذہانت ، صلاحیت اور اقتدار پر نازاں ہوتا ہے۔اس کا یہی ناز و تکبر اسے بارگاہِ الٰہی میں مجرم بنا دیتا ہے۔ایسا شیطان صفت انسان حق کا انکار کرتا ہے،کمزوروں پرنا جائز ظلم کرتا ہے ،معصوموں کا حق دباتا ہے ۔ ایسے لوگوں کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ کا مفہوم ہے اور بعض لوگ ایسے ہیں جو اللہ(کی شان ) میں ظلم(ودانش)کے بغیر جھگڑتے اور سرکش شیطان کی پیروی کرتے ہیں۔اللہ پاک ان دونوں قسموں کے شیطانوں اور غروروتکبر سے ہمیں محفوظ رکھے۔۔آمین

تبصرے بند ہیں.