ہو تری خاک کے ہر ذرے سے تعمیرِ حرم

94

ایک معجزہ گزشتہ صدی کے وسط میں ہوا۔ خلافت عثمانیہ کے پارہ پارہ ہو جانے کے بعد دو بدترین اسلام دشمن قوتوں کے پنجوں سے نکل کر یکایک حالات تخلیق پاکستان پر منتج ہوئے۔ ہندو بھارت اور مسلمانوں پر ظلم کی تاریخ اور صلیبی اسلام دشمنی کا ورثہ رکھنے والا انگریز دیکھتا رہ گیا۔ پاکستان 27 رمضان المبارک کو تائید ایزدی کی روشن علامت بن کر دنیا کے نقشے پر ہلالی پرچم لیے ابھر آیا۔ خنجر ہلال کا ہے قومی نشان ہمارا۔ اسی پیرائے میں اس صدی میں افغانستان کی غیرمتوقع آزادی اور لہلہاتے کلمہ طیبہ والے پاکیزہ پرچم نے پوری دنیا کو دم بخود کردیا۔ دونوں ممالک کی آزادی سیاسی نہیں، ایمان کے بل بوتے پر ہوئی۔ پاکستان کا ایمانی چہرہ مسخ کرنے والے سیکولر، ملحد طبقات کے نااہل پلاسٹک سرجن، تاریخ کا لکھا مٹانے سے قاصر ہیں۔ پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الااللہ کی پکار اس پر ثبت ہے۔ لاکھوں جان کی قربانی شوبز کی دھماچوکڑی، سیاست بازی کے اکھاڑوں، الگ کرکٹ ٹیم، رئیل اسٹیٹ کے قبضہ مافیاز کے لیے نہیں دی گئی تھی۔ ہمارے والدین خالی ہاتھ خونچکاں ٹرینوں میں جان کی بازی لگاکر آئے۔ وہ اس زمین پر اس دن کے لیے سجدہ ریز نہ ہوئے تھے، جو آج گھمبیر ترین مسائل کی دلدل بنی پڑی ہے۔ کفر کی چیرہ دستی سے نکل کر آج پھر ہر طرح کے کفر کے آگے سجدہ ریز ہونے، دنیا بھر میں کشکول لیے پھرنے اور کلچرل کچرے اکٹھے کرنے کے لیے خون کی ندیاں عبور نہ کی تھیں۔ آج افغانستان ہمارے سامنے ایک ایسے ہی، بلکہ اس سے بھی بڑے معجزے کی صورت میں موجود ہے۔ وہ اپنی شناخت برقرار رکھنے اور آزادی کے مقصد کو دانتوں سے پکڑے رکھنے کا عزم لیے ہوئے ہے۔ سراج الدین حقانی (افغان وزیر داخلہ) نے اپنے ایک ساتھی کا خواب سنایا۔ ’انہوںنے خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی۔ یہ دیکھا کہ آپؐ کا دامن مبارک، خون سے بھرا ہوا ہے۔ کسی نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ خون کس کا ہے؟ آپؐ نے جواب دیا کہ یہ افغانستان کے شہداء کا خون ہے۔ یہ بہت ہی معزز اور مبارک خون ہے۔ یہ خون زمین پر نہ بہنے پائے۔‘
جو خون پاکستان بننے کی راہ میں بہا، وہ ہم نے بڑی محنت سے رائیگاں کیا۔ مشرقی پاکستان اپنے ہاتھوں توڑکر۔ اللہ نے پھر بھی درگزر فرماکر آدھے ادھورے پاکستان کو ایٹمی قوت بنا کھڑا کیا۔ پرویزمشرف کو یہ قوت وشوکت ایک آنکھ نہ بھائی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے معافی منگوائی، ملک بھر سے چوکوں پر لگے میزائل ہٹاکر کہیں گائے چوک بنا اور کہیں کوئی اور بت ایستادہ ہوئے۔ پاک خون کی سرخی ویلنٹائن ڈے کے ناپاک گلابوں اور غباروں میں بھر کر اخلاقی گراوٹوں سے حیا کا دامن تار تار کیا۔ یہ خون گل سڑکر سیاہ بدبودار ہوکر ہیلو وین کی کالی بلائیں بن کر نورمقدم جیسے حقیقی المناک خوفناک مناظر میں ڈھلا۔ اس خون کا رنگ ہندوؤں کے مقدس پیلے رنگ کی صورت میں قومی سطح پر ’ریاستِ مدینہ‘ کے دعوے داروں نے دیوالی مناکر پھیلایا۔قبولِ اسلام کو ناممکن بنانے اور LGBT کی غلاظت سے پاک ملک لتھیڑنے کے بِل (Bill) پر چلے پڑے۔ پنبہ کجا کجا نہم!
یہ بے نور آنکھیں، یہ روحوں کی پستی
یہ گھر گھر میں تھیٹر، یہ عصیاں کی بستی
افغانستان اپنے اثاثوں سے محروم رہتے ہوئے بھی حکمرانی کے شاندار نمونے پیش کر رہا ہے۔ حکمران اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر عوام کو سہولت دینے، انصاف فراہم کرنے میں بے مثل ایثار سے کام لے رہے ہیں۔ عوام بہ چشمِ سر لوٹ مار کرتے بدعنوان پچھلے کٹھ پتلی حکمرانوں سے یہ تقابل دیکھ رہے یں۔ لاقانونیت جو پاکستان کے بڑے شہروں
کا قرار اور امن لوٹ رہی ہے اس کا وہاں گزر نہیں۔ قانون بلااستثناء سب پر لاگو ہے۔ (افغان حکومت کی عمر تین ماہ ہے۔ اس کا موازنہ سو سال پرانی حکومتوں، نظاموں سے کیا جا رہا ہے!) قندھار میں پرانی پولیس بحال کردی گئی۔ ایک صحافی نے سپاہی کا انٹرویو کرتے پوچھا کہ کیا طالبان ٹریفک قوانین کی پابندی کرتے ہیں؟ پولیس والے نے بتایا کہ کل طالبان کی چند گاڑیاں غلط سڑک پر آگئیں۔ میں نے انہیں واپس ہونے کا اشارہ کیا۔ وہ سب واپس ہولیے۔ لمبا چکر کاٹ کر صحیح سڑک پر آئے۔ فتح کے نشے میں یہ سپاہ چُور نہ ہوئی کیونکہ سورۃ النصر پڑھتے، سجدہ ہائے شکر آنسوؤں سے بھیگی سجدہ گاہوں نے انہیں عجز کی دولت سے مالا مال کر رکھا ہے۔ عمران خانی دھرنے میں قبل از فتح ہی پولیس کی جو شامت آئی تھی وہ ریکارڈ پر ہے۔ ابھی حالیہ تحریک لبیک دھرنے میں پولیس بندوقوں کی نوک پر رکھی گئی مگر شاہ کے ان نئے مصاحبوں (ایم کیو ایم نما) کو اف کہنے کی مجال کسے ہے! ادھر افغانستان میں ذمہ داران کا عالم یہ ہو کہ خوشی میں طالب نے فائرنگ کردی تو امیر رو دیے۔ ’ کس بات پر فائرنگ کر رہے ہو؟ کس کو قوت دکھا رہے ہو؟ اللہ کا خوف کرو۔ اس کے سامنے سجدہ کرو۔ آہ وزاری کرو۔ اس نے ہم پر اتنا بڑا رحم کیا۔ اس قوم پر رحم کیا۔ خوشی تب ہوگی جب ہم اپنے اوپر اور عوام پر شریعت الٰہی اور اسلامی عدل نافذ کریںگے۔ یہ وقت خالق اور مخلوق کے سامنے عاجزی اختیار کرنے کا ہے۔‘ چھوٹی چھوٹی کوتاہیوں پر سرکاری اہلکاروں پر ذمہ داران گرفت کرتے ہیں۔ ملّا سراج الدین حقانی نے تنبیہہ کی کہ ہم بازار میں رکے ہوئے تھے تو ہم نے دیکھا طالبان کی گاڑیاں تیزی کے ساتھ بازار کے درمیان سے گزر رہی تھیں۔ بازار میں موجود لوگوں کو تکلیف دی گئی۔ انہوںنے تاکید کی کہ طالبان بلاضرورت گاڑیوں میں نہ گھومیں۔ تواضع سے رہیں۔ عوام یہ محسوس نہ کریں کہ طالب نے ہم پر جابرانہ حاکمانہ حکومت مسلط کی ہے۔ غریب اور لاچار لوگوں کے ساتھ سختی سے پیش آنا، انہیں تکلیف دینا مجاہدین کے شایان شان نہیں۔ ہمارے ہاں شان کا نشانہ ہی غریب اور عوام الناس بنتے ہیں۔ اسلام آباد میں سی ڈی اے کے ہاتھوں روزگار طلب غریب سبزی پھل والوں کی ریڑھیاں الٹنے کے مناظر عام ہیں تجاوزات کے نام پر۔ اور حکومتی سرکاری تجاوزات؟ کسی دن تیونس کے ریڑھی بان کی ریڑھی الٹنے والا انقلاب آپ کو بھی نہ لے ڈوبے۔
امراء، رئوسا کے تجاوزات جو اعلیٰ ترین سطح سے سپانسر ہوتے ہیں ملاحظہ ہوں۔ لینڈ مافیا، 55 کھرب کی سرکاری اراضی پر قابض ہے۔ تین بڑے شہروں میں 1869 ارب کے جنگلات پر ان کا قبضہ ہے۔ سیاسی اشرافیہ (یا بدمعاشیہ) بھی مددگار رہی۔ جب طالبان آئے تو ہمارے سادہ لوح غلامی پر پلے پڑھے (دین سے فارغ) لوگ کہتے تھے کہ انہوںنے سی ایس ایس نہیں کیا حکومت کیسے چلائیںگے! حکومت ڈگریوں، کورس در کورس کے بل پر چلا کرتی تو اشرف غنی کے سرخاب کے پروں میں کیا کمی تھی۔ امریکا کی ترقی یافتہ ترین لیاقت بھری فوج، رپورٹوں کے صفحے کالے کرنے والے امریکی افسران کو کابل ایئرپورٹ کی بدنظمی، افراتفری میں دنیا نے دیکھ لیا! سچائی، امانت ودیانت، نظم وضبط، اخلاص، خیرخواہی اور اللہ کے حضور جواب دہی کی تربیت آج طالبان کی قوت کا راز ہے۔ بدترین دشمن مغرب آج حیران ہوکر طالبان تلے پرسکون افغانستان کو دیکھ رہا ہے۔ باوجودیکہ ان کی بے مثل کامیابی کو تہہ وبالا کرنے والی قوتیں (اسلام کا نام لے کر بھی) کفر کے مقاصد پورے کرنے میں جتی ہوئی ہیں۔
امریکی سینیٹر مٹ رومنی جو امریکی فوجی انخلاء کے طریقے پر شدید ناقد ہیں مسلسل سینہ کوبی کر رہے ہیں۔ ’جو کچھ ہوا اس نے امریکا پر گھڑوں پانی شرمساری کا الٹا دیا۔ زندگی میں اس سے بڑے گڑبڑ گھٹالے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ‘سینیٹر نے بتایا کہ وہ جب افغانستان پہلے پہل گئے تو بیوی نے (فون پر) پوچھا کہ ساڑھے دس گھنٹے کے فرق کا عادی ہونے میں وقت لگے گا۔ سینیٹر نے جواب دیا ساڑھے دس گھنٹے نہیں، ہزار سال کا فرق اہم تر ہے جو ہمارے اور اس آبادی کے درمیان ہے۔ رومنی کا (افغانستان کی پسماندگی پر) تبصرہ، سورۃ الجمعہ اور الاعراف کی آیات یاد دلاتا ہے۔ ’وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود انہی میں سے اٹھایا جو انہیں اس کی آیات سناتا ہے، ان کی زندگی سنوارتا ہے، اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔‘ (الجمعۃ۔ 2)
اس وقت یہودی اپنی علمیت کے زعم اور قومی فخر وغرور میں عربوں کو تحقیر سے ناشائستہ، کمتر، ان پڑھ کہتے (گوئیم) اور سمجھتے تھے۔ اللہ نے بتا دیا لطیف طنز کے پیرائے میں کہ اللہ، بادشاہ کائنات نے رسالت انہی میں رکھ دی۔ تزکیہ (مکمل طرز زندگی کا اجلاپن)، علم حقیقی اور تہذیب وتربیت کے لیے دنیا اب انہی امیوں سے رہنمائی لے گی۔ اور پھر ہوا بھی یہی! ہجرت نبوی کے 100 سال کے اندر شرق تا غرب مسلمان چھا گئے۔ اسی خراسان پر 706ھ میں قتیبہ بن مسلم، چین ترکستان تک فتوحات پہنچاکر امیر مقرر ہوئے۔ وہ عالم گیر سلطنت قائم ہوئی کہ مفتوح قومیں (طالبان جیسے حلم، عفو کے پیکر) مسلمانوں سے محبت رکھتی تھیں۔ انسانوں پر انسانوں کی حرص وہوس بھری ظالمانہ جبری حکمرانی سے نکال کر اللہ کی کریم حکمرانی تلے انہیں لے آئے۔ علاج اس کا وہی اب نشاط انگیز ہے ساقی! دنیا ایک مرتبہ پھر العطش العطش پکا رہی ہے!
ہو تری خاک کے ہر ذرے سے تعمیرِ حرم
خود کو بیگانۂ اندازِ کلیسائی کر

تبصرے بند ہیں.