پنجاب اسمبلی سے خبر آئی کہ اراکین صوبائی اسمبلی اپنی مراعات بڑھانے کے معاملے پر ایک ہو گئے۔ نہ کوئی عثمان بزدار رہا ,نہ حمزہ شہباز ، نہ چوہدری پرویز الہی اور نہ حسن مرتضی سب شیرو شکر ہو گئے۔ ان مراعات میں اضافے کے حوالے سے جو توجیہہ پیش کی گئی وہ مہنگائی تھی۔ لیکن یہ بھول گئے کہ اپنے اللوں تللوں کو پورا کرنے کے لیے تو ان سب نے قانون سازی کے ذریعے اپنی جیبیں بھر لیں لیکن کبھی عوام کو بھی صرف جینے کا حق دینے کے لیے قانون سازی کر لیں۔
پنجاب اسمبلی کی طرف سے ماضی میں اپنے ممبران کی مراعات دینے کی مخالفت کرتے ہوئے ان کی واپسی کا کہا تو اس وقت کے حکومتی اور اپوزیشن اراکین اور سپیکر پنجاب اسمبلی ڈٹ گئے۔ کمبخت اٹھارویں ترمیم آڑے آ گئی۔ لیکن پنجاب اسمبلی نے کبھی اس ترمیم کو عوام کے حقوق کے لیے استعمال نہیں کیا۔ لیکن جب سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی بات آئی تو نہ ان کا بھٹو جاگا، نہ عمران خان کے شفافیت کا دعوی، نہ نواز شریف کے ووٹ کی عزت اور چوہدری صاحبان کا تو نعرہ ہی ہے روٹی شوٹی کھائو تے مٹی پائو۔ ان کے جلسوں، ریلیوں، میڈیا ٹاکس اور شام 7 سے رات 12 بجے تک کے ٹی وی شوز میں یہ عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے میڈیا میڈیا کھیلتے ہیں۔ اگر اس وقت انہیں دیکھ لیں تو لگتا ہے ان سے زیادہ ایک دوسرے کا ازلی دشمن ہے ہی کوئی نہیں اور اگر انہیں اس دوران زبان و دہن کے علاوہ ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت ہو تو یہ مخالف سیاسی نسل ہی ختم کر دیں۔ لیکن یہ سب ٹوپی ڈرامہ ہے اور جب مراعات کی بات آتی ہے تو یہ سب ماں جائے لگتے ہیں آپ منافقت کی انتہا بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے کبھی بھی عوام کے مفاد کی آواز اس شدت سے نہیں اٹھائی جس شدت سے یہ اپنے مفاد کے لیے یکجا ہوتے ہیں۔ یہ کبھی عوام کے درد کے لیے بھی اس طرح اکٹھے نہیں ہوئے جس طرح اپنے مفاد کے لیے۔ گو کہ ان کا ہمیشہ ہدف ان کے مخالفین ہوتے ہیں اور حکومت پر تنقید بھی اپنے کرپشن مقدمات، سیاسی وجوہات یا اپنے قائدین کی بریت وجہ سے کرتے ہیں۔ عوام کی بات ان کے منہ سے کم ہی نکلتی ہے اور اگر نکلے بھی تو وہ بھی مخالفین کی تنقید کے زمرے میں ہوتی ہے۔
ملکی اور پنجاب کی معیشت کا برا حال ہے لیکن پنجاب اسمبلی نے اس مشکل دور میں بھی اندھا بانٹے ریوڑیاں کے مصداق عوام کی بجاے اپنی پہلے سے ہی اوور لوڈڈ اور بدنما توندوں کو مزید بھرنے پر ہی توجہ دی۔ ایسا کرتے ہوے نہ ان کا بھٹو زندہ ہوا، نواز کے ووٹ کی عزت یاد آئی اور نہ عمران خان کی شفافیت۔سپیکر پنجاب اسمبلی کے بارے میں کیا بات کریں ان کا تو سیاسی موٹو ہی یہی ہے۔
یہ آج کا قصہ نہیں ہے جب سے پاکستان بنا ہے یہ بظاہر سیاسی مخالف اپنے مفاد کے لیے ہمیشہ ایک پیج پر نظر آئے۔ رہ گئے عوام تو ہماری کیا حیثیت اندازہ لگائیں ایوب خان کے زمانے میں انکے سگے بھائی سردار بہادر خان قومی اسمبلی میں لیڈر اف اپوزیشن تھے۔ ہم نواز شریف ، شہباز شریف ، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان، گجرات کے چوہدریوں اے این پی کے ولی خان خاندان کی وراثتی سیاست کو رو رہے ہیں جبکہ اس سے بڑا مذاق ڈکٹیٹر ایوب خان کے دور میں ہوا جہاں ان کا اپنا بھائی اپوزیشن لیڈر تھا۔ اس کی ہم ایک اور مثال دے سکتے ہیں جب مشرف دور میں مولانا فضل الرحمان ملی بھگت سے اپوزیشن لیڈر بنے تھے۔
عوام کو دکھانے کے لیے سردار بہادر خان اپنے بھائی ایوب خان کے خلاف زوردار تقریریں بھی کرتے تھے۔ اس حوالے سے ایک بات اس دور میں میڈیا کی زینت بنی کہ جب سردار بہادر خان کی تقریریں ان کی والدہ کے کانوں تک بھی پہنچیں تو ماں تو ماں ہوتی ہے وہ بھی ان بھائیوں کے اختلافات سے پریشان ہوجاتی تھیں۔ ایک دن انہونے اپنے بیٹے ایوب خان سے ایک تاریخی بات کہی کہ ’’تم دونوں بھائی آپس میں لڑنے کی بجائے یہ ملک آپس میں بانٹ کیوں نہیں لیتے ‘‘۔ آج کی پنجاب اسمبلی بشمول عثمان بزدار، حمزہ شہباز شریف، پرویز الٰہی اور حسن مرتضی نے ڈکٹیٹر ایوب کی والدہ کی اس تجویز پراسطرح عمل کیا کہ جب مفاد کی بات آئے تو تمام اختلافات سب سے اونچے طاق میں رکھ کر مراعات کے لیے اکٹھے ہو کر سب کچھ آپس میں بانٹ لیا۔ عوام تب بھی بھاڑ میں تھے اور آج بھی۔ مجھے سب سے زیادہ افسوس حسن مرتضی پر ہے کہ وہ اس اسمبلی میں بھٹو شہید کی واحد آواز تھا لیکن وہ بھی مراعات کے ریلے میں بہہ گیا۔
اکثر قارئین گلہ کرتے ہیں کہ ان کے وٹس ایپ پر بھیجے گئی آرا ء کو میں اپنے کالم میں جگہ نہیں دیتا۔ ان کے لیے عرض ہے کہ ہر کالم پر دو تین سو تبصرے اور آرا موصول ہوتی ہیں۔ اب ہر ایک کو جگہ دینا ممکن نہیں اس سے کالم انہی آرا ء سے بھر جاے گا۔ البتہ آپ کے بار بار اسرار پر چنیدہ آراء شامل کی جایں گی۔
قارئین کالم کے بارے میں اپنی رائے اس وٹس ایپ 03004741474 پر بھیجیں۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.