کورونا وائرس کی نئی قسم نے خطرے کی گھنٹی بجادی ، اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے ؟

200

لاہور: جنوبی افریقہ میں کورونا وائرس کی نئی قسم سامنے آنے کے بعد دنیا بھر میں ایکبار پھر سے خطرے کی گھنٹی بج  اٹھی ہے ۔ جنوبی افریقہ کے جنگلات میں پیدا ہونے والے کورونا وائرس کے نئے ویرئنٹ کو  "اومی کرون”  کا نام دیا گیا ہے ۔  اومی کرون کیا ہے اس کی علامات کیا ہیں اور اس سے بچاؤ کے لئے کیا احتیاطی تدابیر کرنا ہوں گی ۔ ۔۔ ؟

  سال 2019 اور 2020 میں چین کے شہر ووہان سے نکلنے والے کورونا وائرس نے دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا ۔ اس وائرس  کی وجہ سے پوری دنیا میں لائف سٹائل ہی تبدیل ہوگیا تھا جوں توں کرکے کم وبیش دوڈھائی سال کی جدوجہد سے ماہرین صحت اور سائنسدانوں نے اس کو کنٹرول کرنے کے لئے چند ویکسئن ہی بنائی تھیں کہ جنوبی افریقہ سے ” اومی کرون”  نامی کورونا وائرس کی نئی نسل سامنے آگئی ہے جس سے عالمی ادارہ صحت سمیت دنیا کے سبھی بڑے ملکوں میں تشویش کی لہر پیدا ہوگئی ہے ۔

ماہرین کے مطابق  جنوبی افریقہ میں دریافت ہونے والی کورونا وائرس کی نئی قسم کے بارے میں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ اب تک کی سب سے زیادہ خطرناک اورمہلک قسم ہے اوراومی کرون پر اس وقت موجود کوئی بھی ویکسئن مکمل طورپر اثر نہیں کرتی بلکہ کرونا کی یہ قسم ویکسئین شدہ افراد کو بھی نشانہ بنا سکتی ہے ۔

 ابتدائی طور پراس نئے ویرینٹ کے کیسز جنوبی افریقہ کے ایک گنجان آباد صوبے خاؤتنگ میں سامنے آئے ہیں، اس کا پہلا کیس 22 نومبر کو رجسٹر ہوا۔لیکن جب تک سائنسدانوں کو کورونا کی اس نئی قسم کا پتہ چلا یہ جنوبی افریقہ سے باہر بھی نکل چکا تھا ۔ اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق اس ویرینٹ کے کیسز جنوبی افریقہ کے علاوہ بوٹسوانا، ہانگ کانگ ، بیلجیم اور اسرائیل میں بھی سامنے آچکے ہیں جبکہ ممکن ہے کہ یہ دنیا کے اور ممالک میں بھی ہو لیکن اسے اب تک پہچانا نہ جاسکا ہو۔

 ماہرین اس کو خطرناک اس لئے قرار دے رہے ہیں کہ اس میں پھیلنے کی بہت زیادہ صلاحیت ہے اور اس پر ویکسیئن کا اثر بھی نہیں ہوتا ۔ اس ویرینٹ میں ابتدائی کورونا وائرس کے مقابلے میں تقریباً 50 تبدیلیاں ہیں جن میں سے 30 تبدیلیاں اسپائیک پروٹین میں ہے۔اب تک بنائی جانے والی ویکسینز وائرس کے اسپائیک پروٹین پر  ہی حملہ کررہی تھیں تاکہ وائرس کو انسانی خلیوں میں داخل ہونے سے پہلے ہی تباہ کیا جاسکے۔ اسپائیک پروٹین میں اتنی زیادہ تبدیلیوں کی وجہ سے دستیاب ویکسینز کا اس وائرس پر اثر 40 فیصد تک کم ہوجائے گا۔

ماہرین کہتے ہیں کہ وائرس جتنے زیادہ لوگوں میں پھیلتا ہے اس میں اتنی ہی زیادہ تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، اب تک کورونا وائرس ہزاروں کی تعداد میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں کر چکا ہے جن کا کوئی خاص اثر نہیں پڑتا البتہ اسپائیک پروٹین میں ہونے والی تبدیلی اہم ہوتی ہے جس کی وجہ سے وائرس کا نیا ویرینٹ وجود میں آتا ہے۔

کورونا وائرس کی نئی قسم کی علامات کیا ہیں ۔۔۔ ؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے اس نئے ویرینٹ کی علامات  کافی حد تک وہی ہیں جو اس سے قبل دیکھنے میں آئی ہیں یعنی بخار، کھانسی، تھکن، ذائقہ چلا جانا، سونگھنے کی حس کا ختم ہونا اور زیادہ سنگین حالت میں سانس لینے میں دشواری اور سینے میں تکلیف وغیرہ شامل ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس ویرینٹ کی علامات دیگر ویرینٹ سے زیادہ شدید ہوسکتی ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ نئے ویرینٹ کےسبب دسمبر کے وسط تک دنیا میں کورونا کی چوتھی لہر سامنے آسکتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی رائے کیا ہے ۔۔۔ ؟

کورونا وائرس کے نئے ویرینٹ پر سنجیدگی سے غور کیلئے عالمی ادارہ صحت کے ٹیکنیکل ورکنگ گروپ کا جائزہ اجلاس ہوا۔ترجمان عالمی ادارہ صحت نے کہا کہ کورونا کے نئے ویرینٹ میں بڑی تعداد میں تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ یہ دیکھنے میں کچھ ہفتے لگیں گے کہ نئے ویرینٹ کے کیسز میں استعمال ہونے والی ویکسین نے کیا اثر دکھایا۔ عالمی ادارہ صحت نے نئے ویرینٹ کو خطرے کی گھنٹی کہا اور اسے کورونا وائرس کا پانچواں ویرینٹ قرار دیا۔

کورونا کی نئی قسم سے کیسے بچ سکتے ہیں ۔۔۔ ؟

 کورونا وائرس کے بنیادی ایس او پیز یعنی ماسک پہننا، ہاتھ کو وقفے وقفے دے دھونا، سماجی فاصلے وغیرہ پر عمل کرنا ہوگا۔ یہ تمام تر احتیاطیں اس وقت تک لازمی ہوں گی جب تک اس ویرینٹ کیخلاف ویکیسن کی اثر پذیری کے حوالے سے ڈیٹا سامنے نہیں آجاتا۔ اگر موجودہ ویکسینز اس ویرینٹ کے خلاف بھی مؤثر ثابت ہوئیں تو جلد اس پر قابو پالیا جائے گا ورنہ سائنسدانوں کو نئے وائرس کے حساب سے ویکسین میں بھی تبدیلیاں کرنی ہوں گی۔

تبصرے بند ہیں.