کرنسی نوٹوں پر علامہ اقبال کی تصویر ہونی چاہیے

73

علامہ اقبال;231; مفکر اسلام ہی نہیں تھے بلکہ ایک فلسفی اعلیٰ درجے کے درویش صفت انسان مصور پاکستان اور ہمارے قومی شاعر بھی تھے ۔ پاکستان انکے خواب کی ایک تعبیر ہے ۔ برصغیر کے مسلمانوں کو اپنی الہامی شاعری کے ذریعے ہندووَں اور انگریزوں کی دوہری غلامی سے نجات دلانے کیلئے جداگانہ قومیت کا احساس اجاگر کیا اور ایک الگ وطن کا تصور دیا ۔ صرف اس پر ہی اکتفاذ نہ کیا بلکہ اپنے خطبہ الہ آباد میں مسلمانوں کی ایک الگ مملکت کا پورا نقشہ بھی پیش کر دیا ۔

تحریک انصاف کے رہنما، دانشور اور علامہ اقبال;231; کے مداح، محترم فیصل انور کا کہنا ہے کہ جس طرح ہم قائد اعظم محمد علی جناح;231; کو نہیں بھلا سکتے ۔ اسی طرح ہم اپنے قومی شاعر ، مصور پاکستان علامہ اقبال;231; کی خدمات کو بھی فراموش نہیں کر سکتے ۔ چاہیے تھا کہ کرنسی نوٹوں پر قائد اعظم ;231;کی تصویر کے ساتھ علامہ اقبال;231; کی بھی تصویر ہوتی جیسا کہ برطانیہ کے پاوَنڈز کے نوٹوں پر دو دو، تین تین بادشاہوں کی تصویریں چھپی ہوتی ہیں ۔ اور امریکہ کے ڈالرز کے نوٹوں پر بھی ایک سے زائد حکمرانوں کے فوٹو لگے ہوتے ہیں ۔ اس لیے ہم بھی پاکستان کے کرنسی نوٹوں پر حضرت قائد اعظم ;231;کی تصویر کے ساتھ حضرت علامہ اقبال;231; کی تصویر بھی چھپوائیں اور کرنسی نوٹوں پر حضرت قائد اعظم;231; کی شان میں علامہ اقبال;231; کا کوئی اچھا سا شعرلکھیں ، مثلا:

نگہ بلند، سخن دلنواز، جان پرسوز

یہی ہے رخت سفر میر کارواں کیلئے

اسی طرح حضرت قائد اعظم;231; کا مقولہ’’ ایمان، اتحاد ،تعاون، تنظیم’’ بھی چھاپنا چاہیے ۔ علامہ اقبال;231; کا شعربھی کرنسی نوٹوں کی زینت بن سکتا ہے کہ:

سبق پھر پڑھ صداقت کا ،عدالت کا، شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

اسی طرح ہمارے پاسپورٹ پر بھی حضرت قائد اعظم;231; اور حضرت علامہ اقبال;231; کی تصویریں بھی ہونی چاہئیں ۔

ہم محترم فیصل انور صاحب کی اس تجویز سے پوری طرح متفق ہیں کہ علامہ اقبال;231; کی تصویر کرنسی نوٹوں پر چھاپنی چاہیے ۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے دور حکومت میں فوجی اور عوامی دفاتر میں قائد اعظم ;231; کی تصویر کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال;231; کی تصویر لگانے کا بھی حکم دیا تھا ۔ اس وقت سے آج تک علامہ اقبال;231; اور قائد اعظم;231; کی تصاویر دفاتر کی زینت بنی ہوئی ہیں ۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے بھی اعلان کیا ہے کہ 2022 کو علامہ اقبال;231; کے یادگار سال کے طورپر منایا جائے گا اور یہ سلسلہ اگلے دس سال تک جاری رہے گا ۔ ہم عمران خان صاحب سے اپیل کرتے ہیں کہ کرنسی نوٹوں پر قائد ;231; کی تصویر کے ساتھ علامہ;231; کی تصویر بھی چھاپی جائے ۔

حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ;231; نے الٰہ آباد کے جلسہ عام میں برصغیر ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن بنانے کا تصور پیش کیاکہ ہندوستان کے جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ، ان علاقوں کو آزاد کر کے مسلمانوں کو دے دیا جائے تاکہ وہ وہاں اپنے مذہب اور اپنی ثقافت کے مطابق اپنا وطن اور اپنے قرآن و سنت کے مطابق اپنا نظام حکومت چلا سکیں ۔ ان کے تصور کو مسلم لیگ نے عملی جامہ پہنا کر پاکستان حاصل کیا ۔ اس عظیم انسان نے اپنے کلام اور اپنے تصور کے ذریعے ہ میں دنیا میں باعزت رہنے اور اسلام اور اپنی ثقافت کے مطابق زندگی گزارنے کا سبق دیا ۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ہم نے ان کی قربانیوں کو بھلا دیا ۔ ہم نے علامہ ;231; کی خدمات کا قابل قدر صلہ نہیں دیا ۔

علامہ اقبال;231; نے ایک درد مند انسان کی حیثیت سے قائداعظم محمد علی جناح;231; کو جو انگریز اور ہندو کی غلامی میں جکڑے ہوئے مسلمانوں کی حالت زار سے مایوس ہو کر میں مستقل طور پر لندن چلے گئے تھے ،خط لکھ کر واپس آنے اور اسلامیان ہند اور مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے کیلئے قائل کیا ۔ عظیم قائد محمد علی جناح;231; نے عملی جدوجہد سے علامہ اقبال;231; کے تصور پاکستان کو صرف سات سال کے مختصر عرصے میں اپنی پْر امن جدوجہد کے ذریعے اسلامیان ہند کی معاونت سے 14 اگست 1947ء کو پاکستان قائم کر کے انقلاب برپا کر دیا ۔

ہندوستان کی تاریخ میں 1930 اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ محمد علی جناح;231; دسمبر1930 میں ہندوستان کی سیاست سے مایوس ہو کر ملک چھوڑ کر انگلستان میں جا کر آباد ہو گئے تھے ۔ مگر اسی سال مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر علامہ محمد اقبال;231; کے نام سے ایک سورج طلوع ہوا ۔ ان کا1930 کا خطبہ الٰہ آباد بہت اہم ہے جس میں انہوں نے ایک تجویز پیش کی بلکہ یہ گویا ایک پیش گوئی تھی کہ ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک مسلمان ریاست قائم ہو گی ۔ علامہ اقبال کے الفاظ تھے:

’’ میں پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان کو متحد ہو کر ایک واحد ریاست کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہوں ، جس کی اپنی حکومت ہو خواہ سلطنت برطانیہ کے تحت یا اس سے الگ اور مجھے نظر آ رہا ہے کہ یہ متحدہ شمال مغربی مسلم ریاست کم از کم شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے تقدیر مبرم ہے ۔ لہٰذا میں ہندوستان اور اسلام کے بہترین مفاد میں ایک الگ مسلم ریاست کے بنانے کا مطالبہ کرتا ہوں ۔ ‘‘

علامہ اقبال;231; دوسری گول میز کانفرنس میں شر کت کیلئے جب انگلستان تشریف لے گئے تو وہاں قائداعظم;231; سے اس اہم مطالبہ یعنی ’’جداگانہ اسلامی ریاست‘‘ کے تصور پر فکر انگیزگفت و شنید ہوئی ۔ علامہ اقبال;231; نے 28 مئی 1937ء کو قائد اعظم;231;کے نام خط میں تحریر کیا:

’’ عرصہ دراز تک اسلامی قانون کے مطالعہ کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اس قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کر دیا جائے تو کم از کم معاشرے کے ہر فرد کو رزق کی ضمانت مل سکتی ہے‘ لیکن مسلمانوں کی ایک یا ایک سے زیادہ آزاد مملکتوں کے بغیر اسلامی اقدار کا نفاذ اور ان کا ارتقا ناممکن ہے ۔ ان مقاصد کے حصول کیلئے برصغیر کی ازسرِنو تقسیم اور اکثریتی علاقوں میں آزاد مملکت یا مملکتوں کا قیام از بس ضروری ہے ۔ ‘‘

قدرت کو مسلمانوں کی بہتری منظور تھی ۔ اقبال;231; اور دوسرے اکابرین کے اصرار پر قائداعظم ;231;ہندوستان واپس آ گئے اور 4 مارچ 1934ء کو مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے ۔ یوں لیگ کے تنِ مردہ میں جان پڑ گئی اور برصغیر کے مسلمانوں کے دن پھرنے کا آغاز ہو گیا ۔ 6 مئی 1936ء کو حضرت قائد اعظم ;231; اقبال;231; سے ملنے ’’جاوید منزل‘‘ تشریف لائے ۔ آپ نے اقبال;231; کو مسلم لیگ کے پارلیمانی بورڈ کا رکن بننے کی دعوت دی جسے اقبال;231; نے شدید علالت کے باوجود بخوشی قبول کر لیا ۔ 12 مئی کو اقبال;231; دوبارہ پنجاب مسلم لیگ کے صدر مقرر ہوئے ۔ اقبال;231; کے تصورات اور قائد اعظم;231; کی ان تھک کوششوں سے برصغیر کی تقسیم ناگزیر ہو گئی اور پاکستان کے معرض وجود میں ;200;نے کی راہ ہموار ہوگئی ۔

تبصرے بند ہیں.