حکومتی برتری اورآئینی ترامیم

86

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اپوزیشن کے 203 کے مقابلے میں 221 ووٹوں حکمران اتحادکو 33بل پاس کر انے میں کامیابی ہوئی ہے پاس ہونے والے بلوں میں ای وی ایم کے استعمال، سمندر پار پاکستانیوں کوووٹ اور گرفتار بھارتی جاسوس نیوی کمانڈر کلبھوشن کو اپیل کا حق ینے کے بل شامل ہیں پارلیمنٹ سے بل پا س کرانا غیر آئینی یا غیر قانونی عمل نہیں البتہ اختیار کیے گئے حکومتی طریقہ کارکی تحسین نہیں کی جا سکتی چاہیے تو یہ تھا کہ ترامیم کی تفصیلات پہلے کمیٹیوں کو بھیجی جاتیں جہاں اراکین کھل کر بحث ومباحثہ کرتے تاکہ قانون کا حصہ بننے سے قبل ہی سقم دور کر لیے جاتے مگر قومی اسمبلی میں حکومت کو سادہ اکثریت حاصل ہے اسی وجہ سے ہر بار حکومت کو قانون سازی میں مشکلات پیش آتی ہیں لیکن پارلیمنٹ میں بحث کا موقع نہ دے کر کمزوری کا مظاہرہ کیا گیا ملکی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا خیال تھا کہ قانون سازی کے عمل سے شاید حکومتی ممبران کی کچھ تعداد شریک نہ ہو جس کے اشارے بھی مل رہے تھے لیکن پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اندازوں کے برعکس اپوزیشن کے آٹھ جبکہ دوحکومتی ممبر غیر حاضر رہے جس سے ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ ملکی سیاست کے بارے صدفی صد درست اندازہ لگانا محال ہے پی ٹی آئی کے ناراض رہنما عامر لیاقت حسین کے بقول ہم آئے نہیں لائے گئے ہیں اور لانے والے اہتمام کے ساتھ لائے ہیں اگر واقعی عملی طور پر ایسا ہوا ہے تو سمجھنا مشکل نہیں کہ اِدارے ابھی سیاسی عدمِ استحکام نہیں چاہتے باوجود اِس کے کہ ملک میں مہنگائی و بے روزگاری نے عام آدمی کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔
غیر ملکی ٹی وی کو انٹرویو کے دوران وزیرِ اعظم عمران خان نے کسی بیرونی طاقت کو اڈے دینے یا سرزمین استعمال کرنے کی اجازت کے متعلق سوال کا جواب ہاں میں دینے کے بجائے ایبسلوٹلی ناٹ کہہ کربہت سوں کو حیران کردیا تھا جسے حکومت نواز حلقے وزیرِ اعظم کی ہمت و جرأت قرار دیتے ہیں لیکن کلبھوشن کو اپیل کا حق دینے کا بل پاس کرنے سے اپوزیشن کی طرف سے حکومت پر دباؤ بڑھے گا اور عوام میں حکومتی عمل سے ناپسندیدگی کی لہر جنم لے سکتی ہے حالانکہ نواز شریف دور میں ہی عالمی عدالتِ انصاف کے روبرو پاکستان ایسا وعدہ کر چکا ہے لیکن عوامی ناپسندیدگی کے خدشے کی بنا پر قانون سازی نہ کرسکے اب حکومت نے بظاہر عالمی عدالت سے کیا وعدہ پورا کیاہے گرفتار جاسوس کواپیل کا حق دینے سے مستقبل میں حکومتی جماعت کی مقبولیت میں کمی آسکتی ہے۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومت نے تمام اہداف حاصل کر لیے اور برتری ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے لیکن شکوک و شبہات کی فضا مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی اپوزیشن کا موقف ہے کہ سپیکر نے گنتی میں ہیرا پھیری کی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ اپوزیشن کو حالات کا اندازہ لگانے میں غلطی ہوئی ہے پرائیویٹ ممبرز ڈے میں دو بلوں پر حکومت کو شکست  دینے سے اپوزیشن کوحوصلہ ملا لیکن مزید تیاری نہ کی گئی جبکہ حکومت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے آپشن کا انتخاب کرتے
ہوئے ہوم ورک جاری رکھااور کامیابی کا یقین نہ ہونے تک اجلاس ملتوی کرنے سے بھی گریز نہ کیاآئینی اصلاحات ای وی ایم اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے حوالے سے حکومت نے سپیکر کی وساطت سے اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دی لیکن اپوزیشن نے جوابی خط میں ترامیم کو اتفاقِ رائے سے پاس کرنے  کی شرط پرہی مذاکرات پر رضا مندہونے کو مشروط کردیا جس سے بات آگے نہ بڑھ سکی کیونکہ حکومت کسی حوالے سے بھی اپوزیشن کی کوئی شرط تسلیم کرنے پر تیارنہیں سپیکر اور اپوزیشن کے درمیان جاری بات چیت سے حکومت کو البتہ اتنا وقت مل گیاکہ اتحادیوں کو راضی اور پرویز خٹک جیسے لوگوں کو مطمئن کرسکے جس کا اپوزیشن ادراک نہ کر سکی اسی لیے حکومت برتری ثابت کرنے اور قوانین منظوری میں کامیاب ہو ئی اب اپوزیشن نے منظورشدہ بل چیلنج کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کمیٹی بنا دی ہے لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عدالتیں قوانین کی تشریح ضرور کرتی ہیں مگر قانون سازی کے حوالے سے پابندیاں نہیں لگا سکتیں۔
انتخابی عمل میں ترمیم کے باوجود یہ بات وثوق سے کہنا مشکل ہے کہ ای وی ایم کو انتخابی عمل کا حصہ بنانے کاحکومتی مقصد باآسانی پورا ہو جائے گا کیونکہ ایک طرف اگر اپوزیشن کو تحفظات ہیں تو الیکشن کمیشن بھی پوری طرح مطمئن نہیں بار ایسوسی ایشنوں میں بھی اِس حوالے سے مخالفت اور بے اطمینانی موجودہے عملے کی تربیت اور انٹرنیٹ کی فراہمی کوممکن بنانا ہے انہی دشواریوں کے پیشِ نظر سیکرٹری الیکشن عمر حمیدخان نے قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ مشینوں کے استعمال میں چیلنجز درپیش ہیں اِس لیے قانون پاس ہونے کے باوجود الیکشن کمیشن آئندہ الیکشن ای وی ایم کے مطابق کرانے کا پابند نہیں بلاول بھٹو نے اپنے خطاب میں آئندہ انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے شہباز شریف بھی ای وی ایم کو شیطانی مشن قرار دیتے ہیں اِن حالات میں پہلی بار انتخابات سے پہلے ہی دھاندلی پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوتا دکھائی دیتا ہے اِس لیے عملی اقدامات سے پہلے حکومت کو تحفظات دور کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔
بدقسمتی سے حکومت اور اپوزیشن دنوں ہی عوامی مشکلات دور کرنے کے بجائے داؤ لگانے پر توجہ مرکوز رکھتی ہیں نئی آئینی ترامیم پاس کرنے میں بھی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی سوچ کارفرما ہے جب حکومتی بینچوں پر بیٹھے اراکینِ پارلیمنٹ میں ای وی ایم کے حوالے سے بے اطمینانی ہے اپوزیشن بھی خفاہے توقانون سازی سے قبل رائے عامہ کو حق میں کرنے پر توجہ کیوں نہیں دی گئی اب  حالات سے ایسے اِشارے ملتے ہیں کہ مستقبل میں حکومت اور اپوزیشن میں موجود تناؤ اور محاذآرائی میں اضافہ ہوگاای وی ایم کے استعمال میں جلد بازی سے انتخابی نتائج پر نہ صرف شکوک و شبہات بڑھیں گے بلکہ اوورسیز کوووٹ کا حق دینے سے بھی افہام وتفہیم کے بجائے تلخی میں ہی اضافہ ہوگا۔
اوورسیز کو ووٹ کا حق دینے کا مطالبہ کئی برس سے جاری ہے مگر حکومتی جلد بازی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اِس فیصلے میں خلوص نہیں بدنیتی ہے اِس وقت بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی تعداد سوا کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے تارکینِ وطن کی اکثریت موجودہ حکومت کی حامی ہے اسی لیے حکومت کوشاں ہے کہ جلد از جلد تارکین وطن کی انتخابی عمل میں شرکت یقینی بنائی جائے اُسے تارکین وطن سے نہیں اُن کے ووٹوں سے غرض ہے نئی انتخابی ترمیم سے وہ کسی جماعت کی فتح و شکست میں فیصلہ کُن کردار کے قابل ہو گئے ہیں لیکن اِس طرح انتخابات میں غیر ملکی مداخلت بڑھنے کا خدشہ بھی رَد نہیں کیا جا سکتا ترامیم سے قبل مشاورت سے گریز اور عجلت میں منظوری سے حکومت کی اپنی ساکھ متاثر ہوئی ہے اگر ترامیم سے مشاورت کی جاتی تو آج حکومت یوں دفاعی پوزیشن پر نہ ہوتی کیونکہ الیکٹرونک ووٹنگ مشینیں امریکہ، آسٹریلیا، بھارت، برازیل، بلجیم، فلپائن، وینزویلا اور ایسٹونیا میں استعمال کی جارہی ہیں یہ کوئی عجوبہ نہیں پاکستان یہ مشینیں استعمال کرنے والا دنیا میں پہلا نہیں بلکہ9واں ملک ہے اِ س لیے تنقید کا جواز نہیں لیکن عجلت میں قانون سازی کے ذریعے برتری کے سوا حکومت کے ہاتھ کچھ نہیں آیا آئینی ترامیم میں حکومتی خلوص کے حوالے سے شک کی فضا موجود ہے جسے ختم کرنا کسی اور کا نہیں حکومت کا کام ہے۔

تبصرے بند ہیں.