عالمی مہنگائی: ہاتھیوں کی لڑائی

68

کہتے ہیں کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں نقصان گھاس کا ہوتا ہے جو ان کے قدموں تلے آ کر کچلی جاتی ہے۔ اس وقت غریب اور ترقی پذیر ممالک کی یہی پوزیشن ہے کہ وہ دو بڑے کھلاڑیوں کی آپس کی لڑائی میں بے گناہ پس رہے ہیں۔ اس وقت عالمی مہنگائی کا تعلق پٹرول کی قیمتوں سے ہے۔ پٹرول کی عالمی معیشت میں وہی اہمیت ہے جو انسانی جسم میں خون کی ہوتی ہے۔ اس سے معیشت کا پہیہ چلتا ہے۔ مارچ 2020ء میں کرونا کے آغاز پر آپ کو یاد ہو گا کہ پٹرول کی قیمتیں 20 ڈالر فی بیرل سے بھی نیچے آ گئی تھیں جس سے تیل برآمد کرنے والے ممالک کی آمدنی زیرو ہو گئی لیکن آپ کو پتہ ہے کہ دنیا میں پٹرول کی منڈی کا سب سے بڑا Cartel وہ کثیر ممالک اتحاد ہے جسے اوپیک کہا جاتا ہے جس کی اجارہ داری سعودی عرب کے ہاتھ میں ہے۔ سعودیہ نے اس تنظیم کو اس بات پر قائل کر لیا کہ دنیا بھر میں تیل کی قیمت بڑھانے اور اپنے خسارے پورے کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ یومیہ پیداوار کو یومیہ ڈیمانڈ سے کم رکھا جائے جس سے بتدریج تیل کی قیمتیں اوپر اٹھیں گی یہ ایک سیاسی فیصلہ تھا جس میں روس نے سعودی عرب کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ یہ کاروباری جنگ کے ساتھ ساتھ سیاسی جنگ بھی تھی کیونکہ اس سے عالمی منڈی میں امریکہ کے مفادات پر سب سے زیادہ زد پڑتی تھی۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو امریکہ سے اپنے سیاسی حساب چکانا تھے۔
یہ کہانی کووڈ کے بعد شروع ہوتی ہے جب دنیا کرونا سے ریکوری کے بعد حالات بہتر ہونا شروع ہوئے جیسے جیسے ڈیمانڈ بڑھتی گئی سپلائی کم ہوتی گئی جس کی وجہ سے تیل کی منڈیوں میں قیمت میں روزانہ اضافہ ہوتا چلا گیا جو 20 ڈالر سے 90 ڈالر تک چلا گیا۔ اس نے پوری دنیا کی معیشت کو ہلا کے رکھ دیا۔ عالمی معیشت جو پہلے ہی کرونا کی کساد بازاری کا شکار تھی تیل کی قیمت سے افراط زر کا شکار ہو گئی یہ کہانی اتنی سادہ نہیں ہے جتنی بظاہر نظر آتی ہے۔ اس کے پیچھے سعودی عرب اور روس کا ہاتھ ہے جو امریکہ کو سبق سکھانا چاہتے ہیں یہ گویا ہاتھیوں کی لڑائی ہے جس میں پاکستان جیسے کمزور ممالک خواہ مخواہ مہنگائی کی چکی میں پس کر آٹا بن گئے ہیں۔
پس منظر یہ ہے کہ جوبائیڈن نے ڈیموکریٹ پارٹی کی طرف سے صدر بن کر محمد بن سلمان کو سبق سکھانے کی خاطر اس سے بے اعتنائی برتنے کا آغاز کیا۔ بائیڈن کا مسئلہ یہ تھا کہ محمد بن سلمان ان کے مخالف ڈونالڈ ٹرمپ کے بہت قریب تھا۔ بائیڈن کو یہ بھی مسئلہ تھا کہ
ان کی پچھلی حکومت میں باراک اوباما نے بطور امریکی صدر ایران کے ساتھ جو صلح کا معاہدہ کیا تھا، ٹرمپ نے محمد بن سلمان کے کہنے پر وہ معاہدہ توڑ دیا۔ دوسرا اعتراض یہ تھا کہ 2018ء میں محمد بن سلمان پر الزام تھا کہ اس نے امریکی صحافی جمال خشوگی کو ترکی میں قتل کرا دیا کیونکہ خشوگی امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شہزادے کے خلاف کالم لکھتاتھا۔ ڈیمو کریٹ پارٹی کو اعتراض تھا کہ ٹرمپ نے امریکی شہری کے قتل پر سعودی عرب کو سزا کیوں نہیں دی۔
بائیڈن نے بر سر اقتدار آتے ہی سب سے پہلے تو ایران کے ساتھ معاہدے کی تجدید کا اعلان کیا دوسرے نمبر پر یمن میں جاری سعودی عرب کی جنگ میں سعودی عرب کی حمایت بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ تیسرا انہوں نے محمد بن سلمان پر جمال خشوگی کے قتل کا الزام بحال کر دیا جس کے بعد بائیڈن نے کئی مواقع پر اعلان کیا کہ وہ محمد بن سلمان سے نہ ملاقات کریں گے نہ فون کریں گے۔ گزشتہ ماہ ٹاؤن ہال میں سی این این سے بات کرتے ہوئے بائیڈن نے کہا کہ پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہمارے Foreigh policy initiative کی وجہ سے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مڈل ایسٹ میں بہت سے لوگ میرے ساتھ بات کرنا چاہتے ہیں مگر میرا نہیں خیال کہ میں ان سے بات کروں گا۔ ان کا واضح اشارہ محمد بن سلما ن کی طرف تھا۔ بائیڈن نے ٹرمپ دور میں بھی ٹرمپ کے ساتھ مکالمہ میں محمد بن سلمان کا حقہ پانی بند کرنے اور اسے Isolate کرنے کا مشورہ دیا تھا مگر 2017ء میں ٹرمپ نے اس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سعودی عرب کا تاریخی دورہ کیا تھا اس وقت سعودی عرب نے ٹرمپ کی سفارش پرتیل کی پیداوار میں اضافہ کیا جس سے قیمتیں نیچے آ گئی تھیں۔
مگر اب وقت بدل گیا ہے امریکہ سعودی عرب کو کہہ رہا ہے کہ پیداوار بڑھائیں مگر محمد بن سلمان نے ماننے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ امریکہ نے یمن اور ایران کے معاملے میں سعودیہ کے ساتھ کھڑاہونے سے انکار کیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ امریکہ میں سردیوں میں گیس کی قیمتیں 1 ڈالر سے بڑھ کر ساڑھے تین ڈالر ہو چکی ہیں جس سے بائیڈن کی عوامی مقبولیت میں کمی آ رہی ہے جس پر بائیڈن کو سعودی عرب پر بہت غصہ ہے۔
امریکہ میں مقیم معروف سعودی شخصیت علی شہابی کو محمد بن سلمان کا قریبی سمجھا جاتا ہے۔ اس نے واشنگٹن سے اپنے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ اگر بائیڈن کو کوئی Favour چاہیے تو ان کو پتہ ہے کہ کس شخص کو کس نمبر پر کال کرنا ہے۔ یہ اشارہ محمد بن سلمان کی طرف ہے۔ علی شہابی نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال میں ہم نے اوپیک پر جو کام کیا ہے اس میں ہم اپنے دوستوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے ان کا اشارہ روس کی جانب تھا۔ اسی لیے بائیڈن بھی G-20 ممالک کی کانفرنس میں سعودی عرب اور روس کو پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔
دوسری طرف امریکی سینیٹ میں ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے محمد بن سلمان کو اپنے اوپر یوں مسلط کر رکھا ہے کہ اب وہ ہم سے انتقام لے رہے ہیں۔ ان کا مطلب یہ ہے کہ جمال خشوگی کے معاملے پر امریکہ نے سعودیہ پر پابندیاں کیوں نہیں لگائیں یا سعودی فرماں روا سلمان بن عبدالعزیز کو کیوں نہیں کہا کہ وہ ولی عہد کو تبدیل کرے مگر حقیقت یہ ہے کہ محمد بن سلمان ہی سعودی عرب کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔
امریکہ میں یہ تاثر عام ہے کہ اس وقت سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل نے جو مشترکہ بلاک بنایا ہے وہ بائیڈن حکومت کے خلاف ہے اور یہ ٹرائیکا اگلے امریکی الیکشن میں بائیڈن اور ان کی پارٹی کی بھرپور مخالفت کرے گا۔ غور سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ کس طرح عالمی سیاست میں طاقتور ممالک اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
اس کی حالیہ مثال آئی ایم ایف کی پاکستان کے ساتھ 6 ارب ڈالر کی امداد میں کڑی شرائط ہیں کیونکہ آئی ایم ایف امریکہ کے زیر اثر ہے۔ اسی طرح جب سعودی عرب نے گزشتہ د نوں 3 ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیاتو ڈالر کی قیمت میں فوری کمی آنا شروع ہو ئی مگر بعد ازاں وہ 3 ارب ٹرانسفر میں تاخیر ہوئی اور ڈالر ایک بار پھر آسمان پر چلا گیا۔ امریکہ کو یہ اعتراض ہے کہ افغانستان میں امریکی شکست کی وجہ پاکستان ہے۔ اب امریکہ نے پاکستان اور TTP کے درمیان معاہدے پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے حالانکہ20 سالہ جنگ کے بعد انہوں نے خود طالبان کی شرائط پر طالبان سے صلح بھی کی اور 5ہزار قیدی بھی رہا کیے۔
اب پاکستان کا فائدہ اس میں ہے کہ امریکہ سعودی عرب کو تیل کی پیداوار بڑھانے پر مجبور کرے اسی اثنا میں تیل کی قیمتیں 92 ڈالر سے کم ہوتے ہوئے 79 ڈالر پر آگئی ہیں لیکن پاکستان نے اب بھی مقامی قیمتوں میں کمی نہیں کی حالانکہ کم از کم 10 روپے لیٹر کی کمی کا جواز بہت مضبوط ہے لیکن حکومت کا عوام کو ریلیف کا کوئی ارادہ نہیں۔ تیل کی عالمی سیاست جاری ہے تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو۔

تبصرے بند ہیں.