نواز شریف بازی ہار گئے

145

دو، تین ماہ سے نواز لیگی یوٹیوبرز اور ٹویپس نے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا، ہر روز ایک نئی ویڈیو جاری کر دی جاتی تھی اور ایک نیا انکشاف کر دیا جاتا تھا کہ ملک کے مقتدر حلقوں نے نواز شریف کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں۔لمبی لمبی چھوڑنے والے یہاں تک چھوڑتے تھے کہ آئی ایس آئی کے اگلے سربراہ کا فیصلہ بھی نواز شریف کی مرضی سے ہو رہا ہے اور اب نواز شریف کے مخالف ان کی مٹھی چاپی کرنا چاہتے ہیں مگر وہ اس کے لئے مان نہیں رہے۔ آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقرری پر نوٹیفکیشن کا معاملہ بنا تو ان کی جیسے لاٹری نکل آئی۔ صحافی کہلانے والے بھی ترجمان بننے میں فخر محسوس کرنے لگے۔ وہ بتاتے رہے کہ ایک صفحہ پھٹ چکا اور سیم پیج، شیم پیج بن چکا مگر غباروں سے کچھ ہوا اس وقت نکلی جب آئی ایس آئی چیف کی تقرری کا معاملہ باہمی گفت و شنید سے پا گیا اور ایک صفحہ دوبارہ جڑا ہوا اس وقت نظر آیا جب تارکین وطن کو ووٹ کا حق اوراس سے بھی زیادہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے حوالے سے قانون سازی یوں ہوئی کہ حکومتی اتحادیوں تک کی’ چوں چاں‘ نکل ہو گئی۔

مجھے کچھ ماہ پہلے کی مریم نواز شریف سے وہ ملاقات یاد آ گئی جو ان کی دادی کی وفات پر اظہار تعزیت کے لئے تھی، اس میں ملک بھر سے صحافیوں کو ایک ہی نشست میں اکٹھا کر دیا گیا تھا اور گفتگو تعزیت سے سیاست کی طرف چل نکلی تھی۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ مجھے خوشامد کرنا نہیں آتی ، میں نے مریم صاحبہ کو اسی وقت کہہ دیا تھا کہ مجھے علم نہیں کہ آپ کی حکمت عملی کی بنیاد کیا ہے مگر میرا سیاسی اور صحافتی تجربہ بتاتا ہے کہ آپ کے مقابلے میں حکمت عملی اور منصوبہ بندی بغیر کسی ابہام کے واضح ہے۔ میں جانتا ہوں کہ مریم نواز کے سیاسی صلاح کار کون ہیں اور نواز شریف جلاوطن ہوتے ہوئے اپنی صاحبزادی کو کن کی شاگردی میں دے کر گئے ہیں اور انہی کے مشورے پر محترمہ نے اپنی سیاسی زندگی کی بڑی غلطی کی جب انہوں نے جنرل فیض حمید کا نام پریس کانفرنسوں اور جلسوں میں لینا شروع کر دیا۔ فیصل آباد میں لگائے جانے والے نعرے بھی منصوبہ بندی کا ہی حصہ تھے جن کے حوالے سے شہباز شریف کو پارٹی کے سوشل میڈیا سیل کی خواہشات کے برعکس بیان جاری کرنا پڑا۔ میں نے انہیں کوئی دو، اڑھائی درجن صحافیوں کی موجودگی میں بتایا تھا کہ جنرل فیض حمید کور سنبھالیں گے اور اسکے بعد وہ آرمی چیف کے عہدے کے لئے میرٹ پر آجائیں گے۔ بعد ازاں یہ بات پی ٹی آئی کے مخالف سمجھے جانے والے بڑے میڈیا گروپ کے پختون صحافی نے بھی اپنے کالم میں لکھ دی کہ عمران خان نے ایک میٹنگ میں کہہ دیا کہ وہ جنرل قمر باجواہ اور جنرل فیض حمید کے علاوہ کسی دوسرے جنرل کو نہیں جانتے لہذا وہ جنر ل فیض حمید کو اس لئے ڈی جی آئی ایس آئی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم کے اس موقف میں ویسے وزن تھا کہ افغانستان کی صورتحال میں ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر تسلسل ضروری ہے مگرا نہیں بتایا گیا کہ اگر وہ کور کمانڈر پشاور بھی ہوں تو وہ اس سلسلے میں پوری طرح باخبر ہوں گے اور وہاں حاصل کی گئی کامیابیوں کے خاتمے کا امکان نہیں ہے۔ میں نام نہیں لینا چاہتا مگراتنا کہنے میں حرج نہیں کہ جنرل فیض حمید کے بعد بھی جو آرمی چیف بن سکتے ہیں ان کے نام سے بھی نواز لیگیوں کے منہ میں کڑواہٹ آجاتی ہے۔

میں جانتا ہوں کہ اس دوران شہباز شریف نے معاملات کو سنبھالنے کی کوشش کی مگر وہ اس میں پوری طرح کامیاب نہیں رہے۔ شہباز شریف کی یہی بڑی کامیابی ہے کہ وہ اپنی حکمت عملی سے اپنی بھتیجی کو جاتی امرا اوراپنے بھائی کو لندن کی حسین فضاوں میں پہنچا چکے ہیں بلکہ ان کی واپسی نہ ہونے کی سزا بھی دوبارہ گرفتار ہو کر بھگت چکے ہیں۔الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے قانون نے نواز لیگ کے لئے بڑی مشکل پید ا کر دی ہے۔اگرچہ بہت سارے خوش گمان یہ کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کی آئینی و قانونی کے ساتھ ساتھ کچھ ٹیکنیکل بنیادوں پر وہ اگلے انتخابات روایتی طریقے سے کروانے میں کامیاب ہوجائیں گے جس میں ان کے مطابق کسی بڑی دھاندلی کے امکانات نسبتاً کم ہوں گے۔ خوش گمان تویہ اب بھی کہتے ہیں کہ نواز شریف خوش قسمت بھی ہیں اور ضدی بھی۔ وہ ماضی کی بڑی بڑی قوتوں مثلا غلام اسحق خان، فاروق لغاری سے لے کر پرویز مشرف تک کو شکست دے کر دوبارہ اقتدار میں آ چکے ہیں سو انہیں ’ انڈر مائین‘ نہیں کرنا چاہئے وہ عمران خان کو بھی حیرت انگیز طریقے سے شکست دیں گے مگر میرا تجزیہ یہاں تھوڑا سا مختلف ہے۔نواز شریف کو ماضی کے مقابلے میں ایک مختلف صورتحا ل کا سامنا ہے ، یہ صورتحال نہ اچانک ہے اور نہ ہی ہنگامی کہ نواز شریف نے اپنے کسی پسندیدہ بندے کو آرمی چیف لگا دیا ہو اور فوری ردعمل کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ اس وقت تمام اقدامات ’کیلکولیٹڈ‘ ہیں۔ میں آپ کو بتا رہا تھا کہ میں نے اس کیلکولیشن کو ایک سیاسی تجزئیے کے طور پر محترمہ مریم نواز کے سامنے بیان کیا تو ان کا کہنا تھا کہ تمام منصوبہ بندیاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں جب قدرت کے فیصلے آتے ہیں۔ اس امر سے میں اتفاق کرتا ہوں کہ میں قدرت کے فیصلے نہیں جانتا، میں ایک عام ساصحافی اور تجزیہ نگار ہوں اور میری فائنڈنگز سیاسی چالوں اور منظرنامے کو دیکھ کر ہی ہوتی ہیں۔ میں نے محترمہ کے سامنے اپنی کسی بات پر اصرار نہیں کیا، اس وجہ سے نہیں کہ مجھے اپنی کہی باتوں پر شک ہو گیا تھا بلکہ اس لئے کہ محترمہ میں اپنے والد کی خوبی ان سے کہیں زیادہ موجود ہے کہ وہ صرف تعریف پسند کرتی ہیں، جب آپ پدرم سلطان بود ہوں تو یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نواز شریف واپس آئیں گے تو بازی پلٹ جائے گی اور یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے نواز شریف کو الیکشن سے پہلے اس قسم کی باتیں کر کے پھنسایا تھا۔ یہ کہتے تھے کہ نواز شریف اپنی بسترمرگ پر پڑی بیوی کو چھوڑ کرآجائیں تو کراچی سے خیبر ان کے بکسے ووٹوں سے بھر جائیں گے مگر ہوا وہی جو طے شدہ تھا۔ مالشئیوں کا ایک گروہ کہتا ہے کہ اگر شہباز شریف اس روز ائیرپورٹ پہنچ جاتے تو تاریخ بدل جاتی اور میں ان سے ہنس کر پوچھتا ہوں کہ کیا شہباز شریف ائیرپورٹ پر حملہ کر کے اپنے بھائی اور بھتیجی کو رہا کروا لیتے اور ایوان وزیراعظم لے جا کر بٹھا دیتے، یہ عجیب احمقانہ بات ہے۔ جب نواز شریف ایک مرتبہ پھر بیماری کا بہانہ کر کے راہ فرار اختیار کر رہے تھے تو میں نے کالم لکھا تھا اور کہا تھا کہ نواز شریف کو اگر غیر منصفانہ طور پر بھی جیل میں رکھا جاتا ہے تو انہیں رہنا چاہئے کہ یہ ملک صرف اس لئے نہیں کہ وہ جب وزیراعظم ہوں تو یہاں رہیں اور جو صورتحال بنی ہوئی ہے وہ انہی کے عاجلانہ اقدامات کا نتیجہ ہے۔ نواز شریف بوتل میں رہتے تو جن بن جاتے ، وہ جن جو بوتل سے باہر نکل کر ہر خواہش پوری کر سکتا ہے لیکن انہوں نے ملک چھوڑنا مناسب سمجھا۔ میں نہیں سمجھتا کہ اب ان کی وطن واپسی کا کوئی جواز یا موقع ہے۔ میں غلام سرور خان جیسی غیر اخلاقی بلکہ بے ہودہ بات نہیں کرنا چاہتا مگر یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ فی الوقت اوربظاہر وہ بازی ہار گئے ہیں،اس ہاری ہوئی بازی کے پلٹنے کے فوری امکانات بھی نہیں ہیں۔

تبصرے بند ہیں.