22کروڑ عوام اور مہنگائی کی چیخ

81

پچھلے ماہ سے اب تک کچھ اقدامات اس تیزرفتاری سے سامنے آئے کہ دن کو تارے دکھائی دینے والی بات ہوگئی، پاکستان میں ر وپے کی بے قدری کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں ہمارے مخالف ممالک سے کرنسی وار شروع ہونے کا اندیشہ ہے ٹی وی پر گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر باقر رضا دکھائی دیئے اور ان کی جانب سے روپے کی قدر میں کمی کے فوائد پر اظہار خیال سنائی دیا کہ مقامی کرنسی کی قدر کم کرنے سے برآمدات میں اضاف ہوتا ہے جس سے تجارتی خسارہ کم ہوجاتا ہے جس پر گورنر اسٹیٹ بینک کو سخت تنقید کا سامنا رہا، جو کساد بازری او افراط زر کے اس دور میں ہونا ہی تھی گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر کو مقامی مشاورت کی اشد ضرورت ہے درحقیقت روپے کی قدر میں کمی کے باعث درآمدات بھی مہنگی ہوجاتی ہیں اور مہنگائی کی رفتار میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔پاکستان جیسے ملک میں جہاں درآمدات برآمدات سے تقریباً تین گنا زیادہ ہیں اور برآمدات میں بھاری مقدار میں درآمدی ام مال استعمال کیا جاتا ہے روپے کی قدر میں کمی کا فارمولہ قطعاً قابل عمل نہیں ہے کرنسی کی قدر میں کمی سے ملک پر عائد قرضوں میں تقریباً24سو ارب روپے کا اضافہ ہوگیا ہے جبکہ مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کار بھی اس صورتحال سے بے یقینی کا شکار ہیں اور اس طریقہ سے برآمدات بڑھانے میں سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ اگر مسابقتی ممالک بھی یہی طریقہ اختیار کریں تو کرنسی وار شروع ہوجائے گی اور فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہوگا اور بہت سے ممالک اسی فارمولے کو اپنا کر نقصان اٹھا بھی چکے ہیں ہمیں بہرحال ہر صورت میں خود کو نقصان سے بچانا ہوگا گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر باقر رضا نے کہا کہ سستے روپے سے اوورسیز پاکستانیوں کو فائدہ ہوتا ہے اور روپیہ سستا ہونے سے ترسیلات میں اضافہ ہورہا ہے۔ حالانکہ حکومت تیس ارب ڈالر کی ترسیلاب زر کو صنعت اور تجارت میں مناسب طریقے سے انویسٹ کروانے میں بظاہر ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے یہ خطیر رقم بھی انفلیشن میں اضافہ کا باعث بن رہی ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ برآمدکنندگان کی تعداد چند ہزار اوورسیز پاکستان کی تعداد نوے لاکھ ہے لہٰذا انہیں پہنچانے کیلئے اکیس کروڑ عوام کو مہنگائی کے جہنم میں دھکیل دینا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔دوسری جانب توانائی او ر خوراک کی قیمتوں نے عوام سے جینے کا حق جیسے بالکل چھین ہی لیا ہے۔حکومتی پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے مقتدر حلقے اور حکومت مہنگائی کا ملبہ عالمی منڈی پر ڈال کر بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں حالانکہ ایسا ممکن نہیں ہے۔روپے کی قدر میں کمی کرکے معاشی بہتری کے مقاصد حاصل نہیں کیے جاسکتے۔اس بار پے درپے روپے کی قیمت میں کمی کے باعث اور آئی ایم ایف کے مسلسل دباؤ کی وجہ سے توانائی اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوگیا ہے جو کمی تھی وہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نے پوری کردی ہے اب مہنگائی عوام اور کاروباری برادری کے لئے مسائل پیدا کررہی ہے۔اربا ب اختیار اس میں بے بس دکھائی دیتے ہیں کیوں کہ وزیراعظم کی ہدایات کے باوجود بیرروکریسی قیمتیں کنٹرول کرنے سے قاصرہے اور ہر آنے والا دن عوام کی مشکلات میں اضافہ کررہا ہے اور انکی زندگی کو نئی نئی مشکلات کا سامنا ہے جس سے ان کا غم و غصہ اور بے چینی بڑھ رہی ہے مڈل کلاس جو کسی بھی ملک کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے ان کے لئے سفید پوشی کا بھر م قائم رکھنا بھی مشکل ہوچکا ہے اور یہ طبقہ تیزی سے غریب ہورہا ہے اگر حالات یونہی رہے تو جلد ہی ملک میں صرف امیر اور صرف غریب رہ جائیں گے مڈل کلاس ختم ہوجائے گی۔موجودہ حالات میں عوام صحت،تعلیم،بجلی،گیس اور دیگر ضروری اشیاء پر اخراجات کرنے کے قابہ ہی نہیں رہے ہیں جس سے ملکی مستقبل کے لئے خطرات بڑھ گئے ہیں جبکہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی وجہ سے جرائم میں بھی اضافہ ہورہا ہے گزشتہ تین سال میں آٹے،چینی،چکن، انڈوں اور گوشت کی قیمتوں میں زبردست اضافہ کے علاوہ کوکنگ آئل کی قیمت میں 88فیصد اور چینی کی قیمت میں 83 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ دیگر اشیاء کی قیمتیں بھی مسلسل بڑھ رہی ہیں۔اعلیٰ حکام مہنگائی کا ملبہ عالمی منڈی پر ڈال کر بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت اوربنگلہ دیش سمیت خوراک درآمد کرنے والے دیگر ممالک میں اشیائے خوردونوش کی قیمتیں پاکستان سے کہیں کم ہیں۔بھارت اور بنگلہ دیش سمیت کئی علاقائی ممالک میں توانائی کی قیمتیں بھی پر کیپٹل انکم کے لحاظ سے پاکستان سے کم ہیں مگر حکومت کی جانب سے مقامی سطح پر قیمتیں کم کرنے کی بجائے لولے لنگڑے جواز تراشے جارہے ہیں اور عوام ان پریقین کرنے کو تیار نہیں ہیں بلکہ سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔جن مقاصد کو ذہن میں رکھ کرخاموشی سے روپے کی قدر میں زبردست کمی کی گئی وہ حاصل نہیں کئے جاسکے لیکن ملکی بیرونی قرضوں میں ستائیس سو ارب روپے کا اضافہ ہوگیا اور مہنگائی کا زبردست سیلاب آگیا جس میں آنے والے دنوں میں اور بھی اضافہ ہوسکتا ہے اب سعودی قرضے سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بہتر ہورہی ہے ملک پر آئی ایم ایف کا دباؤ کم ہوگیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس صورتحال سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں کیونکہ سنگیں اقتصادی بحران وقتی طور پر ٹل گیا ہے اور سعودی عرب کی جانب سے تین ارب ڈالر کے ڈیپازٹ اور1.2ارب ڈالر کے تیل ادھار دینے کے فیصلے کے بعد ملک پر آئی ایم ایف کا دباؤ بھی کم ہوگیا ہے اور پاکستان ان مذاکرات کو چند ماہ تک طول دینے کی پوزیشن میں آگیا ہے تاہم حکومت کو اس سال 12ارب ڈالر کے قرضے انٹرنیشنل کمیونٹی کو واپس لوٹانے ہیں اور اگر آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کو بروقت نہ سلجھایا جاسکا تو مزید قرضوں کا حصول ممکن نہیں ہوگا۔ چار ارب ڈالر سے زیادہ کے سعودی ریلیف کے بعد بھی درآمدات کو باضابطہ اور بزنس فرینڈلی نہ بنایا تو صورتحال جلد دوبارہ بگڑ سکتی ہے۔غیر ضروری درآمدات کا سلسلہ فوری طور پر بند کرنے کی ضرورت ہے جس پر عمل نہیں کیا جارہا ہے جس سے متعلقہ حلقوں کی تشویش بڑھتی جارہی ہے۔1999میں پاکستان کی برآمدات جی ڈی پی کا سولہ فیصد تھیں جو اب دس فیصد رہ گئی ہیں مگر اس جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی جس کے اثراب ملکی ترقی، روزگار اور صنعتی پیداوار پر منفی طور پر مرتب ہورہے ہیں۔آئی ایم ایف کو حکومت کی مصنوعی ترقی کی پالیسیوں، بھاری اخراجات، اہم شعبوں میں حقیقی اصلاحات کے بجائے بیان بازی اور بھاری نقصانات کرنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری میں سست روی پر تحفظات ہیں جبکہ یہ کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے توانائی کے شعبہ اور ٹیکس کی نظام کی زبوں حالی پر بھی مطمئن نہیں ہے جو اس سے کئے گئے معاہدے میں خلا ف ورزی ہے۔آئی ایم ایف سے معاہدے میں درآمدات میں کمی کی شق بھی شامل ہے جس پر عمل نہیں ہورہا جس سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مسلسل بڑھ کر ایک خطرہ بن گیا ہے مگر سیاسی مفادات کی خاطر اس جانب توجہ نہیں دی جارہی جو انتہائی تشویشناک ہے اور اب بال حکومت کی کورٹ میں ہے جسے کسی بہتر سمت میں شارٹ لگانے کی ضرورت ہے۔!!!

تبصرے بند ہیں.