کرپشن، پینڈورا لیکس و نااہلی!

80

ہمارا خیال تھا جس طرح پانامہ لیکس کو کچھ ’’ذاتی ناپسندیدہ ‘‘ سیاستدانوں کے خلاف استعمال کیا گیا تو کچھ روز قبل ظاہر ہونے والی پینڈورالیکس میں شامل کچھ اہم و طاقتور شخصیات کے خلاف بھی کوئی نہ کوئی ایکشن ضرور لیا جائے گا کہ جس شخص (موجودہ وزیراعظم) نے پانامہ لیکس کی فہرست میں شامل بے شمار شخصیات کو چھوڑ کر محض اپنی ذاتی ناپسندیدہ ایک دو شخصیات کو نشانہ بنایا، اُنہیں آئوٹ کرکے دم لیا اُسی طرح اب پینڈورالیکس میں شامل اپنے کچھ ’’دوستوں‘‘ کے خلاف بھی کوئی نہ کوئی ایسا ایکشن وہ ضرور لے گا جس سے یہ ظاہر ہوگا پانامہ لیکس کے حوالے سے موصوف کی جدوجہد کسی ذاتی مقصد کے لیے نہ تھی، نہ اِس ضمن میں وہ کسی کا ’’ہتھیار‘‘ بنا تھا بلکہ پانامہ لیکس میں شامل بے شمار شخصیات میں سے ایک دو شخصیات کو منتخب کرکے اُن کو پویلین سے باہر کرنے کا مقصد صرف لوٹی ہوئی دولت واپس لانا تھا …نیت ٹھیک ہوتی اور مقصد صرف اقتدار حاصل کرنا یا اقتدار سے چمٹے رہنا نہ ہوتا لوٹی ہوئی کچھ نہ کچھ دولت اب تک ضرور واپس آچکی ہوتی، مگر وہ چونکہ ہمت ہارنے والا نہیں ہے چنانچہ ہمیں یقین ہے آئندہ عام انتخابات میں بھی اُس کا نعرہ یا اُس کے پارٹی منشور کی سب سے بڑی شق یہی ہوگی ’’ہم اِن چوروں اور ڈاکوئوں سے لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے‘‘… ویسے یہ دعویٰ بھی ویسا ہی نکلا جیسا شہباز شریف کا نکلا تھا کہ ’’ہم زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹیں گے ‘‘… ہمیں افسوس اِس بات کا ہے چورچوروں کے ہاتھ کاٹنے کے دعوے کرتے ہوئے ذرا شرمسار نہیں ہوتے …اگر آئندہ الیکشن میں بھی ہمارے پیارے خان صاحب کا نعرہ مستانہ یا دعویٰ یہی ہوا ’’وہ لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے پھر ہماری اُن سے گزارش ہے محض نعرے کی حدتک اپنے اِس دعوے میں اِس بار وہ اپنے اقتدار میں لُوٹی ہوئی دولت بھی شامل کرلیں۔ …خان صاحب کا نام پینڈورالیکس میں نہیں آیا، اِس کی شکرگزاری کا تقاضا یہ تھا پینڈورالیکس کے حوالے سے اِس بات کی پرواکئے بغیر کہ اُن کے کچھ ساتھیوں کا نام اِس میں آیا ہے اُنہیں اُسی طرح سپریم کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا جس طرح پانامہ لیکس میں اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ سے اُنہوں نے رجوع کیا تھا، افسوس وزیراعظم بننے کے بعد اپنی ساکھ بحال رکھنے میں کوئی دلچسپی اُنہوں نے ظاہر نہیں کی، کسی امتحان میں وہ پورے نہیں اُترے،…اب پینڈورالیکس پر جماعت اسلامی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے تو سپریم کورٹ کا بھی ایک نیا امتحان شروع ہوگیا ہے اور ضروری نہیں ہر امتحان میں ہی کوئی ناکام ہو جائے … ویسے ہمارے پیارے وزیراعظم کے پاس اب بھی وقت ہے اگر ’’پرائے لٹیروں‘‘ کا وہ کچھ نہیں بگاڑ سکے تو اپنی آستین کے لٹیروں کے کچھ ’’بندوبست‘‘ ہی وہ کرلیں، اِس سے یہ ہوگا وہ جب اقتدار میں نہیں رہیں گے چند لوگ اُن کے حق میں بات کرنے والے ضرور رہ جائیں گے ۔ البتہ اب وہ حکمران ہیں تو ہر حکمران کی طرح یہ سمجھنا اُن کا حق ہے کہ اُنہیں بائیس کروڑ عوام کی حمایت حاصل ہے، اِس ملک کا ایک المیہ یہ بھی ہے جس کے پاس تانگے کی سواریاں نہیں ہوتیں وہ بھی یہی کہتا اور سمجھتا ہے اُسے ’’بائیس کروڑ عوام‘‘ کی حمایت حاصل ہے جیسے ہمارے شیخ رشید احمد یہ سمجھتے ہیں جو بونگیاں وہ ماریں گے بائیس کروڑ عوام آنکھیں بند کرکے اُن پر یقین کرلیں گے، …ویسے بائیس کروڑ عوام کی حمایت حاصل ہونے کے دعویدار ہرحکمران کو پتہ ہوتا ہے کہ کتنے لوگوں کی حمایت حاصل کرکے وہ اقتدار میں آیا ہے؟اُن لوگوں کا تعلق کس ادارے یا کس شعبے سے ہوتا ہے یہ بھی اُسے پتہ ہوتا ہے… البتہ بائیس کروڑ عوام کی حمایت کی ’’یا وییاں‘‘ مارنے میں کوئی عار وہ اِس لیے محسوس نہیں کرتا اُسے یقین ہوتا ہے جو کچھ وہ فرمائے گااندھے، گونگے اور بہرے عوام آنکھیں، کان وزبانیں بند کرکے اُس پریقین کرلیں گے …جہاں تک سابقہ حکمرانوں سے لُوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے ’’عمرانی دعوے‘‘ کا تعلق ہے یقین کریں مجھے یقین تھا یہ کام ایڑی چوٹی سمیت دیگر اعضاء کا پورا زور لگاکر بھی وہ اس لیے نہیں کرسکیں گے کہ اِس ملک سے دولت صرف شریف خاندان مزید ایک دو خاندانوں نے ہی نہیں لوٹی، جس کا بس چلا کرپشن کی بہتی گنگا سے اُس نے صرف ہاتھ ہی نہیں دھوئے پورا غسل کیا اور کئی کئی بار کیا، سو چند سیاسی خاندان اگر لُوٹی ہوئی دولت واپس لے آتے اُس کے اثرات ظاہر ہے دیگر شعبوں کے ڈاکوئوں چوروں اور لٹیروں پر بھی پڑنے تھے، ممکن ہے ایسی صورت میں اُنہیں بھی اپنی دولت واپس لانا پڑتی، لہٰذا دیگر شعبوں کے لٹیروں چوروں و ڈاکوئوں نے درپردہ دوچار کرپٹ سیاسی خاندانوں کی پوری سرپرستی پوری مدد کی جس کے نتیجے میں جس سے لُوٹی ہوئی دولت خان صاحب نے واپس لینی تھی اُسے واپس اُس کے پسندیدہ مقام پر بھیجنا پڑ گیا، اور کچھ کو ساتھ ملانا پڑ گیا، اب بے چارے خان صاحب اتنے بے بس ہیں اُن کی اِس بے بسی سے فائدہ اُٹھا کر مزید لُوٹ مار کرنے کے مزید لوگوں کے حوصلے بلند ہوتے جارہے ہیں، یہ سلسلہ کرپشیہ ’’اِس حدتک فروغ پاچکا ہے کرپشن کی ایک نئی روایت یا ایک جدید طریقہ یہ دریافت کرلیا گیا ہے اب ہمارے کچھ سول ودیگر افسران و حکمران لوٹوں کے ناجائز کام پاکستان میں کرتے ہیں اور اُس کا ’’معاوضہ‘‘ یعنی ’’فیس‘‘ یورپ ، برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا ودیگر کئی ممالک میں وصول کرتے ہیں، اِس مقصد کے لیے باقاعدہ ایک طریقہ کار باقاعدہ ایک ’’پالیسی‘‘ کے طورپر متعارف کروادیا گیا ہے، …یہ ’’شرف‘‘ بھی حالیہ دور کو حاصل ہوا کرپشن کو اب اپنا حق سمجھا جاتا ہے، کسی کا ناجائز کام کرنے سے پہلے اُسے کہہ دیا جاتا ہے ’’ساہڈاحق ایتھے رکھ‘‘… بے شمار اہم تقرریوں کے لیے واحد ’’اہلیت‘‘ اب یہ ہے وہ ’’کرپٹ‘‘ کتنا ہے؟ کچھ لوگوں کو تو نوٹوں کا ایسا نشہ لگ گیا ہے وہ گن کر نوٹ لینے کے بجائے سُونگھ کر لیتے ہیں، سابقہ حکمران خود کرپشن کرتے تھے نیچے نہیں کرنے دیتے تھے، ’’تبدیلی‘‘ اب یہ آئی ہے موجودہ حکمران اعظم کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے وہ خود کرپٹ نہیں ہے، پر نیچے جو ’’انھی‘‘ پڑی ہوئی ہے، اُس سے اگر وہ آگاہ ہے ، اور اُسے قائم رکھنے کے لیے بضد ہے پھر ہم اور کتنی دیرتک اُس سے جُڑے ہوئے اِس تاثر کی حفاظت کرتے رہیں گے کہ وہ خود کرپٹ نہیں ہے ؟؟ میری نظر میں کرپشن صرف روپے پیسے کی لُوٹ مار نہیں، ایک کرپشن وہ نااہلی کی بھی ہے، اگرکسی شخص کو معلوم ہو وہ کسی عہدے کے اہل نہیں، اِس کے باوجود اُس عہدے کو قبول کرلے یا اُس سے چمٹا رہے… کیا یہ بھی کرپشن کی ایک قِسم نہیں ؟؟؟

تبصرے بند ہیں.