مقدس گائے اور وزیراعظم

66

وزیراعظم عمران خان سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوئے تو بہت سے چہروں پر ایک خفیف سی مسکراہٹ دیکھی جا سکتی تھی۔ایک دوست بہت معنی خیز انداز میں دیکھ کر کہا کہ مطلب اب ان کی باری ہے۔ ان کے اس نا مکمل جملے کے پیچھے ایک پوری تاریخ تھی۔ بہت سے لوگوں کی یادداشت کمزور ہے مگر تاریخ کے اوراق میں سب درج ہے۔پاکستان کی عدالتی تاریخ میں بہت سے ایسے مواقع آئے جب وقت کے حکمران کٹہرے میں کھڑے نظر آئے اس وقت سب یہ جان جاتے ہیں کہ جی کاجاناٹھہر گیا۔ وزیراعظم کے رفقاء بڑے یقین سے کہتے ہیں کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی بلکہ اسی سانس میں یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ اگلے پانچ برس بھی عمران خان کی حکومت رہے گی۔ خواہشوں کے گھوڑے بگٹٹ دوڑتے ہیں لیکن پھر منہ کی کھاتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان سے سپریم کورٹ نے اے پی ایس سانحہ کے ذمہ داروں کے حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے سپریم کورٹ سے کہا کہ سپریم کورٹ اس کا تعین کرے، اس پر سپریم کورٹ نے کہا کہ وزیراعظم آپ ہیں آپ نے ذمہ داروں کا تعین کرنا ہے اور اس کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرنی ہے۔وزیراعظم عمران خان کو مہلت دی گئی ہے کہ وہ اے پی ایس سانحہ کے ذمہ داران کیخلاف کارروائی کریں۔ وزیراعظم کے ترجمان نے اسی رات اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر یہ کہہ دیا کہ اے پی ایس کے سانحہ میں ملوث افراد میں سے پیشتر کو سزائیں ہو چکی ہیں بس ایک ہے جس کی سزا پر عمل درآمد ہونا باقی ہے۔ بہتر ہوتا کہ اس روز وزیراعظم اپنے ترجمان کو بھی ساتھ لے جاتے تاکہ وہ بروقت اس بارے انہیں آگاہ کرتا اور وزیراعظم سپریم کورٹ کو مکمل تفصیلات فراہم کر دیتے۔سپریم کورٹ نے جن کیخلاف کارروائی کے بارے میں کہا ہے ان کیخلاف کارووائی کرنے سے سب کے پر جلتے ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اے پی ایس سانحہ ہماری سکیورٹی کے اداروں کی بہت بڑی ناکامی تھی۔اتنا عرصہ گذرنے کے باوجود اے پی ایس سانحہ کے متاثرین آج تک سڑکوں پر ہیں اور عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں اور اپنے پیاروں کے خون کا انصاف مانگ رہے ہیں۔ وہ اپنے پیاروں کی لاشوں کا معاوضہ نہیں مانگ رہے بلکہ ان کا مطالبہ ہے کہ اس سانحہ کے جو ذمہ داران ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ انہیں انصاف دلایا جائے۔ سپریم کورٹ کا تین رکنی بنچ اس مقدمہ کی سماعت کر رہا ہے اور اسی سماعت کے دوران انہوں نے وزیراعظم عمران خان کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا اور وزیراعظم نے عدالت کے حکم کے تحت سپریم کورٹ میں اپنی حاضری کو یقینی بنایا۔ یہ معاملہ اس لیے بھی اہم ہو گیا ہے کہ حکومت تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کر رہی ہے۔ جی یہ وہی تحریک طالبان پاکستان ہے جس نے اے پی ایس پر حملے کی ذمہ داری کو قبول کر لیا تھا۔ 2014ء میں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے نتیجہ میں 130بچے شہید ہو گئے تھے۔ جس وقت وزیراعظم عدالت میں پیش ہوئے اے پی ایس میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ ان بچوں کے والدین وزیراعظم کی جانب سے دی جانے والی وضاحت
سے مطمئن نہیں تھے بلکہ ان کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ ان کے بچوں کے قاتلوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ عدالت نے حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے ریمارکس بھی دیے۔ دوسری طرف حکومتی وزراء قوم کو یہ یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات اس لیے ہو رہے ہیں کہ اس نے پاکستان کے آئین کو قبول کیا ہے ایسے میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ وہ دہشت گرد تنظیم جس کے ہاتھ پر پاکستان کے ہزاروں لوگوں کا خون ہے کیا انہیں معاف کر دیا جائے گا۔ کیا اس کے ذمہ داروں کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی؟ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کون سے نکا ت ہیں جن پر تحریک طالبا ن پاکستان سے مذاکرات ہو رہے ہیں اور ان مذاکرات میں کون کون شریک ہے؟ حیرت کی بات تو یہ بھی ہے کہ ابھی تک ٹی ایل پی کے ساتھ کن نکات پر معاہدہ ہوا ہے اس کے بارے میں بھی قوم لا علم ہے لیکن ٹی ایل پی کے لوگوں کو رہا کیا جا رہا ہے اور اس تنظیم کا نام کالعدم تنظیم کی فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔
جو کچھ سامنے نظر آ رہا ہے اس کے تحت یہ نہیں لگ رہا کہ ٹی ٹی پی ایک کمزور فریق کے طور پر حکومت کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے بلکہ اس میں حکومت کی کمزوری نظر آ رہی ہے۔ ٹی ٹی پی نے ایک ماہ کے لیے جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے۔ حکومت نے پارلیمانی رہنماؤں کو ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی پیش رفت سے آگاہ کیا ہے مگر عوام ابھی تک اس معاہدے کے خدوخال سے لاعلم ہیں۔ایک طرف حکومت یہ دعوے کرتی ہے کہ اس نے کامیابی کے ساتھ القاعدہ اور ٹی ٹی پی کو شکست دی ہے اور دوسری طرف وہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کر رہی ہے۔حکومت کا عمل ان کے بیانات سے یکسر مختلف نظر آتا ہے۔ ماضی میں قوم کو یہ بتایا جاتا رہا کہ پاکستان نے کامیابی کے ساتھ پاکستان میں ٹی ٹی پی کے انفراسٹرکچر کو ختم کیا اور یہ تنظیم افغانستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئی۔ افغان طالبان جب کابل میں داخل ہوئے تو یہ امید تھی کہ ٹی ٹی پی اب افغانستان کی سرزمین کو استعمال نہیں کر سکے گی مگر ٹی ٹی پی نے افغانستان کو بڑی ہوشیاری سے اپنے مفادا ت کے لیے استعمال کیا ہے۔ ایسا کیوں نظر آ رہا ہے کہ ہم ٹی ٹی پی سے معاہدہ کرنے میں عجلت ظاہر کر رہے ہیں۔کیا یہ عمل ہم اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کر رہے ہیں یا ہمیں افغان طالبان نے اس قسم کے مذاکرات پر مجبور کر دیا ہے۔جو ہتھیار پھینک کر آنا چاہے ان کے لیے دروازے بند نہیں کیے جا سکتے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے خلاف مقدمات کا بھی سامنا کرنا ہو گا۔ صرف مذاکرات کر کے لوگوں کے ناحق خون کا سودا کیوں کر کیا جا سکتا ہے؟
ٹی ٹی پی سے جو مذاکرات ہو رہے ہیں حکومت کو چاہیے کہ اس کی تفصیلات پارلیمنٹ میں پیش کرے تاکہ اس پر کھل کر گفتگو ہو سکے اور قومی اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔خفیہ معاہدوں سے حکومت کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔ حکومت کے اس عمل کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ شہداء کے لواحقین حکومت پرانگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بچوں کے خون کا سودا کیا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے وزیراعظم سے یہی سوال کیا تھا کہ کیا حکومت ایک بار سرنڈر ڈاکومنٹ پر دستخط کرنے جارہی ہے؟ عدالت نے واضح طور پر حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کی طرف اشارہ کیا تھا۔ جن نکات پرمعاہدہ ہو رہا ہے اگر حکومت اسے قوم کے سامنے رکھ دے تو پھر عدالت سمیت سب جان سکتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ وزیراعظم نے سپریم کورٹ کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کی حکومت سانحہ اے پی ایس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے احکامات پرعمل کرے گی کہ وہ خود قانون کی حاکمیت پر یقین رکھتے ہیں۔سپریم کورٹ نے وزیراعظم عمران خان سے کہا ہے کہ وہ عدالت کے 20اکتوبر کے حکم نامہ اور شہید ہونے والے طلباکے بیانات کی روشنی میں ملکی سکیورٹی کے انتظامات میں غفلت کے مرتکب اس وقت کے اعلی ترین 6ریاستی عہدیداروں کے خلاف قانونی کارروائی کر کے چارہفتوں کے اندر اپنی دستخط شدہ رپورٹ عدالت کے روبرو پیش کریں۔عدالت نے 20 اکتوبر کے احکامات میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف،وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، وزیراعلیٰ کے پی کے پرویز خٹک،کور کمانڈر پشاور ہدایت الرحمان، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام اور وفاقی سیکرٹری اختر علی شاہ کے خلاف کارووائی کرنے کے لیے کہا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم جنہوں نے عدالت کے سامنے یہ بیان دیا ہے کہ کوئی مقدس گائے نہیں ہے اور وہ عدالت کے احکامات کی روشنی میں کیا کارروائی کریں گے۔

تبصرے بند ہیں.