بین المذاہب ہم آہنگی

150

اس ملک میں بین المذاہب ہم آہنگی پر کام کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مذہب کے اندر مختلف فرقوں کے لوگ آپس میں گتھم گتھا ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف تکفیر کے فتوے لگار ہے ہیں۔ دیو بندی، بریلوی ، اہلحدیث اور شیعہ ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔مذہب کے نام پر جن لوگوں نے ہتھیار اٹھائے ان کی حمایت کرنے والے اس ملک میں کم نہیں ہیں۔ ان حالات میں معاشرے سے دہشت گردی کو کم کرنا کیونکر ممکن ہے؟ مذہب کی آڑ میں ہونے والی تخریبی کارووائی کو کوئی بھی نہیں پوچھتا اور قانون بھی چپ سادھ کر سب دیکھتا ہے ۔ کل ہی چند دانشمند اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات کے بعد پولیس کے جو لوگ شہید ہوئے ہیں حکومت کس منہ سے ان کے لواحقین سے بات کرے گی اور کیا آئندہ کسی  ایسی صورتحال میں پولیس اپنے فرائض منصبی احسن طریقے سے سرانجام دے گی۔ گذشتہ دنوں لندن سے ہمارے دوست افضل چوہدری پاکستان تشریف لائے تھے تو بین المذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے ان سے طویل گفتگو بھی ہوئی۔ وہ صحافی بھی ہیں اور مختلف غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ دینے کے لیے کام کرتے ہیں۔ حکومت پنجاب نے انہیں بین الاقوامی سطح پر بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے اپنا خصوصی مشیر نامزد کیا ہے ۔پنجاب میں وزارت انسانی حقوق او اقلیتی امور کے وزیر اعجاز عالم آگسٹن نے ان کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ اس رات ہم دوست پنجاب یونیورسٹی کے ایگزیکٹو کلب میں رات کے کھانے پر اسی حوالے سے گفتگو کر رہے تھے۔ شرکاء کی رائے یہ تھی کہ چوہدری صاحب باہر تو پہلے ہی کافی ہم آہنگی دیکھنے میں آر ہی ہے ایسے میں کیااس بات کی ضرورت پاکستان میں زیادہ نہیں ہے کہ یہا ں پر مذہب کے اندر ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے ۔ یہاں اسلام کے نام پر جو قتل و غارت گری ہو رہی ہے اس پر توجہ دی جائے۔ افضل چوہدری صاحب نے اس بات کو تسلیم کیا کہ پاکستان سے زیادہ بین المذاہب ہم آہنگی لند ن میں موجود ہے اور انہوں نے اس سے اتفاق کیا اور بتایا کہ یو کے کی پارلیمنٹ میں بین المذاہب ہم آہنگی پر کس طرح کام ہو رہا ہے تاہم وہاں بھی مسائل موجود ہیں ۔ انہو ںنے یہ تفصیل بھی بتائی کہ کس طرح ڈونلڈ ٹرمپ کے دورے پر مسلمان وزیروں اور لندن کے میئر کو استقبالیہ تقریب میں مدعو نہیں کیا گیا جس پر حکومت پر بہت زیادہ تنقید ہوئی۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ غنیمت ہے کہ لندن میں ہمارے مسلمان پارلیمنٹیرین مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے بہت سا کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ لندن کی پارلیمان میں مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے کافی کام ہو رہا ہے اور اسی طر ح کا کام یورپ کے دوسرے ممالک میں بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کو اسلام کا سوفٹ امیج دکھائیں گے تو ہم دنیا کے ساتھ چل سکتے ہیں۔ دنیا امن کا گہوارہ اسی وقت بنے گی جب تمام مذاہب کے لو گ ایکدوسرے کے ساتھ رہنا سیکھیں گے۔
جس وقت میں یہ سطور لکھ رہا ہوں فرانس سے ایک خبر آئی ہے کہ ایک شخص نے پیغمبر اسلام کے نام کا نعرہ لگاتے ہوئے چاقو سے پولیس پر حملہ کر دیا تاہم اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔یورپ میں اب بھی ا یسے گروہ موجودہیں جو انفرادی طور پر اس طرح کے حملے کرتے ہیں اور اس کا خمیازہ امت مسلمہ کو بھگتا پڑتا ہے۔ اس طرح کے حملوں اور واقعات کو میڈیا بہت زیادہ کوریج دیتا ہے اور اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے ایجنڈے کو تقویت ملتی ہے جو مذاہب کے درمیان نفرت اور جنگ چاہتے ہیں ۔اس بات پر تحقیق کی گنجائش موجود ہے کہ جو لوگ اس طرح کی کارووائیاں کرتے ہیں کیا وہ ذہنی طور پر ابنارمل ہوتے ہیں یا کوئی اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے انہیں استعمال کرتا ہے۔ واضح رہے کہ فرانس میں آئندہ چند ماہ میں انتخابات ہونے جارہے ہیں ۔ اس قسم کے واقعات کو کہیں جماعتیں اپنے ووٹ بنک کو بڑھانے کے لیے تو استعمال نہیں کریں گی۔یہ واقعہ فرانس کے مشہور شہر کینز میں پیش آیا ہے۔ آپ  جانتے ہیں کہ کینز کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہے اور یہاں ہر برس فلمو ں کا عالمی میلہ لگتا ہے۔اس حملے میں پولیس اہلکار کو معمولی چوٹیںآئی ہیں جبکہ حملہ آور کی حالت نازک بیان کی جا رہی ہے۔ فرانس میں خاص طور پر اس طرح کے واقعات رونما ہو رہے ہیں اور ہر حملے کے بعد فرانس میں اسلام کے خلاف زہر آلود پروپیگنڈہ شروع کر دیا جاتا ہے اور یہ پیش گوئی کر دی جاتی ہے کہ شدت پسند حملہ آور مزید لوگوںکو نشانہ بنا سکتے ہیں۔اپریل میں ہونے والے صدارتی انتخابات انتہائی سیکیورٹی میں ہونے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون دوسری مدت کے لیے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔فرانس ہی نہیں یورپ کے دوسرے ممالک میں بھی اسلام کو ایک سیاسی ٹول کے طور پر استعمال کرنے کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے اور مختلف سیاسی گروہ اور تنظیمیں اسلام کے خلاف نفرت انگیز مواد پھیلانے میں سرگرم عمل ہیں۔ ان حالات میں افضل چوہدری جیسے لوگوں کی طرح دوسرے اسلامی ممالک بھی ان ممالک میں مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے اپنا کام کریں۔ او آئی سی نے اس حوالے سے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں مختلف ممالک کے سفیروں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق لوگوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ افضل چوہدری جو اس  کانفرنس میں موجود تھے انہو ں نے کہا کہ اس طرح کی کانفرنسیں ہونا بہت ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یورپ کے اندر رہنے والے مسلمانوں کی سرکردہ شخصیات کو بھی آگے لانا ہو گا تاکہ وہ اسلام کی اصل روح سے یورپی معاشرے کو آگاہ کر سکیں۔
اور آخر میں ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات کی کہانی بھی سن لیں ۔ یہ اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ حکومت آئندہ چند دنو ں میں ٹی ایل پی کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی تفصیلات قوم کے سامنے رکھنے جارہی ہے ۔ ڈان اخبار کی ایک رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا کہ وزیراعظم عمران خان نے ٹی ایل پی کے خلا ف طاقت استعمال کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا تھا تاہم طاقتور حلقوں نے اس مسئلہ کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اس بات پر بھی بحث ہوئی تھی کہ اگر ٹی ایل پی کے خلاف طاقت کا استعمال کیاگیا تو اس کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں اور اس کے بعد حکومت نے ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات شروع کیے۔جب اس معاہدے کی تفصیلات سامنے آئیں گی تو پھر علم ہوگا کہ حکومت نے اس معاہدے سے کیا حاصل کیا ہے اس وقت حالات یہ ہیں کہ سپاہ صحابہ، متحدہ قومی موومنٹ اور دوسری تنظمیں جن پر پابندی عائد کی گئی ہے انہوں نے بھی یہ مطالبات کر دیے ہیں کہ ان پر سے بھی پابندی ختم کی جائے۔ اس عمل کی ابتدا تو ٹی ٹی پی سے مذاکرات ہو گئی تھی اب دیکھیں کہ تان کہاں جا کر ٹوٹتی ہے۔

تبصرے بند ہیں.