اقبالؔؒ کا فکری پس منظر اور جدیدیت

188

بلا شبہ علامہ اقبالؒ ؔ ایک عہد ساز شخصیت ہیں ۔ انہوں نے اپنی شاعری میں ایک پورے دور اور ایک پوری تاریخ کو بیان کیا ہے ۔ ان کی شاعری کی اہم بات یہ کہ جب ہم ان کی شاعری کو پڑھتے ہیںتو گویا یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا قرآن حکیم کی تفسیر پڑھ رہے ہوں۔ 
اقبالؒ جس دور میں اقبالؔ بنے وہ مشرقی اقوام کے لیے سیاسی بدحالی اور سماجی اضطراب کا دور تھا اور یہی درد ان کی شاعری میں نظر آیا ہے اور انہوں نے مسلمانوں کو ان کی عظمتِ رفتہ سے شاعری کے اسلوب میں متعارف کروایا ہے۔ ان کی شاعری میں فکر، تاریخ اور علمی حقائق پر تبصرے بھی ہیں لیکن ان کا سب سے بڑا فنی کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے پیغام،اپنی فکر اور فلسفے کو شاعری کو ادب عالیہ کا لباس پہنایا ہے۔ اقبالؔ کی فکر اور فلسفے سے مفکرین اور ناقدین نے اختلاف بھی کیا ہے لیکن اس کے سب معترف ہیں کہ ان کی شاعری میں شعریت کے محاسن اور مقصد کے ساتھ سوز، حسن، سرور ، نغمگی اور آہنگ کے ساتھ تخلیق کا جو اعلیٰ معیار موجود ہے اور یہ میعار انہوں نے فارسی اور اردو کلام دونوں میں برقرار رکھا ہے۔ 
علامہ کا جب انتقال ہوا تو ان کے فرزند جاوید اقبال کی عمر تقریباََ چودہ برس کی تھی۔ اس عرصے میں ابتدائی پانچ برس نکال دیے جائیں تو نو برس کا وہ قلیل عرصہ جس میں انہوں نے کم سنی کے باوجود اپنے والد کی شخصیت کا بغور مشاہدہ کیا۔ ڈاکٹر جاوید بتاتے ہیں کہ ان پر علامہ کی شخصیت کی جو خصوصیات منکشف ہوئیں ایک تو عالم اسلام سے ان کی بے پناہ محبت تھی اور دوسری رسولَ اکرم ﷺ کی ذات مبارکہ کے ساتھ بے مثال اور بے پناہ عشق۔ اس عشق کا تو یہ عالم تھا کہ اس کا اندازہ لگایا ہی نہیں جاسکتا : 
بپایاں چوں رس ایں عالم پیر
شود بے پردہ ہر پوشیدہ تقدیر
مکن روسا حضور خواجہؐ ما را
حساب من زچشم او نہاں گیر
علامہ کے لیے عشق مصطفیؐ ایک ایسی بے مثال نعمت تھی کہ حضور رسالتﷺ میں نہایت خلوص اور عاجزی کے ساتھ التجا کرتے:
ہمیں یک آرزو دارم کہ ’’جاوید‘‘
زعشق تو بگیرد رنگ و بوے
جاوید اقبال بتاتے ہیں کہ وہ اقبالؔ کے فقر و استغنا سے بھی متاثر ہوئے۔ زندگی کی مادی آسائشوں سے قطعی پاک اور بے نیاز۔ وکالت بھی کرتے تو اس حد تک کہ گھر کا خرچ چلتا رہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان کی زندگی میں ان کی تصانیف کی اشاعت کسی معقول آمدنی کا ذریعہ نہ بن سکی۔ گھر بنایا تو بیوی کے بچائے ہوئے روپوں سے اور فوت ہوئے تو اپنے فرزند کے کرایہ دار۔ زندگی کے آخری ماہ کا کرایہ بھی ادا کرکے وفات پائی اور بنک میں جو سرمایہ تھا وہ ان ہی کی خواہش کے مطابق کی تجہیز و تکفین پر خرچ ہوا۔ ان کی جرات اظہار اور حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے کی جرات کا بنیادی سبب ان کا فقر ہی تھا۔ اقبال یقینی طور پر عشق، فقر، جرات، حریت کا پیکر تھے ۔ 
علامہ اقبالؒ کا فکر ی پس منظر جڑا ہوا ہے اٹھارویں صدی میں سلطنت عثمانیہ، روس اور برطانیہ کے اقتدارکے زیر اثر دنیائے اسلام کا اخلاقی ، سیاسی اور اقتصادی زوال بدحالی تک پہنچ گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں عرب، شمالی افریقہ، جنوبی روس اور ہندوستان میں وہابی طرز کی اصلاحی تحریکیں ابھریں۔ اگرچہ ان تحریکوں کا عملی طور پر باہمی ربط نہ تھا لیکن مقاصد کے لحاظ سے یکسانیت پائی جاتی تھی۔ ان مقاصد میں تصوف، ملائیت اور سلطنت عثمانیہ کی مطلق العنانیت کے اثرات کو ختم کرنااور اسلام کی اصل اور حقیقی فکر کی تلقین کرنا تھا۔ لیکن جب یورپ کی اقتصادی ہوس بڑھی اور اس نے بعض اسلامی ممالک پر طاقت کا تسلط ہوا اور بعض کا اقتصادی استحصال ہوا۔ مغرب کی اس در اندازی سے مسلمان مغرب کے جدید تصورات آئین پسندی، سیکولر ازم، نیشنل ازم اور ریڈیکل ازم ایسے تصورات سے متعارف ہوئے۔
 مغربی افکا ر کی در اندازی کے سبب دنیائے اسلام میں دو نقطہ ہائے نظرپیدا ہوئے۔ ایک وہ جس نے مغربی افکار اور تہذیب و تمدن کی شد و مد کے ساتھ مخالفت کی ۔ ان میں عرب کے ابن عبد الوہاب، شمالی افریقہ کے محمد السنوسی اور ہندوستان میں سید احمد بریلوی اور تینوں کے معتقدین شامل تھے۔ اس فکر کے حامل افراد کو وہابی تحریک کہا گیا۔ دوسرے وہ مصلحین تھے جنہوں نے مغربی افکار کو اسلامی رنگ دینے کی کوشش کی۔ ان میں ترکی کے مدحت پاشا، جنوبی روس میں مفتی عالم جان، مصر میں شیخ محمد عبدہ اور ہندوستان میں سر سید احمد خان ایسے مفکرین جن کی فکر کو لبرل اور سیکولر ازم کہا گیا۔ایسے میں سید جمال الدین افغانی آگے بڑھے اور یورپ کی ترقی کو اختیار کرنے پر زور دیا وہابیت اور لبرل ازم میں مصالحت پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی جس کے نتیجے میں پان اسلام ازم کی تحریک وجود میں آئی۔ جو سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے کے وقت نیشنل ازم کی صورت اختیار کرگئی۔ 
اقبالؔ برِصغیر ہندوپاک میں روشن خیالی اور لبرل ازم کے سلسلے کے آخری چراغ ہیں۔ ان کا 1907ء کے بعد کا کلام فرد اور جماعت کی اہمیت ، تخلیقی عمل اور جہد مسلسل کے اصرار پر مشتمل ہے اور اس سارے کلام میں ان کا مطمح نظر مسلمانان عالم اور خاص کر مسلمانان ہند کی سماجی، اخلاقی، اقتصادی اور سیاسی ترقی ہے۔ 
اقبالؒ کا اختصاص یہ ہے کہ انہوں نے زندگی کے ہر پہلو کو ایک فلسفیانہ اساس قائم کرکے اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا ہے ۔ اقبال کا طرز تحریر نہ تو مناظرانہ رہا اور نہ عذر و معاذرت خواہانہ۔ انہوں نے نہایت جرات کے ساتھ اس فلسفے کو بیان کیاکہ خودی کی تعمیر سے مسلمان اپنی کھوئی ہوئی عظمتِ رفتہ کو بحال کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے ’’مردِ مومن‘‘ کی اصطلاح کا تصور بھی پیش کیا وہ مردِ مومن جس کی جلوت اور خلوت مکمل اسلامی رنگ میں ڈھلی ہوئی ہو۔ 
اقبالؒ کی ایک اور اہم خصوصیت ان کی اجتہادی فکر ہے ۔ اقبال مسلمانوں کے علم میں ایک خاص قسم کی تبدیلی و تجدید (Reformation) کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں ، اجتہاد کو مسلمانوں کی زندگی میں جاری و ساری دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے سامنے ایک تصور تو یہ تھا کہ بر صغیر میں مسلمانوں کی کوئی ریاست قائم ہو ۔ اقبال ترکوں کے خلافت کو ختم کرنے کو درست اقدام سمجھتے تھے اور جمہوریت ان کے خیال میں اسلام کی حقیقی تعلیمات کی طرف رجوع تھا۔یہ ان کا شوق اجتہاد ہی تھا کہ وہ اسلامی ممالک میں آئین ساز مجالس کے قیام کا خیر مقدم کرتے ہوئے مسلم اقوام پر زور دیتے تھے کہ وہ اپنے قدیم اداروں اور روایات پر نظر ثانی کریں۔ وہ جدید تجربات کی روشنی میں شریعت اسلام کی تعبیر کے لیے اجتہاد پر زور بھی دیتے تھے لیکن ساتھ ہی اس یہ شرط بھی رکھتے تھے کہ اجتہاد کو اس طرح کیا جائے کہ قوانین شریعت کی اصل روح ختم نہ ہونے پائے۔ 
دوسرا یہ کہ وہ پورے عالم اسلام کو زندہ و بیدار دیکھنا چاہتے ہیں ۔ہماری پرانی عظمت کی بازیافت کے لیے ان کے دل میں بے پناہ تڑپ ہے۔ جس کے لیے وہ ترکِ دنیا کی بجائے ترک ِفرنگ کی نصیحت کرتے ہیں۔ اقبالؔ اقوام مشرق کو مغربی استعمار کی قید سے رہائی کی جو تدابیر بتاتے ہیں ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اقوام مشرق کو مغرب کی نو استعماری سازشوں سے خبردار رہنے کے ساتھ ساتھ اپنے کھدر کو اغیار کے ریشم پر ترجیح دینا اور اپنے خام مال و وسائل کی حفاظت کرنا ہے۔دین کے ساتھ ان کی محبت بڑی غیر معمولی ہے۔

تبصرے بند ہیں.