اقبال ؒ… اک ولولہ تازہ دیا میں نے دلوں کو!

291

حکیم الامت حضرت علامہ اقبال ؒکی تاریخ پیدائش کی مناسبت سے ہر سال ۹ نومبر کو یوم اقبالؒ منایا جاتا ہے۔ پہلے ۹ نومبر کو عام تعطیل ہوا کرتی تھی۔ اب پچھلے چند برس سے یہ سلسلہ ہی منقطع نہیںہے بلکہ قومی سطح پر بھی اقبال ؒ کے حوالے سے کوئی بڑی تقریب ہی منعقد نہیں ہو رہی یہ قومی سطح پر ہماری بے حسی اور احسان فراموشی کا ثبوت ہے۔ زندہ قومیں اپنے محسنوں کے ذکر کو فراموش نہیں کرتیں۔ خیر اس سے قطع نظر یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ اقبالؒہی دیدہ ور تھے۔ دانائے راز تھے جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ صدیوں بعد کسی قوم میںایسی شخصیات پیدا ہوتی ہیں۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
حکیم الامت، شاعرِ مشرق حضرت اقبالؒ کی شخصیت، شاعری اور فکر و فلسفے کے بارے میںکچھ کہنا ایسے ہے جیسے سورج کو چراغ دکھانا اس لئے کہ اس بارے میں اتنا کچھ لکھا گیا ہے اور اتنا کچھ لکھا جاتا رہے گا کہ اس کو نقد و نظر میں پرکھنا شاید کسی کے بس کی بات نہ ہو۔ اقبال بلا شبہ حکیم الامت تھے، فلسفی تھے، شاعر تھے، دانائے راز تھے اُن کی شاعری اپنے ظاہری حسن کے لحاظ سے ہی بے مثال نہیں بلکہ باطنی حسن اور معنی اور مطالب کے لحاظ سے بھی بے مثال ہے۔ اس میں جو خوبصورت تراکیب استعمال ہوئی ہیں، اس میں الفاظ کی جو بندش ہے، معنی کی جو وسعت ہے، تاریخ اور تہذیب کا جو شعور ہے، خودی کی جو ترجمانی ہے، فکر و فلسفے کی جو گہرائی ہے، عقل و شعور کی جو فرمانروائی ہے، خیالات کی جو بلندی ہے، عشق حقیقی اور عشقِ رسولﷺ کی جو خوشبو ہے، قومِ رسولِ ہاشمی اور تہذیب حجازی کا جو تذکرہ ہے، ماضی کی جو منظر کشی ہے، حال کی جو اُمید افزائی ہے اور مستقبل کے جو سہانے خواب ہیں وہ سب کچھ اتنا عدیم النظیر ہے کہ اس کی اور کہیں مثال نہیں ملتی۔  میرے نزدیک اقبالؒ کی ہستی ملتِ اسلامیہ بالخصوص برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے اللہ کریم کا احسانِ عظیم تھا۔
اُنیسویں صد ی کے اواخر اور بیسویں صدی کے نصفِ اول میں جب ملتِ اسلامیہ زوال و انحطاط کی آخری حدوں کو چھو رہی تھی اور اُس پر نکبت اور ادبار کے بادل چھائے ہوئے تھے اور برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمان غلامی کے شب و روز اس انداز سے بسر کر رہے تھے کہ اُن کے قومی وجود کی بقا کو بھی حقیقی خطرات لاحق ہو چکے تھے تو ان کٹھن اور مشکل حالات میں اقبالؒ نے اپنے فکر و فلسفے اور اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو اسلام کا پیغام، عشق رسولﷺ کا پیغام، خودی کا پیغام، عظمتِ انسانیت کا پیغام اور مسلمانوں کی نشاۃِ ثانیہ اور عظمتِ رفتہ کو حاصل کرنے کا پیغام دیا۔ ملتِ اسلامیہ نے اقبالؒکے اس پیغام سے یقینا اثر قبول کیا، اُسے ولولہ تازہ ملا اور اُس نے اپنی غلامی کو اپنی آزادی اور اپنی نکبت و ادبار کو اپنی سربلندی میں تبدیل کیا۔ اقبال نے کس طرح ملتِ اسلامیہ کو خوابِ غفلت سے بیدار کیا اور اس میں آزادی اور اپنی کھوئی ہوئی عظمتِ رفتہ کو حاصل کرنے کی تڑپ اور ولولہ پیدا کیا اس کا اظہار اُن کی کئی نظموں اور زبانِ زدِ خاص و عام اشعار میں ہوتا ہے۔
اقبالؒ  کے اردو مجموعہ ہائے کلام بانگِ درا، بالِ جبریل اور ضرب ِ کلیم میں کتنی ہی ایسی نظمیں اور اشعار موجود ہیں جن سے اقبال کے فکر و فلسفے، ملتِ اسلامیہ کے لیے فکرمندی اور دردمندی کے ساتھ اُمید افزائی اور سب سے بڑھ کر ہادی برحق حضرت محمدﷺ سے ان کی سچی محبت اور عشق کا واضح اظہار ہوتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں وہ صفات پیدا ہو جائیں جو مرد مومن کا خاصہ ہیں۔ جن سے وہ خودی، خود شناسی، حریت فکری، بلند نگاہی، خود داری اور آزادی کی صفات سے متصف ہی نہ ہوں بلکہ ان کے اعمال و افعال سے صحابہ کرامؓ کی سیرت کی پیروی اور اسلام کی سچی تعلیمات اور عشق رسول ؐ کا عکس بھی جھلک رہا ہو۔ یہاں اقبالؒ کے اولین اردو مجموعہ کلام بانگِ درا میں شامل طویل نظم ’’طلوع اسلام‘‘ کے ساتھ ان کے دوسرے اردو مجموعہ کلام بالِ جبریل کی طویل نظم ’’ذوق و شوق‘‘ کے کچھ اشعار جو مجھے ذاتی طور پر پسند ہیں کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ ان میں اقبالؒ کے فکر و فلسفے، اُمت مسلماں سے لگاؤ اور عشق حقیقی کی کیا خوب صورت کیفیت پائی جاتی ہے۔ تاہم اس سے پہلے دو تین ایسے اشعار کا ذکر کیا جاتا ہے جن میں سے پہلے شعر میں اقبالؒ کے مسلمانوں کی عظمت رفتہ سے لگاؤ اور ان کے لیے امید افزائی کا ایسا پیغام سامنے آتا ہے جسے ہر کوئی بڑی آسانی سے سمجھ سکتا ہے بلکہ اقبالؒ خود جو کہتے ہیں:
اک ولولہ تازہ دیا میں نے  دلوں کو کا اظہار بھی سامنے آتا ہے۔ اگلے دو اشعار جن کا حوالہ دیا جا رہا ہے نعتیہ ہیں اور مدح رسولؐ میں لکھے گئے ہیں۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ ختمی مرتبت، ہادی برحق حضرت محمدﷺ کی مدح میں کسی نے اس طرح کی ترکیبات اور قرآنی مقطعات کا استعمال کیا ہو، جن کی تشریح اور توضیح کرتے ہوئے دفتر بھر جائیں اور وہ مکمل نہ ہونے پائے۔
پہلا شعر کچھ اس طرح ہے:
یاد عہد رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے
میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے
اقبالؒ  کے نزدیک مسلمانوں کے گزرے ہوئے دور یا زمانے کی یاد ان کے لیے اکسیر اور ان کے تمام امراض کے علاج کی حیثیت ہی نہیں رکھتی بلکہ مسلمانوں کا شاندار ماضی ان کے مستقبل کی تصویر کشی بھی کرتا ہے کہ وہ وقت آنے والا ہے جب ملت اسلامیہ اپنی ماضی کی شاندار روایات کو دہرانے اور اپنی عظمت رفتہ کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گی۔ اگلے دو اشعار جن کے بارے میں جیسا اوپر کہا گیا ہے وہ نعتیہ ہیں اور ان میں ختم المرسلین حضرت محمدﷺ کی جو مدح سرائی کی جا رہی ہے اس کی وسعت و معنی آفرینی اور اس میں پہناں عشق و محبت کا شاید کوئی مقابلہ و موازنہ نہ کیا جا سکے۔ کیا خوب صورت، پُر عظمت، پاکیزہ اور جاہ و جلال کے حامل اشعار ہیں:
وہ دانائے سبل ختم الرسلؐ مولائے کل
جس نے غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسین وہی طحٰہ
اقبالؒ  کے عشق رسولؐ کے سچے اور پاکیزہ جذبات سے لبریز اشعار کا تذکرہ چلا ہے تو بالِ جبریل میں شامل ان کی نظم ’’ذوق و شوق‘‘ جس کا اوپر حوالہ آ چکا ہے کے ایک نعتیہ بند کے اشعار کو نقل کیا جاتا ہے۔ پانچ بندوں اور تیس اشعار پر مشتمل اس نظم کے زیادہ تر اشعار فلسطین میں کہے گئے جب  اقبالؒ گزشتہ صدی کے تیس کے عشرے کے شروع میں موتمر عالم ِاسلامی کی دعوت پر ارض فلسطین تشریف لے گئے۔ اقبالؒ لندن میں گول میز کانفرس میں شرکت کے بعد وطن لوٹتے ہوئے سپین سے ہوتے ہوئے مفتی اعظم فلسطین حضرت آمین الحسینی کی دعوت پر بیت المقدس پہنچے۔ سپین میں مسلمانوں کی عظیم اور بے مثل تاریخی یادگاروں کو دیکھنے کے لیے غرناطہ اور قرطبہ کے قدیم تاریخی شہروں میں ہی نہ گئے بلکہ ’’مسجد قرطبہ‘‘ جیسی معرکۃ الآرا نظم بھی لکھی۔ فلسطین کے قیام کے دوران انہوں نے اپنی اس نظم ’’ذوق و شوق‘‘ کے اشعار کہے۔ 5بندوں پر مشتمل اس نظم کا چوتھا بند مکمل طور پر نعتیہ اشعار پر مشتمل ہے۔ اقبالؒ کہتے ہیں:
لوح بھی تو قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب!
عالم ِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرۂ ریگ کو دیا تو نے طلوع آفتاب!
شوکت ِ سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود!
فقرِ جنید و بایزید تیرا جمالِ بے نقاب!
تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پا گئے
عقل، غیاب و جستجو! عشق، حضور و اضطراب!
اس بند کے دو اشعار چھوڑ دیئے گئے ہیں ورنہ وہ بھی کچھ کم محبت و عقیدت کے جذبات کو سمیٹے ہوئے نہیں ہیں۔ ذرا غور کیجئے پہلے شعر کے پہلے مصر عے میں لوح ،الکتاب کی جو وسیع المفہوم ہماری دین کی تعلیمات سے جڑی خوب صورت ترکیبات استعمال ہوئی ہیں اور اسی شعر کے دوسرے مصرعے میں گنبد آبگینہ رنگ، محیط اور حباب کے جو الفاظ اور ترکیبات استعمال ہوئی ہیں ان کے مفہوم و مطالب کی وسعت، گہرائی، عظمت، بڑائی اور پاکیزگی کی کوئی تشریح کر سکتا ہے؟ میں نہیں سمجھتا کہ ایساآسانی کے ساتھ کیا جا سکے۔ اسی نظم کے پانچویں بند میں یہ شعر بھی موجود ہے جس میں اقبالؒ نے عشق (عشقِ حقیقی) اور عقل (دنیاوی جاہ و ہوس) کے بارے میں کیا پاکیزہ اور مقدس توضیح کی ہے۔
تازہ میرے ضمیر میں معرکہ کُن ہوا
عشق تمام مصطفی ؐعقل تمام بُولہب

تبصرے بند ہیں.