یہ اندر کی خبریں کب اور کون بتائے گا؟

101

جب بھی کبھی کسی اہم واقعے کی اندر کی خبر کا پتا چلتا ہے تو یہ خیال مزید پکا ہو جاتا ہے کہ بڑے واقعات خودبخود نہیں ہو جاتے بلکہ اُن کے پیچھے مفادات کی منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ لیبیا کے رہنما معمر قذافی کے قتل کا تھا۔ بظاہر قذافی اپنے مخالفین نیشنل ٹرانزیشنل کونسل کے باغیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ وہ اپنے چند حامیوں کے ساتھ سیوریج کے ایک بڑے پائپ میں چھپے ہوئے تھے جب انہیں گھسیٹ کر باہر نکالا گیا اور انہیں بندوق کی سنگینوں کے ساتھ ساتھ گولیوں سے بھی چھلنی کیا گیا۔ جس وقت لیبیا کے سابق صدر معمر قذافی کو قتل کیا گیا اس وقت ان کی زبان پر یہ الفاظ تھے ’’میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟‘‘ سامنے آنے والی پرانی خفیہ ای میلز دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ معمر قذافی کو اس لیے بے دردی سے قتل کیا گیا کیونکہ فرانس افریقی ممالک میں اپنی مالی دھاک برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کی 2016ء میں سامنے آنے والی خفیہ ای میلز کا کچھ حصہ امریکی محکمہ خارجہ نے جاری کیا۔ جاری کردہ ای میلز کی تعداد تین ہزار تھی۔ ان ای میلز کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ان میں اس بات کے ٹھوس ثبوت موجود تھے کہ مغربی ممالک نے نیٹو کو معمر قذافی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے استعمال کیا۔ نیٹو کی جانب سے قذافی کا تختہ الٹنا عوام کی فلاح کے لیے کیا جانے والا اقدام نہیں تھا بلکہ اس کا مقصد قذافی کو سونے کی بنیاد پر افریقی خطے میں فرانسیسی اور یورپی کرنسی کی طرح مقامی مشترکہ کرنسی متعارف کرانے سے روکنا تھا کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں مغربی مرکزی بینکاری کی اجارہ داری ختم ہونے کا خدشہ تھا۔ اپریل 2011ء میں ہلیری کلنٹن کو ان کے مشیر اور ان کے دیرینہ ساتھی سڈنی بلومینتھل نے ’’فرانس کا کلائنٹ اور قذافی کا سونا‘‘ کے عنوان سے ای میل بھیجی جس میں واضح طور پر مغربی ممالک کے بہیمانہ ارادوں کا احاطہ کیا گیا تھا۔ ای میل میں لکھا تھا کہ فرانس کی قیادت میں نیٹو افواج نے لیبیا میں کاروائی شروع کی ہے جس کا بنیادی مقصد لیبیا کے تیل کا زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنا اور ساتھ ہی قذافی کے اس دیرینہ منصوبے کو ناکام بنانا تھا جس کے تحت وہ افریقہ میں فرانس کے زیرغلبہ علاقوں میں اپنا غلبہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے ’’فارن پالیسی جرنل‘‘ کا کہنا ہے کہ ای میل میں سابق فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی کو لیبیا پر حملہ کرنے کے خواہش مندوں میں سرفہرست بتایا گیا۔ اس ای میل میں پانچ بنیادی مقاصد ذہن میں رکھنے کے لیے کہا گیا۔ لیبیا کا تیل حاصل کرنا، خطے میں فرانس کا اثرورسوخ برقرار رکھنا، ملک میں داخلی سطح پر نکولس سرکوزی کی ساکھ بہتر کرنا، فرانسیسی عسکری قوت کو اجاگر کرنا اور قذافی کے افریقی خطے میں اثرورسوخ بڑھانے کو روکنا۔ اس حوالے سے قذافی کے طویل عرصہ تک ترجمان رہنے والے شخص موسیٰ ابراہیم نے روسی ٹی وی کے پروگرام ’’گوئنگ انڈر گرائونڈ‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’معمر قذافی کو اس لیے راستے سے ہٹایا گیا کیونکہ وہ افریقہ سے غیرملکی استحصال کا خاتمہ کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ نیٹو کی وجہ سے ایسے تمام گروپس جنہیں کنٹرول میں رکھا گیا تھا وہ کھل کر باہر آگئے اور انہوں نے لیبیائی قوم کا ایک خواب چکنا چور کردیا۔ یہ خواب اور اس کے لیے منصوبہ دہائیوں کی نوآبادیاتی اور اس کے بعد کے نظام کو دیکھ کر اور تجربات حاصل کرکے مرتب کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان لوگوں کا کام ملکوں میں جنگوں کے ذریعے افراتفری، داخلی تنازعات، مذہبی تقسیم اور قبضے کو پھیلانا ہے۔ اس کے بعد افراتفری کو بڑھاتے جائیں اور بحران کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کے راستے ملتے جاتے ہیں‘‘۔ معمر قذافی کے قتل کی مذکورہ خفیہ معلومات پڑھنے سے سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا پاکستان سے تعلق رکھنے والے چند اہم واقعات کی اندر کی خبریں بھی کبھی باہر آئیں گی؟ مثلاً جنرل محمد ایوب خان کو اقتدار میں لانے اور بے عزت کرکے واپس بھیجنے کی اندر کی کہانی کیا تھی؟ ذوالفقار علی بھٹو کو عوامی لیڈر بناکر پھانسی پر چڑھانے کی اندر کی وجوہات کیا تھیں؟ وہ اندر کی کہانی کیا تھی جس کے باعث یورپ اور امریکہ کا کمیونزم کے خاتمے کا خواب پورا کرنے والے جنرل ضیاء الحق کو اچانک ہوا میں ہی ختم کرنا پڑا؟ بینظیر بھٹو کا قتل اندرونی مفادات کے ساتھ ساتھ کیا کسی انٹرنیشنل مفاد کے لیے بھی تھا؟ یہ اندر کی خبر کب پتا چلے گی؟ نواز شریف کے اقتدار کو پاش پاش کرنے کی اندر کی کہانی کیا اِس سے بھی جڑی ہوئی تھی کہ نواز شریف چین کے ساتھ مقامی کرنسی میں تجارت کرنا چاہتے تھے جو امریکی ڈالر کے لیے ایک چیلنج تھا؟ مزید یہ کہ وہ خطے میں مغربی اثرورسوخ کو علاقائی طاقتوں کے ساتھ مل کر ختم کرنا چاہتے تھے۔ کیا یہ بھی کبھی پتا چلے گا کہ عمران خان کے سرپر اقتدار کا ہُما بٹھانے کی وجوہات مقامی تھیں یا اُن میں انٹرنیشنل سوچ بھی شامل تھی؟ کیا انٹرنیشنل کمیونٹی کی مظلوم بھارتی مقبوضہ کشمیریوں سے ہمدردی نہ ہونے کی وجہ بھارت کی خوشامد کرنا ہے تاکہ بھارت کو چین کے مقابلے کے لیے تیار کیا جاسکے؟ کیا یہ اندر کی کہانی بھی کبھی باہر آئے گی؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگست 1947ء میں انگریزوں نے کشمیر کو جان بوجھ کر دو حصوں میں تقسیم کیوں کیا؟ مندرجہ بالا اندر کی خبریں کب اور کون بتائے گا؟ 

تبصرے بند ہیں.