میرے بعد کس کو ستائو گے؟

150

معروف دانشور شاعر وکالم نویس اجمل نیازی کی ادبی خدمات ودلچسپ یادوں پر مشتمل فی الحال یہ میرا آخری کالم ہے، اُن کی یادیں اور باتیں ختم ہونے والی نہیں، میرا اُن کا تعلق اور ادب کااِک رشتہ تیس برسوں پر محیط ہے،… گزشتہ کالم میں یہ میں عرض کررہا تھا عطا الحق قاسمی، دلدار پرویز بھٹی اور حسن رضوی مرحوم کے ساتھ اُن کی بڑی دوستی تھی، یہ تینوں آپس میں ناراض بھی بہت جلدی ہوتے اور مان بھی بہت جلدی جاتے، اُنہوں نے شاید آپس میں طے کرکے سب سے زیادہ ناراضگی کا حق اجمل نیازی کو دے رکھا تھا، سو کچھ دن اگر اجمل نیازی اُن کی کسی بات کا غصہ نہ کرتے، اُن سے ناراض نہ ہوتے، اُن کے یہ شرارتی دوست خصوصی جدوجہد کرکے اُنہیں ناراض کرلیتے تھے، جیسا کہ گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا حسن رضوی مرحوم اجمل نیازی کو ’’چرغا‘‘ کہتے تھے، اجمل نیازی اس کا بہت بُرا مناتے، آہستہ آہستہ یہ اُن کی چھیڑ پڑ گئی، ایک بار روزنامہ جہاں نما لاہور کے چیف ایڈیٹر طارق فاروق (مرحوم) نے اپنے گھرواقع بیڈن روڈ لاہور میں ایک عشائیے کا اہتمام کیا، کھانے کی میز پر ایک ٹرے میں دو ’’چرغے‘‘ بھی رکھے ہوئے تھے، اجمل نیازی میز پر پڑی مزے مزے کی ڈشیں دیکھ کر واہ واہ، سبحان اللہ اور ماشاء اللہ کہتے رہے، چرغے رومال سے ڈھکے ہوئے تھے، اجمل نیازی کو نہیں پتہ تھا کہ اِس رومال کے نیچے چرغے ہیں، جیسے ہی سب مہمان کھانے کی اس میز پر بیٹھ گئے، چرغوں کی ٹرے سے رومال ہٹایا گیا تو اجمل نیازی کا موڈ سخت خراب ہوگیا، پہلے تو اُنہوں نے انتہائی قہر آلود نظروں سے میری طرف دیکھا، پھر بیگم طارق فاروق سے پوچھنے لگے ’’یہ چرغے آپ نے توفیق کے کہنے پر منگوائے ہیں؟‘‘…وہ بولیں ’’نہیں یہ خاص طورپر آپ کے لیے منگوائے ہیں‘‘ اِس پر میرے کان میں بڑے غصے سے اُنہوں نے کہا ’’اوئے ایناں نوں وی دس دِتا ؟‘‘…میں نے قسم اُٹھائی کہ میں نے نہیں بتایا…کھانے کے دوران اُن کا موڈ سخت خراب رہا، جیسے ہی چرغوں سے کوئی رومال اُٹھاتا وہ جلدی سے دوبارہ رومال چرغوں پر ڈال دیتے، کچھ دیر بعد اُن کی ہمت جواب دے گئی اُنہوں نے  بڑی بددلی سے تھوڑا سا کھانا پلیٹ میں ڈالا اور الگ سے جاکر صوفے پر بیٹھ گئے، پھر دوبارہ اُٹھ کر وہ کھانے کی میز پر نہیں آئے، اِس ڈنر کے لیے مجھے میرے گھر سے اجمل نیازی نے پک کیا تھا، واپسی پر وہ اس شبے میں کہ چرغوں کے لیے شاید میں نے میزبان سے کہا تھا اکیلے ہی وہاں سے نکل گئے حالانکہ طے یہ ہوا تھا واپسی پر بھی وہی مجھے ڈراپ کریں گے …ایک بڑے مزے کا واقعہ جناب عطا الحق قاسمی نے بھی اِس حوالے سے لکھا ہے، اُنہوں نے پورا واقعہ نہیں لکھا، ہوا یہ تھا شاید منصور آفاق نے اجمل نیازی کے اعزاز میں میانوالی میں ایک تقریب کا اہتمام کررکھا تھا، ہمارا قیام میانوالی کے سرکٹ ہائوس میں تھا، رات کو کسی بات پر حسن رضوی اور اجمل نیازی میں بحث ہوگئی، حسن رضوی نے طیش میں آکر اجمل نیازی کو چرغا کہہ دیا، اجمل نیازی یہ سُن کر حسن رضوی کو مارنے کے لیے دوڑے، میں نے نیازی صاحب کو جپھا ڈال لیا، بات گالم گلوچ تک رہی، پھر کچھ دوستوں نے کوشش کرکے دونوں کی صلح صفائی کروادی، حسن رضوی نے معافی مانگ لی، ہمارا خیال تھا اِس کے بعد اجمل نیازی کا غصہ مکمل طورپر ٹھنڈا ہو جائے گا، یعنی یہ معاملہ اب مستقل طورپر رفع دفع ہوگیا ہے کیونکہ صلح صفائی کے بعد حسن رضوی اور اجمل نیازی کو آپس میں ہم نے بڑے خوشگوار موڈ میں بات چیت کرتے ہوئے بھی دیکھا تھا، عطا الحق قاسمی اور حسن رضوی سرکٹ ہائوس کے ایک کمرے میں تھے، دوسرے کمرے میں اجمل نیازی اور میں تھے، اچانک آدھی رات کو شور سے میری آنکھ کھل گئی، میں نے دیکھا اجمل نیازی بیڈ پر نہیں تھے، میں کمرے سے باہر نکلا وہ اُس کمرے کے دروازے پر زور زور سے ٹھڈے مار رہے تھے ، جس میں حسن رضوی اور عطا الحق قاسمی تھے ، ساتھ ہی ساتھ وہ حسن رضوی کو گالیاں دے رہے تھے، میں نے پوچھا ’’ اجمل بھائی کیا ہوا ہے ؟‘‘،کہنے لگے یہ ہوتا کون ہے مجھے چرغا کہنے والا ۔…میں نے عرض کیا مگر حسن رضوی نے تو آپ سے معافی مانگ لی تھی، آپ کی تو اُس سے صلح ہوگئی تھی، فرمانے لگے وہ صلح تو میں نے وقتی طورپر آپ دوستوں کے دبائو میں آکر کی تھی، …سو اگلی صبح ہم نے دوبارہ دونوں کی صلح کروائی، جس کے لیے اجمل نیازی نے شرط یہ رکھی کہ آئندہ صرف یہ نہیں کہ حسن رضوی اُنہیں چرغا نہیں کہے گا بلکہ حسن رضوی آئندہ چرغا کھائے گا بھی نہیں …اسی سے جُڑاہوا ایک اور مزے کا واقعہ یہ ہے ایک بار ایک خاتون شاعرہ نے اجمل نیازی کو فون کیا، اجمل نیازی اُس خاتون شاعرہ کو نہیں جانتے تھے، تب موبائل فون نہیں ہوتے تھے، پی ٹی سی ایل کا زمانہ تھا، اُس خاتون شاعرہ جو یہ جانتی تھی اجمل نیازی ’’چرغے‘‘ سے بہت چڑتے ہیں نے اُن سے کہا ’’سر میں آپ کے کالم بڑے شوق سے پڑھتی ہوں‘‘۔اجمل صاحب کہنے لگے ’’اچھا تو پھر آپ سے کسی روز ملاقات ہونی چاہیے‘‘… اُس شاعرہ نے پوچھا ’’ میں آپ سے ملنے کے لیے کہاں حاضر ہوں ؟‘‘ وہ بولے ’’کسی پارک وغیرہ میں یا مال روڈ پر واقع شیزان ہوٹل میں مِل لیتے ہیں‘‘…شاعرہ نے پوچھا ’’ سراِن دو مقامات کے علاوہ ہم کہیں نہیں مل سکتے ؟‘‘اجمل نیازی بولے ’’کیوں نہیں مِل سکتے، آپ بتائیں، آپ جہاں کہو گی میں آجائوں گا‘‘ … وہ بولی ’’سر آپ کے گھر کے قریب ’’چرغاہائوس‘‘ ہے۔آپ وہاں نہیں آسکتے ؟‘‘…یہ سنتے ہی اجمل نیازی کا رومانٹک موڈ شدید ترین غصے میں بدل گیا، پھر جوکچھ اُس شاعرہ سے اُنہوں نے کہا، بعد میں وہ شاعرہ مزے لے لے کر یہ قصہ شاعروں وادیبوں کو سناتی رہی، … نیتوں کے حال اللہ جانتا ہے، میں نے یہ یادیں کسی بھی حوالے سے اجمل نیازی کی تضحیک کے لیے تازہ نہیں کیں، اپنی زندگی میں چند لوگ جنہیں میں نے دل سے چاہا، دِل سے جن کی عزت کی، ایک اُن میں اجمل نیازی تھے، اِس کے باوجود کہ حسن رضوی اور اجمل نیازی آپس کی چھیڑ خانیوں کی وجہ سے ایک دوسرے سے  زیادہ تر ناراض ہی رہتے تھے۔ حسن رضوی کو حکومت پاکستان نے جب پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا اُس کی سب سے زیادہ خوشی اجمل نیازی کو ہوئی، سب سے پہلے حسن رضوی کو جو شخص مبارک دینے اُن کے گھر گیا وہ اجمل نیازی تھا، … دوستوں سے بہت جلد ناراض ہونے والا اور بہت جلد مان جانے والا یہ عظیم شخص اب ہم میں نہیں رہا، ہم ایسے مخلص دوستوں کی اکثریت سے محروم ہوچکے ہیں جو فوراً ناراض ہو جاتے تھے اور فوراً سے پہلے مان جاتے تھے، جو بدلے نہیں لیتے تھے، جو دِلوں میں بغض نہیں رکھتے تھے، جو منافقت نہیں کرتے تھے، جو پیٹھ پیچھے وار نہیں کرتے تھے، اب تو پتہ ہی نہیں چلتا کون کس کا دشمن ہے کون دوست ہے؟
میرے سینے پہ کیا وار دشمن نے میرے 
میری پُشت میں میرے یار کا خنجر اُترا
       (ختم شد)    

تبصرے بند ہیں.