1996ء کا سال تھا جون کی شدت زدہ گرمی میں ایشیا کی تیسری بڑی یونیورسٹی یعنی پنجاب یونورسٹی نے بی اے /بی ایس سی کا پہلا سالانہ امتحان منعقد کیا۔ہم بھی بی اے کا امتحان دے کر فارغ ہوئے تو پتہ چلا کہ اس امتحان کا حتمی نتیجہ پانچ ماہ بعد (نو ماہ ہوتے تو ہمیں صبرِ صمیم بھی آجاتا)یعنی نومبر میں آئے گا اور ایم اے یا دیگر کسی کورسز میں داخلہ اگلے سال یعنی 1997 کے جولائی اگست میں ہوگا۔گو مگو کی اس کیفیت میں سارا دن ناصر کاظمی،پروین شاکر،سیف الدین سیف،ساحر لدھیانوی،اے ڈی نسیم،ڈاکٹر بشیر بدر،عبید اللہ علیم،فرحت عباس شاہ،محسن نقوی اور احمد فراز کو پڑھتے رہتے۔نثر میں نسیم حجازی،پطرس بخاری اور صدیق سالک کو پڑھنے کی تگ و دو میں لگے رہتے۔فرسٹریشن کے اس دورہ میں جب ادب سے اکتاہٹ سی محسوس ہوئی تو ہم نے فرار کی راہ اختیار کی اور ہفتہ عشرہ کے لیے کراچی کے ہو گئے۔کراچی پہنچ کر بھی بے دلی کو حتمی قرار نہ آیا۔چند دن کی سیر کے بعد ایک اتوار کی صبح ایک بڑے اخبار کا ’’سنڈے میگزین‘‘ہاتھ لگا۔ ہمیں ناشتہ بھول گیا اور اخبار کے چسکے نے بھرپور لطف دیا۔ابھی آدھا میگزین صرفِ نظر ہوا تھا کہ اگلے صفحہ پر سرائیکی کے دو اشعار نے مجھے چونکا دیا۔جس دریا کو میں اوکاڑا چھوڑ کر آیا تھا وہی دریا اب سمندر کی صورت میں میرے سامنے کھڑا تھا۔اشعار کچھ یوں تھے۔
کیں کوں مان وفاواں دا
کیں کوں ناز اداواں دا
اساں پیلے پاتر درختاں دے
ساکوں راہندا خوف ہواواں دا
شاکر شجاع آبادی کے ان اشعار نے مجھے اداسی اور غم کی ایک نئی اور غیر محسوس شدت سے آشنائی بخشی۔میں نے ایک ہی سانس میں شاکر کا سارا انٹرویو پڑھ ڈالا۔تب سے لے کر تا دمِ تحریر شاکر شجاع آبادی میرے دل کے نہاں خانوں چھپا بیٹھا ہے۔سرائیکی دوہڑا ہو،گیت ہو،نظم ہو یا غزل ہو۔شاکر شجاع آبادی نے سرائیکی ادب کو عروج بخشا۔سرائیکی وسیب سے ہٹ کر بھی پورے ملک کے ادیبوں نے شاکر سے بے پناہ محبت بھی کی اور ان کے ادبی مقام کو دست بستہ تسلیم کیا۔شاکر پر جب بھی صحت اور فکرِمعاش کے حوالے سے کڑھا وقت آیا تو حکومتی نمائندوں اور وسیب کے لوگوں نے شاکر کی آواز پر لبیک کہا مگر شاکر کی اولاد نے شاکر کو رسوا کرنے اور انکی بیماری کو کیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔کہانی کچھ یوں ہے۔پاکستانی حکومت نے انہیں دو بار پاکستانیوں کے سب سے بڑے ایوارڈ صداتی ایوارڈ اور نقد14 لاکھ روپے سے نوازا۔مسلم لیگ نواز کے دور میں پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے دس لاکھ کی امداد دی جو کہ ان کے اکائونٹ میں جمع کرائی گئی تاکہ اس رقم کا منافع انہیں تمام عمر ملتا رہے اور وہ منافع مل رہا ہے۔اس کے ساتھ حکومت پنجاب انہیں 20 ہزار ماہانہ وظیفہ عطا کر رہی ہے۔
اکادمی آف لیٹرز آف پاکستان کی جانب سے انہیں13 ہزار ماہانہ ملتا ہے۔پاکستانیوں کے ہر سرکاری ہسپتال میں ان کے لیے مفت علاج کی سہولت موجود ہے۔شاکر صاحب جب چاہیں علاج کرا سکتے ہیں۔اس وقت شاکر شجاع آبادی کو دو این جی اوز کی طرف سے 50000 ہزار ماہانہ وظیفہ بھی مل رہاہے.بے شک شاکر شجاع آبادی ایک عظیم شاعر ہیں مگر بڑھاپے میں ان کی اولاد ان کی تذلیل کررہی ہے۔ان کے دونوں جوان بیٹے اگر موٹر سائیکل پہ لٹکانے اور وڈیو بنا کے وائرل کرنے کے بجائے باپ کا خیال رکھتے تو یہ بہت خوبصورت عمل ہوتا۔یہاں تک کہ شہباز شریف کے دور میں ایک بیٹے کو نائب قاصد کی سرکاری نوکری دی گئی،مگر اس نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ یہ کوئی نوکری ہے جب کہ صاحبزادے کی تعلیم صرف مڈل تھی اور موصوف مرغوں کی لڑائی کراتا ہے۔ مرغوں پر لاکھوں روپے جوا لگاتاہے اور باپ کی امداد کے یہ سلوک کر رہا ہے۔یہ تو اس سے پہلے کی روداد ہے مگر ابھی جب شاکر شجاع آبادی کی بیماری اور ان کی حالتِ زار کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو بہت سارے سیاستدان، وزیر، ان کی مدد کو آگے آئے۔ سب سے پہلے بلاول بھٹو نے اعلان کیا کہ سندھ گورنمنٹ ان کے علاج کا خرچہ ادا کرے گی اور یوسف رضا گیلانی کے ذریعے ایک ملین روپے مزید امداد بھی بھیج دی گئی۔کچھ دن پہلے 5 لاکھ کی رقم جہانگیر ترین نے عیادت کرنے کے وقت دیئے اور 50000 ہزار ماہانہ وظیفہ بھی مقرر کردیا۔ اس کے بعد 3 لاکھ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے دیئے ہیں اور 36000 ماہانہ وظیفہ بھی مقرر کیا ہے۔
مقامی وڈیروں،جاگیر داروں کی جانب سے بھی اب تک لاکھوں روپے کی رقوم شاعر شجاع آبادی کے نکھٹو اور نالائق بیٹے امداد کے نام پر وصول کر چکے ہیں۔ ان تمام مراعات کے باوجود ان کی حالت عرصہ دراز سے ٹھیک ہونے کے بجائے بگڑتی ہوئی دیکھی جاتی ہے۔شاکر شجاع آبادی کے دونوں بیٹے جوا، نشے میں لگے ہوئے ہیں۔ اسی وجہ سرائیکی وسیب کے موجودہ دور کے سب سے عظیم شاعر شاکر شجاع آبادی اپنی زندگی میں ہی مشکل ترین زندگی بسر کر رہے ہیں۔جس کا دکھ ان کے بیٹوں کو قطعاً نہیں ہے۔یہ دکھ ہم ادیب برادری کو ہوتا ہے بلکہ ہمارے لیے سوہانِ روح بنا رہتا ہے۔ان کے بیٹے شاکر کی بیماری اور غربت کا بہانا بنا کر نت نیا ڈھونگ رچا کر امدار بٹورنے کے چکر میں رہتے ہیں۔یہ ایک قابل افسوس عمل ہے اور شاکر شجاع آبادی کی ذات اور عزت نفس کے ساتھ کھلواڑ ہے۔بقول جاوید رامش
روز اک فال نکلتی ہے پسِ پردہِ تخت
اور جنات بتاتے ہیں کہ کرنا کیا ہے
Prev Post
تبصرے بند ہیں.