اور معاہدہ ہو گیا

83

وفاقی حکومت اور کالعدم تنظیم تحریک لبیک پاکستان کے درمیان معاہدہ طے پاگیا ہے ۔یہ اعلان وفاقی حکومت کی طرف سے وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ،سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر،علی محمد خان اور کالعدم تحریک لبیک کے ضامن کے طور پر مفتی منیب الرحمان نے کیا ۔شنید یہی ہے کہ علماء کے ایک وفد نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی ۔ اس ملاقات میں بہت کچھ طے پا گیا تھا ۔ علماء نے وزیر اعظم عمران خان سے درخواست کی تھی کہ اجلاس کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے ضروری ہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور معاون خصوصی مولانا طاہر اشرفی کو شریک مجلس نہ کیا جائے ۔وزیراعظم عمران خان نے علماء کا یہ مطالبہ مان کر دونوں کو اس مجلس سے دور رکھا ۔وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات کے بعد وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری اور علماء کے وفد نے نوید سنائی کہ اب معاملات حل ہو جائیں گے ۔یہ تووہ کوششیں تھیں جو وفاقی وزراء کر رہے تھے لیکن ان کو کامیابی ملنا مشکل تھا ۔اگر چہ میڈیا پر وفاقی اور صوبائی وزراء کے کالعدم تحریک لبیک کے ساتھ مذاکرات کا چرچہ رہا ۔وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد روزانہ کی بنیاد پر پریس کانفرنس کرتے رہے ۔ وفاقی وزیر اطلاعات پریس کانفرنس اور سوشل میڈیا دونوں سے کام چلاتے رہے لیکن اصل مسئلہ جوں کا توں ہی رہا۔کالعدم تحریک لبیک کے کارکن لاہور سے روانہ ہو چکے تھے ۔پولیس اور کالعدم تحریک لبیک کے کارکنوں کے درمیان جھڑپ میں کئی پولیس اہلکار جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ کئی درجن پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ صورت حال پولیس کے ہاتھوں سے نکل گئی تھی، اس لئے پورے پنجاب کو رینجرز کے حوالے کیا گیا ۔لیکن پھر بھی کالعدم تحریک لبیک کے کارکن ایک جگہ پڑائو ڈالنے پر راضی نہیں تھے اور آگے ہی بڑھتے گئے ۔
وزیراعظم عمران خان کو جب احساس ہو گیا کہ پانی سرسے گزر چکا ہے تو انھوں نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلالیا ۔قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ مسئلے کا واحد حل بات چیت ہے ۔ تشدد سے گریز کیا جائے اور سنجیدہ شخصیات کو شامل کرکے کالعدم تحریک کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا جائے ۔ایک طرف وفاقی وزراء کی لن ترانیاں جاری تھی تو دوسری طرف انہی وزیروں اور مشیروں سے الگ کا لعدم تحریک لبیک کے ساتھ بات چیت شروع کی گئی ۔اگلے ہی روز وفاقی حکومت اور کالعدم تحریک لبیک کے درمیان معاہدے کا اعلان کیا گیا اور ملک کے جید علماء کا وہ وفد جس نے وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات کی تھی منہ دیکھتے رہ گئے کہ جس کا پورے فسانے میں تذکرہ نہیں تھا وہی شخصیات معاہدے کی نوید سنا گئے۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید ،وفاقی وزیر اطلاعات فواد  چوہدری اور وفاقی وزیر پیر نورالحق قادری حیران و پریشان ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ابھی تو انھوں نے بات چیت شروع بھی نہیں کی تھی کہ ایک اور فریق نے مذاکرات تو کیا معاہدے کا اعلان کر دیا ۔ان تینوں وفاقی وزراء پر وزیر اعظم عمران خان اور طاقت کے سرچشموں کا عدم اعتماد یہی خوش خبری دے رہی ہے کہ اگر حالات بہتر ہوئے تو ان کا مستقبل تاریک ہو سکتا ہے ۔
وفاقی حکومت اور کالعدم تحریک لبیک کے درمیان چند گھنٹوں کے خفیہ مذاکرات کے بعد معاہدہ ہوجانے سے یہ سوالات پیدا ہوگئے ہیں کہ ان چند دنوں میں پوری قوم کو جس اذیت سے گزرنا پڑا اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ پولیس کی جو قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں ان کا مداوا کون کریگا اور کیا یہ ممکن ہے کہ ان کا مداوا کیا جا سکے؟ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ اگر کالعدم تحریک لبیک کے ساتھ معاہدہ صرف چند گھنٹوں کی بات چیت سے کیا جاسکتا تھا تو اس میں آٹھ دن کیوں لگائے گئے ؟کیا وزیر اعظم عمران خان اس تمام صورت حال سے آگاہ تھے یا وفاقی وزراء نے ان کو بے خبررکھا ؟یہی وہ سوالات ہیں کہ جن کے جوابات جاننے کی ضرورت ہے ۔ملک کو کھربوں کا معاشی نقصان ہوا ۔ آخر وہ کون ہیں کہ جو چند گھنٹوں کی بات چیت کو دنوں تک لے گئے ؟اس کاتعین ہونا چاہئے ۔اس لئے کہ اگر خفیہ مذاکرات کار مداخلت نہ کرتے تو یہ معاملہ مزید بگڑ سکتا تھا ۔مزید جانیں جاسکتی تھیں ۔لیکن یہ سوال بھی اہم ہے کہ اس طرح کے مواقع پر حکومتیں اور سیاسی شخصیات کی کوشیں کامیاب کیوں نہیں ہو تی؟ملک کا ماضی اس بات پر گواہ ہے کہ جب بھی حکومت کو اس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے تو ان کو مظاہریں کے ساتھ بات چیت کرنے میں کم ہی کامیابی ملی ہے ۔ اس کے برعکس جب بھی خفیہ مذاکرات کاروں نے مظاہرین سے بات چیت شروع کی تو ان کو دنوں میں نہیں بلکہ گھنٹوں میں کامیابی ملی ہے ۔جس کی تازہ مثال کالعدم تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان معاہدہ ہے ۔ مفتی منیب الرحمان علماء کے اس وفد کا حصہ نہیں تھے جس نے وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات کی ۔جن کووزیر اعظم عمران خان نے مذاکرات کرنے اور معاہدہ کرنے کی اجازت بھی دی تھی۔مفتی منیب الرحمان نے چند روز قبل ویڈیو بیان جاری کیا تھا جس میں انھوں نے دو وفاقی وزراء شیخ رشید اور فواد چوہدری کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔اب اچانک وہ افق پر نمودار ہوئے بلکہ یوں سمجھیں کہ آگئے اور چھا گئے ۔
لیکن ان سب کے باوجود وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کو ان الزامات کا جواب ضرور دینا چاہئے کہ جو انھوں نے کالعدم تحریک لبیک پر لگائے تھے کہ ان کو بھارت سے امداد مل رہی ہے ۔ ان کے ساتھ اب ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر سلوک ہو گا۔اگر ان کو بھارت سے مدد مل رہی تھی تو پھر ان کے ساتھ معاہدہ کیوں کیا گیا ؟ اگر وہ دہشت گرد نہیں تو پھر ان پر دہشت گرد کا الزام کیوں لگا یا گیا ؟دونوں وفاقی وزراء پر فرض ہے کہ وہ ان الزامات پر قوم سے معافی مانگیں یا اس کے ثبوت قوم کے سامنے رکھیں ورنہ بہتر یہی ہے کہ چپ کا روزہ ہی رکھ لیں ۔

تبصرے بند ہیں.