تازہ بحران نت نئے ہیجان

83

مہنگائی سے نڈھال عوام کو تازہ بحران درپیش، ذہنی ہیجان کا باعث، راستے سڑکیں شاہراہیں بند ہوئے کتنے دن ہوگئے۔ بسیں، ٹرک، گاڑیاں، رستے کھلنے کی منتظر، لوگ گھروں تک محدود، کنٹینر کے نیچے سے اسکوٹر یا بندہ تو جھک کر نکل سکتا ہے۔ گاڑی کیسے گزرے گی۔ دونوں جڑواں شہروں کا رابطہ منقطع، کیا ہوگا کیسے ہوگا۔ کوئی سرا ہاتھ نہیں آرہا دونوں جانب تناؤ، ”وہ اپنی خو نہ بدلیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں“ والی کیفیت، گلہ کیا گیا لوگ ساتویں بار چڑھ دوڑے ہیں۔ اپنے گھونسلوں میں کتنے دنوں سے پرواز کے لیے پر تول رہے تھے۔ اب تک کوئی مستقل حل کیوں تلاش نہ کیا گیا۔ وفاقی وزرا متضاد بیانات سے جلتی پر تیل کا کام کرتے آئے، کر رہے ہیں۔ آگ پر پانی ڈالنے والوں سے رابطہ کیوں نہ کیا گیا۔ ایسے مسائل پوری ریاست کے لیے مستقل درد سر بن جاتے ہیں۔ بن گئے ہیں۔ شیخ رشید، فواد چوہدری ہی نہیں 23 کروڑ عوام پریشانی میں مبتلا ہیں۔ تجارتی سرگرمیاں، دفاتر کی حاضری معطل، تعلیمی ادارے بند، اطمینان سے سوچیں، جذباتیت نہیں دور اندیشی کی ضرورت ہے انشاء اللہ علماء کی مداخلت سے مسئلہ حل ہونے کی امید بندھی ہے، ”ہم کہاں آگئے بات ہی بات میں“ ایک دوست بڑی فکر مندی سے کہہ رہے تھے کہ تبدیلی کی ہوائیں چلنے لگی ہیں۔ ملکی سیاست ڈرامائی رخ اختیار کر رہی ہے۔ فیصلے نہیں ہو پا رہے بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو مل رہی ہیں۔ دروغ برگردن دوست اتحادی مایوس ہاتھ کھینچنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ کوئی بھی مطمئن نہیں کسی جانب سے غیبی اشارے یا گرین سگنل کے منتظر، ان ہی حالات میں بلوچستان کی حکومت کا دھڑن تختہ ہوگیا۔ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) نے اپنے فرزند ارجمند جام کمال کو عاق کردیا۔ وزارت اعلیٰ ہاتھ سے گئی۔ 65 کے ایوان میں 40 سے زیادہ ناراض ارکان نے تحریک عدم اعتماد پیش کردی جام کمال سیانے بیانے مگر انہیں بھی دوسروں کی طرح لوگوں کی ناراضی کا یقین نہ آیا۔ لیکن تحریک پر ووٹنگ سے ایک رات پہلے جب خواب غفلت سے آنکھ کھلی تو احساس ہوا کہ اپنے پلے کچھ نہ تھا۔ پرویز خٹک نے سمجھایا تھا۔ ”ڈال دے گا ہلاکت میں اک دن تجھے، اے پرندے تیرا شاخ پر بولنا“ دیر سے سمجھ آئی۔ پتا نہیں سیاسی لوگ جلدی کیوں نہیں سمجھتے۔ پتھروں کے نگر میں عزت و احترام کے آئینہ کو کرچی کرچی ہونے سے بچانے کے لیے انہوں نے رات ہی کو استعفیٰ دیا اور مزید بے عزتی سے بال بال بچ گئے۔ مگر یار لوگ بال کی کھال نکالنے سے باز نہ آئے۔ فورا کہا سیاست کی گرما گرمی میں کوئٹہ سے سرد ہواؤں کا جھونکا آیا ہے۔ کوئٹہ سے آنے والی یخ بستہ ہوائیں موسم کی تبدیلی کا پیش خیمہ ہوتی ہیں۔ ناراض ساتھیوں کو گلہ تھا کہ جام کمال اپنے لانے والوں کی طرح خوش کن وعدوں اور مستقبل کے خوابوں پر ٹرخا رہے تھے۔ حالانکہ قرعہ اندازی سے بننے والے وزرائے اعلیٰ کی جھولی میں وعدوں
اور خوابوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اربوں کھربوں کے منصوبوں کے اعلانات سے محسوس ہوتا ہے کہ صوبوں میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگی ہیں۔ نہریں بہانا آسان نہیں سنگلاخ پہاڑوں اور بے آب و گیاہ وادیوں کا سینہ چیرنے والے تیشہ بردار فرہاد کہاں سے آئیں گے۔ میدانی صوبوں میں تیشے بھی فرہاد بھی میسر قرضوں سے حاصل ہونے والے اربوں ڈالروں سے خزانہ اوور فلو مگر یار لوگ مال غنیمت سمیٹنے کے منتظر، جنہیں موقع ملا انہوں نے آٹا، چینی، گھی میں اپنے لگائے ہوئے پیسے کھرے کرلیے۔ جو کھرے نہ کرسکے وہ اب تک ساتھ جڑے ہیں، یار لوگ بڑے کائیاں ہیں انہوں نے تبدیلی کی ہواؤں کا رخ میدانی علاقوں کی طرف بھی موڑ دیا۔ ظالم دسمبر کی باتیں کرنے لگے۔ سب سے بڑے صوبے میں نگرانی سخت ہے۔ مجال نہیں کہ ہوا کا جھونکا گزر سکے حساس صوبہ، اسی پر پوری عمارت کھڑی ہے مگر لوگ پریشان ہیں گیارہ بارہ کروڑ کی آبادی کو تازہ بحران نے بد حواس کردیا ہے۔ مہنگائی سے نڈھال تھے۔ تازہ بحران سے حواس کھو بیٹھے ہیں۔ کاش کوئی مہنگائی کے پر کتر سکے۔ ڈالر کی اونچی اڑان نے ملکی معیشت کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔ لوگوں کو ڈر تھا کہ ڈالر 150 روپے کا ہوجائے گا لیکن اس کی تو بریکیں ہی فیل ہوگئیں اور شتر بے مہار کی طرح 176 تک جا پہنچا۔ سعودی عرب سے ملنے والے 3 ارب ڈالروں نے اسے بڑھنے سے روکا کمال ہے کس لیے گئے تھے کیا کر آئے۔”خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھیے احوال کہ آگ لینے کو جائیں پیغمبری مل جائے“۔ ایک پنتھ دو کاج۔ بخشش بھی بخشیش بھی لیکن 3 ارب ڈالر کب تک چلیں گے مہنگائی میں کتنی کمی ہوگی؟ ماہرین اقتصادیات کو تشویش ہے کہ ایک جونیئر ترین شخص کی پالیسیوں کے طفیل 40 ارب ڈالر کے قرضے خوامخوا چڑھ گئے،ڈالر مہنگا ہونے کی ہزار توجیہات ماہرین کا پینل بٹھا کر دیکھیں بخیے ادھیڑ ڈالیں گے، شوکت ترین کہنے کو ماہر معاشیات سمجھدار شخصیت آئی ایم ایف سے قرضوں کے مخالف لیکن ایک جونیئر کے سامنے دال نہ گل سکی۔ اب 42 ارب ڈالر کے نئے قرضے کا مژدہ سنا رہے ہیں۔ دھیرج رکھیے قرضوں سے مہنگائی کم نہیں ہوگی۔ مزید بڑھے گی۔ قرضہ پیکیج سے مہنگائی کو چار چاند لگ جائیں گے۔ بجلی میں فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر ہر مہینہ اضافہ، اب ٹیرف میں فی یونٹ ایک روپے 39 پیسے اضافہ کی درخواست، منظوری بھی ہوجائے گی پیٹرول میں بھی ہر پندرہ دن بعد اضافہ کا خدشہ۔ مہنگائی کا منہ زور طوفان کہاں رکے گا مہنگائی میں کمی اور ریلیف دینے کی خلائی باتیں وزیروں کو آٹا، دال، گھی، چینی شاید مفت ملتی ہیں اس لیے انہیں پاکستان دنیا بھر میں سستا ترین ملک محسوس ہوتا ہے۔ ایک نے کہا دوسرے نے دہرایا باقی 48 نے تان سے تان ملا کر قوالی شروع کردی۔ مہنگائی سے ستائے عوام نے وزیروں کی قوالیاں سننا چھوڑ دی ہیں۔ کب تک سنیں گے گھر میں دانے نہ ہوں، چینی 120 روپے کلو دستیاب ہو، پیٹرول تیزی سے 150 روپے کے ہدف کی طرف بڑھ رہا ہو تو راگ رنگ کسے اچھے لگیں گے۔ مظاہرے شروع ہوگئے ہیں اتحادی ان مظاہروں سے گھبرا کر دو قدم پیچھے ہٹنے لگے ہیں۔ ایک اتحادی لیڈر نے تو یہان تک کہہ دیا ”ہم تو مہمان ہیں جانے کے لیے آئے ہیں“ متحدہ والے جزبز، جماعت اسلامی کے امیر نے ”مکدی گل مکائی“ (بات ہی ختم کردی)کہ ملک میں پی ٹی آئی کی حکومت نہیں آئی ایم ایف کی حکمرانی ہے۔ عوام نے اپنے پیٹوں پر پتھر باندھ لیے ہیں۔ بڑے پیٹوں والے 3 سال بعد بھی جانے والوں کو رو پیٹ رہے ہیں۔اہک ایم پی اے نے تو ہوائی چھوڑ کر عوام کی چیخیں نکال دیں کہ مہنگائی اللہ کی طرف سے ہے قیمتیں فرشتے مقرر کرتے ہیں۔ کیسے لوگ ہیں۔ کام بد تو خود کریں لعنت کریں شیطان پر۔ آؤٹ لک رپورٹ کے مطابق کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 3.4 ارب ڈالر، غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری میں 4 فیصدکمی، زرعی قرضوں میں اضافہ، برآمدات 35 فیصد، درآمدات 64 فیصد، مہنگائی کیسے کم ہوگی۔ ایسے میں تبدیلی کی ہوائیں تو چلیں گی۔ بلاول بھٹو کہتے ہیں تحریک عدم اعتماد پیش کریں کامیاب ہوجائے گی، کیسے کامیاب ہو گی پتا نہیں۔

تبصرے بند ہیں.