ہاتھوں سے لگائی گرہیں ……!

156

یہ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد ہیں، جو چند دن قبل اپوزیشن جماعتو ں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ارشاد فرما رہے تھے کہ اپوزیشن کے پلگوں میں کچرا پھنسا ہو ا ہے، رنگ پسٹن بیٹھے ہوئے اور انجن دھواں مارہا ہے۔ اب اُن سے کوئی پوچھے کہ کس کے رنگ پسٹن بیٹھے ہوئے ہیں، کس کا انجن دھواں مارہا ہے اور کس کے پلگوں میں کچرا پھنسا ہوا ہے؟ ہفتہ ہونے والا ہے آپ کیا، کیا بیان بازی کررہے ہیں، کیا،کیا شگوفے چھوڑ رہے ہیں اور کیا،کیا متضاد دعوے کررہے ہیں؟ کالعدم تنظیم کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے آپ کہتے رہے ہیں کہ ہمارے مذاکرات کامیاب ہوئے ہیں۔ کالعدم تنظیم کے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے ایک آدھ مطالبے یا نکتے کو چھوڑ کر آپ کا انکے تمام مطالبات کو ماننے پر اتفاق ہوچکا ہے۔ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے معاملے کو بھی آپ قومی اسمبلی میں لے کر جانے کیلئے تیار ہیں۔ اب آپ اس سے ہٹ کر باتیں کررہے ہیں۔ کبھی آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں اور وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری دوبارہ مذاکرات کریں گے، چوہدری فواد حسین بھی ہمارے ساتھ شامل ہونگے اور وہ میڈیا کو ہینڈل کریں گے۔ ساتھ ہی آپکا یہ ارشاد ہے کہ پنجاب میں پولیس کو رینجر کے ماتحت کردیا گیا ہے۔ حکومت کی رٹ کو قائم رکھا جائیگا۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ جی ٹی روڈ کو کھول دیا جائے گا لیکن ابھی تک انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ہفتہ یا اتوار کو وزیر اعظم قوم سے خطاب کریں گے اور اُنکا بیانیہ حکومت کا موقف ہوگا۔
شیخ رشید احمد کے یہ فرمودات عالیہ ہیں جو انہوں نے جمعہ کو وزیر اعظم ہاوس میں دو گھنٹے تک جاری رہنے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں ارشاد فرمائے۔ اس سے ایک دن قبل انہوں نے ایک نیوز چینل کے ٹاک شو میں اینکر (شاہزیب خانزادہ)کے سوالوں کے جواب میں اگرچہ بہت کچھ ارشاد فرمایا لیکن وہ بڑی حد تک اکھڑے، اکھڑے ہی نہیں لگ رہے تھے بلکہ اینکرکو اپنے پچھلے دو، تین دنوں کے بیانات کے حوالے سے سوالو ں کے جواب دینے میں بھی تذبذب کا شکار تھے۔جمعہ کی پریس کانفرنس میں بھی انکی یہی کیفیت قائم تھی۔اگرچہ وہ سوالات کو چٹکیوں میں اڑانے والی ایسی سدا بہار شخصیت ہیں جو سنیئر صحافی اور کالم نگار
محترم نصرت جاوید کی طرف سے اُنکو دیئے گئے لقب لال حویلی سے اٹھے بقراط عصر پر ہی پورا نہیں اترتے ہیں بلکہ وہ اپنے آپ کو میڈیا بالخصوص ٹاک شوز کے پسندیدہ ٹاکربھی سمجھتے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت میں اپنے مخالفین کو ہدف تنقیداور طعن تشنیع کا نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔ تاہم شاہزیب خانزادہ کے پروگرام میں شیخ صاحب بجھے، بجھے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ چھٹی بارہے کہ کالعدم تنظیم والے اسلام آبادکی طرف مارچ کررہے ہیں۔ میں اپنا قومی فریضہ سمجھتا ہوں کہ انہیں خبردار کروں۔ بہت ساری باتیں، ہم نے اُنکی مانی ہیں لیکن وہ ہماری باتیں نہیں مان رہے ہیں۔ ہم لڑائی جھگڑا نہیں چاہتے۔ آپ (کالعدم تنظیم کے لوگ) ہمارے بھائی ہیں۔ چار پولیس والے شہید ہوچکے ہیں۔ ۷۰ سے ۸۰ افراد گولیاں لگنے سے زخمی ہیں۔پولیس کے پاس لاٹھی آنسو گیس ہے۔ آپ سیدھی گولی مار رہے ہیں۔ ایسے آگے بڑھتے رہے تو کسی نہ کسی جگہ آپ کو روکا جائے گا۔ نتائج کے ذمہ داری آپ پر ہو گی۔ وزیر اعظم عمران خان نے جتنی لچک دکھانی تھی دکھا دی، وہ پاکستان کو یرغمال نہیں بننے دیں گے۔
شیخ رشید احمد کا بھلا ہو کہ انہوں نے پچھلے پانچ، چھ دنوں میں کچھ ایسی باتیں ارشاد فرما دی ہیں جن سے بہت کچھ سبق مل سکتا ہے۔ شیخ رشید صاحب نے فرمایا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان پاکستان کو یرغمال نہیں بننے دیں گے۔ شیخ صاحب سے پوچھا جاسکتا ہے کہ وسط اگست 2014سے وسط دسمبر 2014 تک 126دنوں کے دوران پاکستان کوبالخصوص بالخصوص پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کو کس نے یرغمال بنا رکھا تھا؟ کیا یہ جناب عمران خان نہیں تھے جو اپنے منہ بولے بھائی حضرت علامہ طاہرالقادری کے ہمراہ اسلام آباد میں دھرنا دینے کیلئے لاہور سے چلے تھے اور جی ٹی روڈ سے خراماں، خراماں منزلیں طے کرتے ہوئے اسلام آباد آن پہنچے تھے اور ڈی چوک میں آکر براجمان ہوگئے تھے۔ جلد ہی وزیراعظم سکریٹریٹ، وزیراعظم ہاوس، پی ٹی وی ہیڈ کوارٹر اور پاک سیکریٹریٹ سمیت ریڈ زون میں اہم سرکاری دفتری اور تنصیبات کو محصور کرلیا تھا۔ ہرروز شام کو کنٹینرپر سوار ہوکر جناب عمران خان نئے سے نئے احکامات اور ہدایات جاری کرتے تھے۔ کبھی سول نافرمانی کی ہدایات، کبھی بیرون ملک سے بینکوں کے ذریعے ترسیلاتِ زر نہ بھیجنے کی ہدایات، کبھی بجلی کے بل ادا نہ کرنے کے احکامات، کبھی ایمپائرکی انگلی اٹھنے کے ا علانات اور کبھی وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور اُنکے گھرانے کے بارے میں نازیبا کلمات۔ کیا یہ سب کچھ جائز تھا؟ اگر اُس وقت جناب عمران خان اور اُنکے شریک کار حضرت علامہ کے نزدیک لاہور سے مارچ کر کے آتے ہوئے اسلام آباد میں دھرنا دینا جائز تھا تواب مولانا فضل الرحمان اگر کہتے ہیں کہ کالعدم تنظیم کا اپنے مطالبات کے حق میں مارچ جائز ہے اور یہ اُنکا بنیادی حق ہے تو پھر کیسے اسکی مذمت کی جاسکتی ہے۔
بڑا مشہور قول ہے کہ ہاتھو ں سے لگائی گرہیں بعض اوقات دانتوں سے کھولنی پڑتی ہیں، موجودہ صورت حال اسکی پوری عکاسی کرتی ہے۔ اگر کالعد م تنظیم کے ارکان نومبر 2017میں پنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر فیض آباد انٹرچینج پر دھرنا دے کر بیٹھ گئے تھے تو شیخ رشید احمد اور عمران خان جیسے لوگ انہیں حق بجانب قراردیتے نہیں تھکتے تھے۔ ان کی پوری ہمدرددیاں کالعدم تنظیم کے ساتھ تھیں جس نے راولپنڈی، اسلام آباد میں جہاں معمولات زندگی کو معطل کررکھا تھا وہاں ہر دو شہروں کے باسی اور انکے درمیان روزانہ سفر کرنے والے بے پناہ مشکلات اور روکاوٹوں کا بھی سامنا کررہے تھے۔ اُس وقت اگر شیخ رشید احمد جیسے لوگوں کے نزدیک یہ سب کچھ جائز تھا تو اب وہ کیونکر اور کس منہ سے کہتے ہیں کہ یرغمال نہیں بننے دیں گے۔
ملک کو یقینا یرغمال نہیں بننا چاہیے نہ ہی عوام کو مشکلات اور تکالیف کا سامنا کرنا چاہیے۔ نہ ہی لاٹھی گولی چلنی چاہیے، نہ ہی بدامنی اور فساد ہونا چاہیے۔ نہ ہی ملک اندرونی خلفشارکا شکار ہونا چاہیے۔ لیکن ان ساری باتوں کے ساتھ شیخ رشید احمد اور وزیر اعظم عمران خان جیسے قومی رہنماوں کو اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے۔ کہ ہم کیا کرتے رہے ہیں اور ہمارے” توشہ خانے”میں کونسے قیمتی اعمال پوشیدہ ہیں۔ شیخ رشید احمد کو ہدف تنقید بنانا مقصود نہیں لیکن سچی بات ہے کہ ایک وقت آتا ہے جب انسان جو کچھ کرتا ہے اُسے وہ بھرنا ہوتا ہے۔ شیخ رشید احمد اپنی سٹوڈنٹ سیاست سے لے کر اب تک جو اندازِ سیاست اپنائے چلے آرہے ہیں اور محسن کشی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں اسکا انہیں صلہ تو ملنا ہی چاہیے۔

تبصرے بند ہیں.