زرعی یونیورسٹی ڈی آئی خان بحران کی زد میں

62

ڈیرہ اسماعیل خان صوبہ کا اہم ترین زرعی ضلع ہے، سب سے زیادہ زرعی رقبہ ڈیرہ میں ہے،اسوقت 5شوگر ملز کام کر رہی ہیں،سی پیک مغربی روٹ تکمیل کے مراحل سے گزر رہا ہے، جبکہ ڈیرہ تین صوبوں کے سنگم پر واقع ہے۔ چشمہ رائٹ بنک کینال سے لاکھوں ایکڑ اراضی سیراب ہو رہی ہے۔اس اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے2016میں وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے مولانا فضل الرحمان کے مطالبہ پر سٹیڈیم کے جلسہ عام میں زرعی یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان کا اعلان کیا۔ زرعی یونیورسٹی ڈیرہ جو بنیادی طور پر فیکلٹی آف ایگریکلچر گومل یونیورسٹی کی اپ گریڈیشن تھی۔اور پی سی ون اور وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عمر علی خان کی جاری کردہ این او سی کے مطابق یہ فیکلٹی آف ایگریکلچر گومل یونیورسٹی کو اپ گریڈ کرکے یونیورسٹی کا درجہ دینے کا ہی منصوبہ تھا۔ واضح رہے اس زرعی یونیورسٹی ڈیرہ کے علاوہ بنو ں یونیورسٹی کے کیمپس لکی مروت اور یونیورسٹی آف انجینئرنگ پشاور کے مردان کیمپس کو بھی اپ گریڈ کرکے یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا تھا، ہر دو یونیورسٹیوں کے اثاثوں کی تقسیم باقاعدہ طور پر ہوکر دونوں یونیورسٹیوں نے ترقی کا سفر جاری رکھا ہوا ہے، ہمارے ضلع کی بد قسمتی کہ آج تک مشکلات اور رکاوٹیں آڑے آ رہی ہیں، بالآخر صوبائی کابینہ نے 16مارچ 2021کو اثاثوں کی تقسیم کا اصولی فیصلہ کیا، جس پر وائس چانسلر گومل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد نے چانسلر کو بائی پاس کرکے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو خط لکھ دیا۔ جس پر چانسلر نے انہیں چھ ماہ فورس لیو پر بھیج دیا اور ایڈیشنل چارج زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مسرور الٰہی بابر کو سونپ دیا،ڈاکٹر افتخار احمد نے حکم نامہ کو عدالت عالیہ میں چیلنج کر دیا عدالتی جنگ لڑی گئی، عدالت عالیہ پشاورنے بھی اپنے فیصلہ میں قرار دیا کہ سینڈیکیٹ گومل یونیورسٹی اثاثوں کی تقسیم کا مجاز فورم ہے کسی بھی کمیٹی کو اثاثے تقسیم کا اختیار حاصل نہیں۔ صوبائی کابینہ کی طرف سے اثاثوں کی تقسیم کی سفارشات سینڈیکیٹ میٹنگ 107,108,اور109 میں منظور کی گئیں اور110سینڈیکیٹ میٹنگ میں کنفرم کی گئیں جس کی روشنی میں نوٹیفکیشن جاری کر کے اثاثے اور ملازمین کی تقسیم کر دی گئی۔ واضح رہے کہ گزشتہ ماہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان ڈیرہ گومل یونیورسٹی تشریف لائے، زرعی یونیورسٹی کا باقاعدہ افتتاح کیا، چانسلر، وزیراعلیٰ سمیت تمام صوبائی حکومت موجود تھی اب باقاعدہ نئے داخلوں کا اشتہار چلایا گیا، طلبا طالبات نے ویٹرنری ڈپلومہ میں 1000سے زائد فارم جمع کرائے،اسی طرح دیگر شعبہ جات میں داخلہ فارم جمع ہوئے،دوسری جانب فورس لیو کی تکمیل کے بعد واپس وائس چانسلر شپ سنبھالنے والے پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد نے آتے ہی آؤ دیکھا نہ تاؤ پہلے ہی دن تمام سینڈیکیٹ کے فیصلوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے تما م نوٹیفکیشن کینسل کر دیے جس سے ہر دوتعلیمی اداروں میں بحرانی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ زرعی یونیورسٹی میں چارج سنبھالنے والے ملازمین جب تک زرعی یونیورسٹی سے ریلیو نہیں ہوتے،وہ دوبارہ گومل کا حصہ نہیں بن سکتے۔دوسری طرف صوبائی حکومت نے40کروڑ کی خصوصی گرانٹ بھی زرعی یونیورسٹی کو جاری کر دی ہے۔تعمیراتی مد میں ملنے والی گرانٹ اب زمین فراہم نہ ہونے کی وجہ سے التوا میں پڑ جائیگی اور فنڈزکے ضائع ہونے کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے،پی سی ون اور سارا پراجیکٹ کھٹائی میں پڑ نے کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے۔دوسری جانب پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد وائس چانسلر گومل یونیورسٹی اور ان کے ساتھیوں کا یہ موقف ہے کہ نئی زرعی یونیورسٹی بنانے پر کوئی اختلاف نہیں ہے ہماری فیکلٹی آف ایگریکلچرکو اپ گریڈ نہ کیاجائے۔اس تقسیم سے گومل یونیورسٹی کو نقصان ہوگا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک ضلع میں دو ایک جیسے پروگرام کامیاب ہو سکتے ہیں؟کیا پشاور یونیورسٹی اور دیگر کئی یونیورسٹیوں میں سے کئی نئی یونیورسٹیاں بن گئیں اور ایک ہی احاطہ میں کام کر رہی ہیں ان پر تو کوئی اثر نہیں پڑا یہ سب کچھ ڈیرہ کی عوام کے ساتھ ہی کیوں کیا جا رہا ہے، ڈیرہ کے دونوں اداروں کی ساکھ کو تباہ کیا جا رہا ہے طلبا کے داخلوں میں کھینچا تا نی اور سراسیمگی پھیلائی جا رہی ہے کہ یہ یونیورسٹی ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان سے منظور نہیں اور اس کے داخلے بوگس ہیں وغیرہ وغیرہ، اب ہمارا ارباب اختیار چانسلر شاہ فرمان خان، وزیراعلیٰ محمود خان اور سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پشاور داود خان سے سوال ہے کہ کیا گورنمنٹ اداروں میں اس قسم کی بحرانی کیفیت کا فوری کوئی نوٹس لیا جائے گایا یونہی کوئی بھی حکومتی رٹ کو چیلنج کرتا رہے گا کیا ہمارے علاقہ کے ملازمین اور طلبا و طالبات کی پریشانیوں کا مداوا کیا جائے گا یامحض تماشائی کا کردار جاری رہے گا خدا را فوری ان مسائل کی جانب توجہ دیکر ہر دو اداروں کی ساکھ اور مقام کا تحفظ کیاجائے،اس سلسلے میں پاکستان تحریک انصاف کے ڈیرہ اسماعیل خان سے ممبر صوبائی اسمبلی خیبر پختونخوا و وفاقی وزیرعلی امین گنڈ پور کے بھائی فیصل امین گنڈہ پور نے کہا ہے کہ گومل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد نے زرعی یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان کیخلاف بدنیتی پر مبنی مہم شروع کی ہے جو قابل مذمت بات ہے۔ موصوف خیبر پختونخوا حکومت، گورنر خیبر پختونخوا اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی کے اختیارات سے بھی تجاوز کر رہے ہیں۔ ان کا رویہ ایک پڑھے لکھے ذمہ دار شخص کے رویہ کے متصادم ہے۔ انہوں نے کہا کہ علاقہ کے منتخب نمائندہ کی حیثیت سے زرعی یونیورسٹی کیخلاف کسی قسم کی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ماضی میں بھی ڈیرہ دشمنی، زرعی یونیورسٹی دشمنی اور اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے پر موصوف کو 6ماہ جبری رخصت کی تذلیل برداشت کرنا پڑی، مگر یہ تذلیل ان کیلئے اصلاح کا باعث نہیں بن سکی اور وہ ایک بار پھر ڈیرہ اسماعیل خان کے معاشی، زرعی اور تعلیمی ترقی کے اہم منصوبہ ”زرعی یونیورسٹی“ کیخلاف ڈیرہ اور تعلیم دشمن عناصر کی سرپرستی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امین برادران کو صرف اور صرف ڈیرہ اسماعیل خان کا مفاد عزیز ہے اور اس مفاد کی را ہ میں رکاوٹ بننے والوں کیخلاف قانونی راستہ اپنانے کیساتھ ساتھ ایسے عناصر کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا بھی اختیار رکھتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.