احمد سلمان بلوچ سے ملاقات ہوئی تو احساس ہوا کہ ابھی کام کرنے والے سیاسی کارکن باقی ہیں ورنہ اب سیاسی کارکنوں کی جتنی اقسام آ رہی ہیں کچھ باتیں کرنے والی، کچھ بہت زیادہ باتیں کرنے والی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ سیاسی کارکن جلسوں میں دریاں بچھانے کے ساتھ ساتھ کرسیاں اور نعرے لگاتے تھے مگر پھر سیاست پہلے کروڑ پتی اور اب ارب پتی ہو گئی ہے۔سب جماعتوں میں عملی سیاست کے لئے ارب پتی ہونا مشترک ہے کہ پارٹی ٹکٹ بھی خریدنے پڑتے ہیں اور عہدوں کے لئے فلور ملزتک گفٹ کرنا پڑتی ہیں۔ بات احمد سلمان بلوچ سے شروع کی، احمد سلمان، لیاقت بلوچ کے صاحبزادے ہیں جو کبھی اپنی پارٹی کی امارت کا الیکشن نہیں جیت سکے۔میرا خیال ہے کہ اگر وہ جماعت اسلامی کے امیر بن جاتے تو یہ پارٹی زیادہ سیاسی فہم و فراست کے ساتھ زیادہ بہتر فیصلے کرنے والی ہوتی۔ سیاست کی تعلیم اور تربیت احمد سلمان کو گھر سے ملی ہے اور میں کوئی دن ایسا نہیں دیکھتا جب وہ کوئی نہ کوئی پولیٹیکل ایکٹیویٹی نہ کر رہے ہوں۔ ڈینگی سے کورونا تک اور مہنگائی سے بے روزگاری تک ہر ایشو پر وہ ہر روز کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں ورنہ جب سے سوشل میڈیا آیا ہے، اب سیاسی کارکنوں کا ایک ہی کام رہ گیا ہے کہ وہ اپنے لیڈر کے لئے کتنے خوشامدی ٹوئیٹس کرتے ہیں، اختلاف کرنے والوں کو کتنی گالیاں دیتے ہیں۔ پالش کرنا ہی خوبی ہے چاہے وہ بوٹ ہو رہے ہوں، پشاوری چپل ہو رہی ہویا سندھی اور چاہے سینڈل ہو رہے ہوں۔
یاد آیا، ابھی پرانی بات نہیں کہ دودھ پینے والوں کی بجائے لہو دینے والے کارکن ہوا کرتے تھے۔ دلچسپ حقیقت ہے کہ شہباز شریف ہمیشہ سے سیاسی مفاہمت کے حامی رہے ہیں مگر شہباز شریف سیکرٹریٹ سے تعلق رکھنے والے لیگی کارکنوں نے مزاحمت کی جو تاریخ رقم کی ہے اس کی مثالیں شائد ضیاء الحق کے دور میں پیپلزپارٹی کے کچھ کارکنوں سے ملتی ہوں۔ یہ نوے کی دہائی تھی جب شہباز شریف کے پولیٹیکل سیکرٹری جاوید اشرف مرحوم ہواکرتے تھے۔ یہ ایک سو کے لگ بھگ جانباز کارکنوں کا گروپ ہوا کرتا تھا جو ہر موقعے پر ایک منفراحتجاج کرتا تھا جیسے انٹرنیشنل میچ ہو رہا ہے، بے نظیر بھٹو قذافی سٹیڈیم میں مہمان خصوصی ہیں اور عین میچ کے دوران نواز لیگ کے جھنڈوں والی پتنگیں سٹیڈیم میں آ کر گرتی ہیں۔ ظاہر ہے اس کے لئے پہلے پلاننگ کی جاتی ہے، ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے مقامات پر چناو کیا جاتا ہے جہاں سے پتنگ اڑے،کٹے اور عین گراونڈ کے بیچ گرے۔جاوید اشرف پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران ایک احتجاج کرتے ہوئے مال روڈ پر پولیس کی گولی کا نشانہ بن گئے۔ شہباز شریف سیکرٹریٹ دوبارہ پرویز مشرف کے دور میں ایکٹو ہوا جس کی قیادت نوشاد حمید نے سنبھالی۔ یہ بھی ایک عجب بے خوف نوجوان تھا کہ جس نے مارشل لا کے دوران عالمی شہرت یافتہ مظاہرے کر ڈالے جیسے ایک روز پنجاب اسمبلی کے سامنے اچانک بڑے بڑے پنجرے اور زنجیریں لے کر پہنچ گئے، کچھ کارکنوں نے خود کو پنجروں میں قید کر لیا اور باقیوں نے خود کو زنجیروں کے ذریعے سمٹ مینار کی گراونڈ کے جنگلے سے تالوں کے ذریعے باندھ دیا اور نواز شریف کے حق میں نعرے بازی شروع کر دی۔ اب پولیس کے لئے مشکل یہ تھی کہ وہ بندوں سے بھرے پنجرے کیسے اٹھائے، وہ زنجیریں کیسے توڑے جن کے تالوں کی چابیاں ہی نہیں تھیں سو خوب تماشا لگا۔ اسی طرح ایک مرتبہ مظاہرے کا اعلان کر کے نوازلیگ کے پرچم اٹھائے، نواز شریف کے نعرے لگاتے ہوئے نہر میں کود گئے۔ اب پولیس والے نہر میں کودیں تو گرفتار کریں۔بہرحال گرفتار بھی ہوئے، ماریں بھی کھائیں اور دور دراز کی جیلوں میں بھی پہنچائے گئے۔ مجھے وہ نوجوان حامد بھی یاد ہے جس نے مشرف کا مارشل لا لگنے پر نواز شریف کی محبت میں سب سے پہلے مال روڈ پر آ کر نعرے لگائے اور گرفتار ہوا۔ اب کوئی مجھ سے یہ نہ پوچھے کہ حامد اور نوشاد کہاں ہے کیونکہ اب چوری کھانے والے ہی افضل ہیں۔ نوشاد کی اہلیہ اس وقت بھی’ون وویمن آرمی‘ بنی ہوئی ہیں مگر پارٹی کی طرف سے نو لفٹ ہے۔
پرویز مشرف کے مارشل لا میں کہا جاتا تھا کہ اب میرٹ قربانیاں ہوں گی اور یہ بیانات نواز شریف کے ہوتے تھے مگر جیسے ہی نواز لیگ اقتدار میں آئی سب بھول بھال گئے۔ سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ اس وقت نواز لیگ پنجاب کے صدر ہوا کرتے تھے، ایک باوقار سردار، ایک رکھ رکھاو والے سیاستدان۔ لیگی کارکن چیختے چلاتے تھے کہ منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔ میرا پروگرام ’چوپال‘ کے نام سے ہوا کرتا تھا۔ میں نے پنجاب اسمبلی کے احاطے میں چارپائیاں بچھوائیں، سردار صاحب اور کارکنوں کو آمنے سامنے بٹھا دیا۔ وہ کارکن جو میرے سامنے شور مچاتے تھے سردار صاحب کے سامنے سہم گئے اور کسی نے ایک شکایت تک نہ کی۔ سردار صاحب ہنسنے لگے اور مجھے کہا، نجم ولی خان، کارکنوں کو کوئی شکوہ نہیں تمہیں ہی شکایت ہے کہ یہ اکاموڈیٹ نہیں ہوئے اور میں تمہاری شکایت دور کردوں گا اور پھر واقعی انہوں نے کارکنوں کے لئے کام کیا۔مجھے یادآیا کہ کارکن ماڈل ٹاون بھی جایا کرتے تھے اور ایک مرتبہ وہاں ایک کارکن مسائل حل نہ ہونے پر کھمبے پر چڑھ گیا۔ میں نے وہاں پروگرام کیا تو محترمہ مریم نواز کی فون کال آئی اور کہا کہ آپ کی نشاندہی کا شکریہ، ہمیں علم ہے کہ ہمارے کارکن اور عوام یہاں آتے ہیں، ہم اس مسئلے کو حل کریں گے اور پھر اگلے روز علم ہوا کہ انہوں نے وہ کھمبا ہی وہ وہاں سے اکھڑوا دیا اور بلکہ غیر ضروری درخت بھی کٹوا دئیے تاکہ کارکن اور عوام اس پر نہ چڑھ سکیں یوں وہ مسئلہ حل ہو گیا (ہاہا ہا)۔
ابھی پی ٹی آئی کے ایک دوست تھے جن کی حکومت قائم ہوئے ایک سال ہو رہا تھا مگر انہیں کوئی منہ نہیں لگا رہا تھا حالانکہ وہ برے وقتوں میں وہ پارٹی کے شہر کے صدر بھی رہ چکے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی بات سنی جائے، انہیں کوئی عہدہ ملے۔ میں نے کہا کہ عمران خان یا عثمان بزدار میرے کہنے پر عہدہ تو نہیں دیں گے مگر میں آپ کو نظروں میں ضرور لاسکتا ہوں۔ انہوں نے میرے ساتھ دو پروگرام سٹوڈیو میں کئے اور ایک پروگرام پارٹی سیکرٹریٹ میں۔ انہوں نے ہی وہاں وہ تمام کارکن اکٹھے کر کے دئیے جو اکاموڈیٹ نہ ہونے پر غصے میں تھے۔اس پروگرام میں غالبا صرف سعدیہ سہیل رانا نے اپنی پارٹی کا دفاع کیا۔ ہمارا منصوبہ کامیاب رہا اور موصوف صوبائی سطح پر پارٹی کے علاوہ سرکاری عہدہ بھی لے گئے اورپھر ایک پروگرام میں مجھ پر چڑھ دوڑے کہ تم ایک جانبدار اینکر ہو۔ میں واقعی ان کے حق میں جانبدار تھا جب وہ یوسف بے کارواں ہوئے پھرتے تھے۔ وہ مجھے اس وقت یاد آ ئے جب ایک خاتون رہنما کے سوشل میڈیا پر حامیوں نے دوسری مرتبہ مجھے ٹکا کے گالیاں دیں کیونکہ میں نے ان کی حکمت عملی کے خلاف نکات اٹھائے تھے۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ ان خاتون رہنما کے شوہر سے شادی کی ایک تقریب میں ملاقات ہوئی تو فرمانے لگے کہ ہمیں علم ہے کہ آپ کا ’کمپیوٹر‘کہاں سے چلتا ہے۔ مجھے ہنسی آ گئی کہ پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے دوستوں کو شکوہ تھا کہ میرا ’کمپیوٹر‘ان کے گھر سے چلتا تھا۔
قدرت نے میرے لئے لکھ دیا ہے کہ میں نے ہر مجبور،بے بس اور لاچارکی بات کرنی ہے سو اس سے طاقتور ناراض ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں۔ ایک دوست سمجھے جانے والے رہنما گرفتار ہوئے، میں نے ان کے حق میں پروگراموں میں بھی بات کی اورکالم بھی لکھا مگر جب انہیں پروگرام میں بلایا تو وہ نہیں آئے، وہ ان کی مرضی تھی اور یہ میری خوشی ہے کہ مجھے اپنے شہر کے سیاسی کارکنوں کو اہمیت دینی ہے۔ ایک مبارکباد،پیپلزپارٹی نے لاہور کے سیاسی میدان میں ایک حقیقی نظریاتی کارکن اسلم گل کو ٹکٹ دی ہے اور یوں پانچ دسمبر کو تین جینوئن کارکنوں جمشید اقبال چیمہ، شائستہ پرویز ملک اور اسلم گل میں بڑا مقابلہ ہوگا۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.