میاں محمد شریف مرحوم، ایک ملنسار شخصیت

205

کسے معلوم تھا کہ جاتی عمرہ (امرتسر) میں 1920ء میں پیدا ہونے والا بچہ مستقبل میں پاکستان کی صنعت اور سیاست میں منفرد مقام حاصل کر لے گا اور پاکستان کی سیاست پر زیادہ اثر انداز ہونے والا فرد بن جائے گا لیکن یہ سب کاتب تقدیر نے الحاج میاں محمد شریف کے مقدر میں لکھا تھا جنہوں نے اپنے مستقبل اور تقدیر کو تدبیر، محنت، عزم، ہمت، جفا کشی اور جدوجہد سے سنوارا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم امرتسر کے جاتی عمرہ سے چار کلو میٹر کے فاصلے پر واقع گاؤں نیویں سرلی سے حاصل کی۔ بعد ازاں ان کے خاندان نے پاکستان ہجرت کی اور لاہور کے مسلم ہائی سکول رام گلی میں داخلہ لیا۔ میٹرک کے بعد مزید تعلیم اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے حاصل کی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور حکومت میں ملک میں صنعتوں کے لئے ماحول سازگار تھا تو میاں محمد شریف نے بھی ایک چھوٹا ساصنعتی یونٹ لگایا۔ ستر کی دہائی تک حالت یہ ہو گئی تھی کہ ان کے صنعتی ادارے میں کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد پاکستان کے کسی بھی ادارے سے زیادہ تھی لیکن اللہ تعالیٰ جن کو دیتا ہے انہیں آزمائش میں بھی ڈالتا اور آزماتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں میاں محمد شریف کی فیکٹریوں کو قومیانہ آزمائشوں میں سے ایک آزمائش تھی لیکن میاں محمد شریف اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس آزمائش پر پورا اترے۔ صبر و استحقامت کے ساتھ حالات کا جوانمردی سے مقابلہ کیا۔ 1979ء کو اتفاق فاؤنڈری تباہ شدہ حالت میں واپس کی گئی۔ محنت کی عظمت پر یقین رکھنے والے میاں محمد شریف نے دن رات محنت سے چند ہی برس سے اس ادارے کو دوبارہ منافع بخش ادارہ بنایا اور ہزاروں خاندانوں کو دوبارہ روزگار ملا۔ میاں محمد شریف نے کبھی انتخابات میں حصہ نہیں لیا لیکن ان کے بیٹوں کی عملی سیاست کے پیچھے ان کے ہی فیصلوں کا عمل دخل تھا۔
مرحوم نے نا صرف اپنے بیٹوں کو سیاست سکھائی بلکہ اپنی بہو کلثوم نواز کو سیاست میں لانے کا فیصلہ بھی انہی کا تھا۔ وہ پاکستان میں صحیح معنوں میں اللہ تعالیٰ کے حکم اور قانون کی حکمرانی کو نافذ ہوتا دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی ذات مذہبی، سماجی، تجارتی اور سب سے بڑھ کر انسانی ہمدردی کی وجہ سے مشہور ہوئی۔ ملکی اور بین الاقوامی حلقوں میں ان کو ایک عظیم
صاحب کردار، انسان دوست اور ماہر تجارت کے طور پر شہرت حاصل ہوئی۔ ایک شفیق باپ کی حیثیت سے انہوں نے اپنی اولاد اور کنبے کے جملہ افراد کی سرپرستی فرماتے ہوئے اسلامی شعائر کے مطابق پرورش اور تربیت فرمائی۔ انہی کی نگہداشت کا کرشمہ ہے کہ محمد نواز شریف اور محمد شہباز شریف پر قوم فخر کرتی ہے جنہوں نے ملک و قوم اور ملت اسلامیہ کی بے پناہ خدمات سرانجام دے کر عظیم باپ کے لائق بیٹے ہونے کا ثبوت دیا۔ محمد نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم رہ چکے ہیں اور محمد شہباز شریف پنجاب کے تین مرتبہ وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں اور ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں۔
الحاج محمد شریف بنیادی طو ر پر صنعتکار تھے لیکن اپنے سیاسی تجربے اور بصیرت کی بدولت اپنے صاحبزادوں محمد نواز شریف اور محمد شہباز شریف کو انہوں نے سیاست کے میدان میں ایسا بلند مقام دلوایا جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے اور پاکستانی سیاست میں ان کے کردار کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مرحوم ہمیشہ اس بات پر فخر کرتے رہے کہ چھوٹی سی ورکشاپ سے تن تنہا کام کا آغاز کیا۔ صنعتکاروں کے لئے ایسی مثال قائم کی کہ آج بھی سب کے لئے باعث رشک ہے۔ وہ باجماعت نماز کی ادائیگی، رات کے وقت گھر میں قرآن پاک کی تلاوت اور احادیث نبوی ؐ کے حوالے سے تعلیمات دیتے تھے۔ رات کے دو بجے اٹھ جاتے اور تہجد ادا فرماتے۔ نماز فجر کی ادائیگی کے بعد اشراق کے نوافل ادا فرماتے۔ اس کے بعد ناشتہ کرتے۔ وہ داتا دربار لاہور میں متواتر 14سال تک نماز کی اقامت فرماتے رہے۔ چار سالہ ملک بدری کے طویل ایام حرمین شریفین ان کا مسکن رہا۔ نماز، روزہ، حج، عمرہ، زکوٰۃ، خیرات، صدقات، شفقت، محبت، شرافت، قناعت، سخاوت، تحمل اور برداشت آپ کی زندگی کے قیمتی اثاثہ تھے۔ میاں محمد شریف مرحوم ہر سال اپنے دوستوں اور ملازمین کو عید کے موقع پر کپڑے تحفے میں دیا کرتے تھے۔
میاں محمد شریف طویل عرصہ عارضہ قلب میں مبتلا ہونے کے باوجود بیماری کا مقابلہ انتہائی جوانمردی سے کرتے رہے۔ آخری ایام تک نماز پنجگانہ کے پابند رہے اور وہیل چیئر پر موجود ہونے کے باوجود ان کی شدید خواہش ہوتی تھی کہ وہ نماز مسجد حرام میں ادا کریں۔ فرمانبردار صاحبزادے محمد نواز شریف اور محمد شہباز شریف دن رات اپنے والد میاں محمد شریف کے ساتھ رہتے ان کی خدمت کرتے اور محمد نوازشریف خود وہیل چیئر پر اپنے والد کو مسجد الحرام لے کر آتے تھے۔ مرحوم فلاحی کاموں میں بھی مصروف رہتے تھے۔ انہوں نے لاہور میں اتفاق ہسپتال، جاتی عمرہ رائیونڈ میں شریف میڈیکل سٹی اور شریف تعلیمی کمپلیکس قائم کیا۔ شریف میڈیکل سٹی میں غریبوں اور نادار مریضوں کا مفت علاج ہوتا۔ وہ خود جا کر بیواؤں، معذوروں اور ناداروں کی مدد کرتے ان کے سروں پر دست شفقت رکھتے۔ ان کے قائم کردہ فلاحی ادارے شریف میڈیکل سٹی اور اتفاق ہسپتال میں آج بھی ناداروں، بیواؤں اور معذوروں کا مفت علاج ہوتا ہے اور یہ صدقہ جاریہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمیشہ کے لئے قائم رہے گا۔
بارہ اکتوبر 1999ء کو منتخب جمہوری حکومت پر ڈکٹیٹر نے شب خون مارا اور میاں محمد شریف کو بھی معصوم نواسوں کے ساتھ قید و بند کی صعوبتیں و سختیاں برداشت کرنا پڑیں لیکن صبر و استحکامت کے ساتھ مشکل ترین حالات کا جرأتمندی کے ساتھ مقابلہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے خادم الحرمین شریفین شہزادہ عبد اللہ نے مشکل حالات میں ان کی بھر پور مدد کی اور انہیں بحفاظت خاندان سمیت سعودی عرب منتقل کیا۔ بالآخر وہ رمضان المبارک کے مقدس ر حمتوں، برکتوں اور مغفرتوں کے مہینے میں پندرہ رمضان شریف 29 اکتوبر 2004ء کو خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کے جسد خاکی کو سعودی عرب سے لاہور لایا گیا۔ جاتی عمرہ رائیونڈ لاہو میں ہزاروں اشکبار آنکھوں کے سامنے سپرد خاک کر دیا گیا۔ راقم الحروف کو بھی نماز جنازہ میں شریک ہونے کا شرف نصیب ہوا اور قوم آج بھی الحاج میاں محمد شریف مرحوم کی خدا داد صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے ایصال ثواب کے لئے دعا کرتی رہتی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کے صاحبزادگان محمد نواز شریف اور محمد شہباز شریف کو اپنے مرحوم والد کی طرح جرأتمندانہ فیصلوں کی اسی طرح طاقت عطا فرمائے جس طرح انہوں نے ایٹمی دھماکوں کے وقت جرأت اور بہادری کامظاہرہ کرتے ہوئے دشمنوں کے ناپاک عزائم خاک میں ملا دیئے پاکستان کو ناقابل تسخیر قوت بنا دیا۔

تبصرے بند ہیں.