خوراک ہر شہری کا بنیادی حق

97

گزشتہ دنوں ورلڈ ہنگر انڈیکس کی رپورٹ چونکا دینے والی تھی مگر مجال ہے کسی کے سر پر جو ں تک رینگی ہو۔ پاکستان اور بھارت کا شمار ان خطوں میں ہو رہا ہے جہاں کے شہریوں کو آنے والے دنوں میں شدید بھوک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ دونوں بڑے ملک ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں مگر انسانوں کو غربت کی لکیر سے اوپر لے جانے کے لیے کسی جامع منصوبہ بندی کا حصہ نہیں بن رہے ۔ ان دونوں ملکوں کا مقصد اور منشا صرف اتنا ہے کہ دوسرے کو نیچا دکھایا جائے ۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر ہم اس دو ڑ میں شامل کیوں نہیں ہو رہے کہ ہم نے اپنے شہریوں کو خوراک فراہم کرنا ہے ۔ ہم یہ اعزاز کیوں حاصل نہیں کرنا چاہتے کہ ہمارے شہریوں کو وافر مقدار میں خوراک میسر ہے اور یہاں کوئی بھوکا نہیں سوتا۔ بھوک سے ہونے والے خودکشیوں کی تعداد کو ہم بڑھنے سے روکنے میں کیوں ناکامی کاشکار ہو رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے زراعت کو اپنی قومی ترجیحات میں شامل نہیں کیا بلکہ ہمارا سارا زور اسلحہ کے انبار لگانے کی طرف ہے۔ پانچ برس سے کم عمر کے بچے مناسب خوراک نہ ملنے کے سبب کئی بیماریوں کاشکار ہو رہے ہیں اور کئی بھوک اور افلاس کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ ہم وہ قوم ہیں جن کے اسلاف نے یہ کہا تھا کہ اگر دجلہ کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو اس کا حساب بھی حکمرانوں سے ہو گا اور یہاں ہمیں اس بات سے غرض نہیں کہ ہے کہ کون بھوکا سویا ہے۔
خودکشیوں کی بہت سی وجوہات ہوتی ہے لیکن وہ گھرانے جو بھوک کی وجہ سے اس انجام سے دوچار ہوتے ہیں ان کا خو ن ریاست کے سر ہوتا ہے۔میں نے اس سے پہلے بھی سوال اٹھایا تھا کہ کیا ہماری سونا اگلنے والے زمینیں بنجر ہوتی جارہی ہیں ؟ شاید ایسا نہیں ہے مگر ہم نے اپنے عوام کو غربت کی لکیر سے اوپر لے جانے کے لیے موثر منصوبہ بندی نہیں کی۔ ہم گندم کو برآمد کرنے کا دعوی کرتے ہیں مگر اسی برس آٹے کی قلت کا شکارہو کر دوبارہ سے گندم امپورٹ کر رہے ہیں۔ یہ ہے ہماری پالیسی اور یہ ہماری پالیسی سازوں کی اہلیت۔ فوڈ سیکیورٹی کے نعرے ہم ہر روز لگاتے ہیں مگر وہ فوڈ سیکیورٹی کہاں ہے کسی کو معلوم نہیں۔ دیہی علاقوں میں رہنے والے کم خوراکی کا شکار ہو رہے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم نے زراعت کو صرف فصلوں تک محدود کر دیا ہے اور ہم سمجھنے لگے ہیںکہ ہم نے بیج بونے کے ساتھ ساتھ کھادوں کو فراہم کر دیا ہے تو اس سے مسئلہ حل ہو جائے گا۔ فصلوں اور لائیوسٹاک کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کا شمار ان پانچ ممالک میںہوتا ہے
جہاں پر دودھ کی پیداوار زیادہ ہے مگر کسی کو بھی خالص دودھ دستیاب نہیں ہے یا ہمارے اعدادوشمار غلط ہیں۔ دودھ بھی لوگوں کی پہنچ سے دور ہے۔ڈبے کا دودھ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے اور مارکیٹ میںدستیاب دودھ میں ملاوٹ چیک کرنے کا کوئی نظا م موجود نہیں ہے۔ عوام بیچارے کدھر جائیں۔ پاکستان میں کبھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام چلتا ہے اورکبھی احساس پروگرام مگر بھوک کو ختم کرنے کا کوئی منصوبہ سامنے نہیں آتا۔ ہاں یہ ضرور ہوا ہے کہ اس حکومت نے ملک کے چند شہروں میں لنگر خانے کھول دیے ہیں اور یہ اعلان کیا ہے کہ اب کوئی بھوکا نہیں سوئے گا۔ یہ سب سیاسی نعرے ہیں جس کے گھر میںبھوک ہے وہ لنگر خانے میںکھانا کھانے نہیں جائے گا۔ اپنے بیوی بچوں کولے کر وہ لنگر خانے کا رخ نہیں کرتا ۔ مسئلہ لنگر خانے کھولنے سے حل نہیں ہو گا بلکہ وہ سٹرٹیجی بنانے کی ضرورت ہے کہ خوراک ہر آدمی کو میسر ہو اور یہ کس طرح ہو سکتی ہے؟ اس کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ ایک تو خوراک پورے ملک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے موجود ہو اور دوسری اس کی قیمت اتنی ہو کہ ہر گھرانہ اسے افورڈ کر سکے۔ مہنگائی کی وجہ سے حالات یہ ہیںکہ پاکستان میں سادہ روٹی پندرہ روپے تک پہنچ گئی ہے۔
دنیا کے بہت سے ممالک ہیں جنہوں نے اپنی عوام کو بھوک سے نجات دلائی ہے۔ ان ممالک نے زیرو ہنگر پروگرام شروع کیا اور پھر اسے کامیابی سے ہمکنار بھی کیا۔ آج یہ ممالک ایک طرف اپنے عوام کو خوراک مہیا کر رہے ہیں اوردوسری طرف وہ دنیا کو خوراک برآمد کر رہے ہیں۔ کیا ہم ان کے تجربات سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے؟ میں ہمیشہ برازیل کی مثال دیتا ہوں کہ برازیل نے منصوبہ بندی کر کے زیرو ہنگر پروگرام کو چلایا۔ قومی سطح پر چلنے والے اس پروگرام سے پہلے مختلف علاقوں میں تجربات کیے گئے تو وہ اتنے کامیاب ہوئے کہ اسے قومی سطح پر چلایا گیا۔ آج اقوام متحدہ برازیل کے تجربات سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور دنیا کے کئی ممالک میں ان تجربات کی روشنی میں عوام تک خوراک کی فراہمی کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔2016ء میں برازیل نے اپنا دوسرا منصوبہ برائے خوراک اور نیوٹریشن سیکیورٹی شروع کیا تھا اور اس کی بنیادی بات یہ تھی کہ اس کے تحت ہر شہری تک خوراک کی رسائی اس کا بنیادی حق قرار دیا گیا ۔ پاکستان میں آزادی اظہار رائے ایک آئینی حق ہے مگر ہر شہری تک خوراک کی رسائی کو آئینی حق نہیں ملا۔2014ء میں برازیل کو ہنگر فری ملک قرار دے دیا گیا تھاتاہم وہاں کی حکومتوں نے مقامی آبادیوں کے ساتھ مل کر ان علاقوں میں مختلف پروگراموں کا آغاز کیا جہاں پر غربت زیادہ تھی۔ زراعت اور لائیو سٹاک میں ترقی کی وجہ سے دیہی علاقوں میں رہنے والے کنبوں کی آمدنی میں اضافہ ہوا، مائوں کو خوراک کی کمی کے مسئلہ کا حل کیا گیا اور اس کے نتیجہ میں بریسٹ فیڈنگ میں اضافہ ہوا، پانچ برس سے کم عمر کے بچوں کو پوری خوراک فراہم کی گئی اور اس کے نتیجے میں نو عمر بچوں کی شرح اموات میں کمی لائی گئی ۔
2016ء میں دنیا کے 193ممالک نے مل کر بھوک کے خاتمے کا پروگرام شروع کیا اور عہد کیا کہ وہ 2030ء تک دنیا سے بھوک کو ختم کریں گے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے بہت سے منصوبے شروع کیے گئے مگر لگ یوں رہا ہے کہ یہ منزل ابھی کوسوں دور ہے۔ ہر شہری کو خوراک اسی وقت میسر ہو گی جب کسان خوشحال ہو گا اور وہ کاشتکاری کے جدید ترین طریقوں کو اپنا کر فی ایکٹر پیداوارکو بڑھانے کا جتن کرے گا۔ اس کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ بیچوں کی ان اقسام کو بھی پاکستان میں متعارف کرانا ہو گا جو فی ایکٹر پیداوار میں اضافہ کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ لائیو سٹاک کو بھی ترجیحی بنیاد پر ترقی دینا ہو گی۔ آئیے اس جانب بڑھیں کہ خوراک ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور حکومت اس حق کو آئین کے تحت تحفظ دے۔

تبصرے بند ہیں.