وینٹی لیٹر پر پڑی یونیورسٹیاں

78

کس کس بات کا رونا رویا جائے۔ آج ملک کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس نے تقریبا ہر گھر اور ہر گھرانے کو شدید مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق چالیس فی صد پاکستان خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں یعنی عام معنوں میں غریب ہیں۔ یہ تعداد کوئی نو کروڑ کے لگ بھگ بنتی ہے۔ ان میں سے بھی کچھ تو غربت کی بہت نچلی سطح پر ہیں جن کے لئے واقعی دو وقت کی روٹی مشکل ہو گئی ہے۔ باقی وہ ہیں جو روٹی تو کسی نہ کسی طرح کھا رہے ہیں لیکن ان کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ مہنگائی کے اس ناقابل برداشت عذاب نے لوگوں کو ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ گھریلو تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ طلاق اور نا چاقیوں کی شرح بڑھ گئی ہے۔ نوبت خود کشیوں تک آپہنچی ہے۔ ایسی خبریں اب اکثر پڑھنے میں آتی ہیں کہ باپ یا ماں نے بچوں کو مار ڈالا اور پھر خود کشی کر لی۔ ایک خاتون کو ایک ویڈیو میں یہ تک کہتے سنا گیا کہ "میں اپنے بچوں کی بھوک نہیں دیکھ سکتی۔ کوئی راستہ نہیں میرے پاس۔ کیا اب میں اپنا جسم بیچ کر اپنے بچوں کی بھوک دور کروں؟”۔بھیک مانگنے والوں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی علاج نہیں کہ منافع خوروں کو نہیں چھوڑیں گے۔ ذخیرہ اندوزوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ مصنوعی مہنگائی کرنے والوں کا سخت محاسبہ کریں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یا پھر آج کل ایک نئی دلیل یہ آرہی ہے کہ ساری دنیا میں مہنگائی ہو رہی ہے۔ کوئی نہیں بتا رہا کہ دنیا میں لوگوں کی آمدنی کیا ہے؟۔ دبئی چپے پر واقع ہے۔ وہاں مجال ہے کسی چیز کی قیمت میں ایک پیسہ بھی اضافہ ہوا ہو۔ بھارت میں مہنگائی کی شرح آج بھی 4 فیصد ہے۔ ہمارے ہاں اشیائے خورد و نوش اور روز مرہ کے استعمال کی چیزوں کی مہنگائی کی شرح 15 فیصد سے زائد ہے۔ تازہ عالمی جائزے کے مطابق پاکستان دنیا کا چوتھا سب سے مہنگا ملک ہے۔
پاکستان بدستور فاٹف کی گرے لسٹ میں رہے گا۔ آئی۔ایم۔ایف صرف ایک ارب ڈالر کے قرضے کے لئے کڑی شرائط عائد کر رہا ہے اور بات آگے نہیں بڑھ رہی۔قانون و انصاف کی حکمرانی کے حوالے سے پاکستان دنیا کے آخری دو بد ترین ممالک میں شمار ہو رہا ہے۔ یعنی افغانستان اور پاکستان۔ بار بار یاد دلانا پڑتا ہے کہ ہمارا پاسپورٹ صومالیہ سے بھی نیچے آگیا ہے اور آخری درجے کے پانچ ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ چین اب ہم سے خوش نہیں۔ امریکہ کا حال یہ ہے کہ اس کا صدر ہمیں فون کرنے یعنی منہ لگانے کو تیار نہیں۔ افغانستان بدستور ہمارے لئے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ ملک میں دہشت گردی پھر سے سر اٹھانے لگی ہے۔ بد امنی بڑھ رہی ہے۔ امن و امان کے نئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور سیاسی عدم استحکام عروج پر ہے۔
غرض ہم کس کس بات کا رونا روئیں۔ ایسے میں اسلام آباد سے آنے والی ایک تازہ خبر کو پورے قومی میڈیا نے بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ شائع کیا ہے جس نے تعلیم سے دلچسپی رکھنے والوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ خبر یہ ہے کہ پارلیمنٹ ہاؤس میں سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم و تربیت کے ایک اہم اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ ملک کی نامور یونیورسٹیاں سنگین قسم کی مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ روزنامہ نئی بات میں شائع ہونے والی تفصیلی خبر میں بتایا گیا ہے
"سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم میں انکشاف ہوا ہے کہ ملک کی پانچ بڑی جامعات (یونیورسٹی آف کراچی، پنجاب، پشاور، بلوچستان اور قائد اعظم یونیورسٹی) شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ یونیورسٹی آف پشاور اور بلوچستان کے بارے میں کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ یہ تو فنڈز کی عدم دستیابی کے سبب وینٹی لیٹر پر پڑی ہیں۔ جامعہ بلوچستان کا حال یہ ہے کہ اس کے پاس اپنی لیبارٹریز کے لئے کیمیکل خریدنے کا بھی بجٹ نہیں۔پشاوریونیورسٹی کا بجٹ ایک ارب ستر کروڑ ہے جس میں سے ایک ارب روپے فقط پنشن کی ادائیگی میں صرف ہو جاتے ہیں۔ یونیورسٹی آف پنجاب کو سالانہ ایک ارب 16 کروڑ روپے کے خسارے کا سامنا ہے۔ قائد اعظم یونیورسٹی کو بھی فنڈز کی کمی سمیت دیگر مسائل کا سامنا ہے۔ یونیورسٹی کی600 ایکڑ اراضی پر غیر قانونی قبضہ ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی کو 565 ملین اور جامعہ پشاور کو 745 ملین روپے کے خسارے کا سامنا ہے۔ کمیٹی کو ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے بتایا کہ 2021-21 کا مجموعی بجٹ بشمول سپلیمنٹری گرانٹس 70 ارب 45 کروڑ تھ جبکہ اس مالی سال میں جامعات کا مجموعی خرچ 80 ارب 61 کروڑ تھا۔
اس طرح کی تفصیلی خبریں تمام قومی اخبارات میں شائع ہوئی ہیں۔ اداریے بھی لکھے گئے ہیں لیکن کیا یہ سنگین مسئلہ اس طرح حل ہو جائے گا؟ حالت یہ ہے کہ برسوں سے تعلیم کا شعبہ حکومتی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ قومی بجٹ میں تعلیم کا حصہ صرف تین فی صد کے قریب ہوتا ہے۔ اس حقیر رقم سے ہم کس طرح اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دے سکتے ہیں۔ دنیا کی یونیورسٹیاں تحقیق اور تجربات بلکہ ایجادات میں بھی کہاں سے کہاں نکل گئی ہیں۔ اور ہمارا حال یہ ہے کہ یونیورسٹی سطح تک پہنچنے والے نوجوانوں کے پاس ابتدائی نوعیت کے لیبارٹری تجربات کے لئے کیمیکلز بھی دستیاب نہیں۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ یہ کمیٹی شاید سینٹ کی سب سے زیادہ سرگرم اور متحرک کمیٹی ہے۔ اس کے چیئرمین، سینیٹر عرفان صدیقی، صحافت اور سیاست میں آنے سے قبل طویل عرصہ تعلیم و تدریس سے وابستہ رہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ اخباری رپورٹس کے مطابق انہوں نے رسمی اور کاغذی کارروائیوں کے بجائے ٹھوس اقدامات کا فیصلہ کیا ہے اور یونیورسٹیوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے عمل کا آغاز بھی کر رہے ہیں۔ ایسا غالباً پہلی بار ہوا ہے کہ ملک کی پانچ نمائندہ جامعات کے وائس چانسلر صاحبان کو قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لئے بلایا گیا جہاں انہوں نے کمیٹی کو اپنی مشکلات اور مسائل سے آگاہ کیا۔ سب سے بڑا مسئلہ مالی بحران کا سامنے آیا ہے جس سے لگتا ہے کہ ہماری جامعات بھی اب خط غربت سے نیچے چلی گئی ہیں اور ان کے لئے اساتذہ اور ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں کی ادائیگی بھی مشکل ہو گئی ہے۔ یہ تو ملک کی پانچ بڑی اور نمائندہ جامعات کا حال ہے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سرکاری اہتمام میں چلنے والی دیگر جامعات کا کیا حال ہو گا؟ یہ جامعات سالانہ تقریبا پانچ لاکھ یونیورسٹی گریجوائیٹس تیار کرتی ہیں۔ سوچنے کا مقام ہے کہ ان گریجوائیٹس کا معیار کیا ہو گا؟ اور یہ بھی کہ ہم زندگی کے ہر دوسرے شعبے کی طرح تعلیم میں کیوں اتنے پیچھے ہیں؟ یہاں کیا خاک ریسرچ ہو گی؟ یا تحقیقات اور ایجادات ہوں گی جہاں یونیورسٹیاں بقول چیئر مین کمیٹی وینٹی لیٹر ہی پڑی ہیں۔

تبصرے بند ہیں.