سب سے بڑا ٹاکرا

118

اس وقت میڈیا پر ایک ہی بات چل رہی ہے اور وہ ہے سب سے بڑا ٹاکرا۔ جی ہاں پاکستان اور بھارت کے درمیان ٹی 20کے اس میچ کو سب سے بڑے معرکہ سے تعبیر کیا جا چکا ہے او ر جس وقت یہ سطور پڑھ رہے ہیں اس وقت تک اس کا نتیجہ بھی آ چکا ہے۔ کرکٹ کے اس میچ کو حق و باطل کے ایک معرکے کے طور پر پیش کیا جارہا ہے حالانکہ یہ محض ایک میچ ہے مگر ٹی ایل پی کے چکر میں یا عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لیے میڈیا پر اس کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا۔ مختلف پھکیاں ہر دور میں بیچی جاتی رہی ہیں اور جہاں تک اس حکومت کا تعلق ہے تو اس سے کسی بھی قسم کی توقع کی جا سکتی ہے۔ سب سے بڑا ٹاکرا اور معرکہ کرکٹ کا یہ میچ نہیں ہے بلکہ حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان مسلح تصادم ہے اور حکومتی زعماء کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود وہ ملک سے باہر چلے گئے۔ روم جل رہا تھا اور نیرو چین کی بانسری بجا رہا تھا۔ کیا کسی ملک کا وزیرداخلہ ملک کو درپیش چیلنجز سے نپٹنے کے بجائے اس طرح میچ دیکھنے دبئی جانے کا تصور بھی کر سکتا ہے۔ وزیرداخلہ جو ملک کی داخلی صورتحال کا ذمہ دار ہے کیا اسے یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ ٹی ایل پی اپنے مطالبا ت پورے نہ ہونے پر سڑکوں پر آ رہی ہے اور وہ پورے ملک کو جام کر دے گی۔ حکومت کے پاس اطلاعات کے نظام کی اس قدر کمی ہے۔ حکومت اپنے اعمال سے لوگوں کو یہ باورکرانے کی پوری کوشش کر رہی ہے کہ ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔ ٹی ایل پی جسے کالعدم تنظیم کہا جارہاہے اس کے ساتھ مذاکرات شروع ہو چکے ہیں اور وزیر داخلہ نے یہ مذاکرات دبئی سے آ کر کیے ہیں اور ان کے کامیاب ہونے کا مژدہ سنا کر کہا ہے منگل تک تمام معاملات کو حل کر لیا جائے گا اور اس وقت تک ٹی ایل پی کے شرکاء مریدکے میں ہی قیام کریں گے۔ ٹی ایل پی کے ساتھ حکومت نے ایک معاہدہ کیا تھا اور اس معاہدے کی شقوں پر عمل درآمد کیا جانا چاہیے تھا اور ان سے جو وعدے کیے گئے تھے حکومت نے ان کو پورا کرنا تھا مگر اس سمت میں اب تک کچھ نہیں کیا گیا۔ حکومت شاید یہ سمجھ رہی تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ عوام کی طرح ٹی ایل پی بھی سب کچھ بھول جائے گا۔
ن لیگ کے دور حکومت میں ٹی ایل پی کا احتجاج بھی سب کو یا دہے جب وزراء کے گھروں پر حملے کیے گئے تھے اور فوج کی جانب سے دونوں فریقین سے کہا گیا تھا کہ وہ تحمل سے کام لیں۔ اس بار حکومت اور ٹی ایل پی دونوں جانب سے ہلاکتیں ہوئی ہیں دو پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے ہیں اور ٹی ایل پی نے بھی کئی کارکنوں کی زخمی اور ہلاک ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ سعد رضوی سے کوٹ لکھپت جیل میں ملاقاتیں اس موقع پر ہو رہی ہیں تو پہلے ان مذاکرات کی ضرورت کو کیوں محسوس نہیں کیا گیا۔ لوگوں کی جان و مال اور املاک کی حفاظت حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے لیکن وہ اپنی اس بنیادی ذمہ داری کو بھی پوراکرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ملک جل رہا ہے اور فواد چوہدری دبئی میں پریس کانفرنسیں کر رہے ہیں، وزیراعظم عمران خان سعودی عرب کے دورے پر تشریف لے جا چکے ہیں۔ بلی اور چوہے کا کھیل شروع ہو چکا ہے۔ کچھ لوگ اس سارے معاملے کو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان محاذ آرائی سے جوڑ رہے ہیں لیکن یہ سوال بہرحال اپنی جگہ موجود ہے کہ حکومت کسی بھی معاملہ پر سنجیدہ نظر نہیں آ رہی۔ ٹی ایل پی اگر اسلام کا کارڈ استعمال کر رہی ہے تو حکومت بھی اس سے پیچھے نہیں رہی۔ جس وقت وزیراعظم ریاست مدینہ کے دعوے کر رہے تھے لوگ میڈیکل سٹوروں پر پیناڈول تلاش کر رہے تھے۔ روٹی تو پہلے ہی عوام سے چھیننے کی مکمل تیاری کی جا چکی ہے اب دوائی بھی ان کی پہنچ میں نہیں رہی اور کوئی اس سوال کا جواب دینے کے لیے تیار نہیں ہے کہ مارکیٹ سے دوائی کیوں غائب ہو رہی ہے۔ خورنی تیل کی فی لٹر قیمت میں ایک سو روپے کااضافہ ہو چکا ہے۔ یہ ہے سب سے بڑا ٹاکرا۔ میچ کا کیا ہے وہ ہم ہاریں یا جیتیں اس کا معیشت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لوگوں کو اس میچ کے جیتنے کے بعد دوائی ملنے کی امید نہیں ہے اور نہ ہی روٹی پندرہ روپے سے دس روپے پر آ جائے گی۔ آٹے کی قیمت ڈالر کی طرح اوپر جانے والی قیمت بھی واپس نہیں آ ئے گی۔
اس حکومت میں ایک سے بڑھ کر ایک نابغہ موجود ہے۔ فواد چودھری اور شہباز گل کیا کم تھے کہ گورنر سٹیٹ بنک بھی بول پڑے۔ گورنر سٹیٹ بنک جن کو ملک کی معیشت کا ستو ن سمجھا جا تا ہے ڈالر کے ریٹ بڑھنے کو وہ ملک کے لیے فائدہ مند قرار دے رہے ہیں۔ صرف اس بیان نے معیشت کے حوالے سے ان کی سنجیدگی اور مہارت کو دنیا کے سامنے آشکار کر دیا ہے۔ اس بیان کے سامنے آنے کے بعد ان کا گورنر کے عہدے پر موجود رہنا اس عہدے کی توہین ہے۔ وہی معاملہ ہو گیا کہ ہم کو ان سے ہے وفا کی امید، جو نہیں جانتے وفا کیا ہے۔ مصر میں گورنر سٹیٹ بنک نے جو گل کھلائے تھے وہ آشکار ہو چکے ہیں۔ ایک ڈمی کو سٹیٹ بنک کے سب سے بڑے عہدے پر فائز کرنے سے بہتر ہے کہ سارے معاملات آئی ایم ایف کے سپر د کر دیے جائیں کم از کم انتظامی اخراجات میں تو کمی آئے گی۔ ترین صاحب کی بھی سنیے وہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے گئے تھے اور اس سے پہلے ہی لوگوں سے ان کے منہ کانوالہ چھین لیا۔ پٹرول کی قیمتوں کو آسمان پر پہنچا دیا، بجلی کے نرخ بڑھا دیے اور گیس کے بارے میں یہ مژدہ جان فزا سنا دیا گیا کہ آنے والی سردیوں میں عوام کو گیس کی بدترین لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آئی ایم ایف نے مزید ٹیکس لگانے ڈالر کو اوپر لے جانے سمیت ایسی شرائط رکھ دی ہیں کہ عوام کا جینا دوبھر ہو جائے گا۔ کرکٹ نہیں معیشت کو درست کرنا سب سے بڑا ٹاکرا ہے۔ جناب وزیراعظم اس ٹاکرے کے لیے تیاری کیجیے اور جہاں تک آپ کی ٹیم کا تعلق ہے اور ان کی کیا قابلیت ہے وہ آپ بھی جان گئے ہوں گے۔ علیم ہو ترین ہو شہباز ہو یا فوادیہ سب پنچھی ہیں گرم ہوا چلی تو سب اڑ کر نئی ڈال پر بیٹھ جائیں گے اور بھگتنا آپ کو پڑے گا۔بحران کو تھوڑا سا طول دے کر اندازہ لگا لیجیے کہ کون کون آپ کے ساتھ ہے۔دوسروں کی عیش و عشرت کے لیے اپنی سیاست اور آخرت کو خراب مت کیجیے۔ عوام کے لیے آسانیاں پیدا کیجیے تو عوام آپ کے لیے جان نچھاور کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ اس بڑے ٹاکرے کی تیاری کریں تاکہ تاریخ میں آپ ایک مقام حاصل کر سکیں۔ہنوز دلی دور است والا معاملہ ختم ہو چکا۔قبل از وقت انتخابات کے مطالبے شروع ہو چکے ہیں اور وقت پر بھی انتخابات ہوئے تو آپ کے پاس کچھ نہیں ہے کہ آپ عوام کو بہلا سکیں۔ اس بڑے ٹاکرے کی تیاری کریں۔ظل الٰہی وقت ختم ہوتا جار ہا ہے۔

تبصرے بند ہیں.